ملیر اور ڈسکہ میں قومی اسمبلی کا ضمنی الیکشن کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہیں۔ الیکشن کے نتائج سے قطع نظر ووٹنگ کے دوران میں جو تشدد ‘ ہنگامہ آرائی ہوتی رہی اس سے ہمارے سیاسی کلچر کی عکاسی ہوتی ہے۔ برطانیہ یا یورپ کے ممالک جن سے ہم نے جمہوریت کا سبق پڑھا ہے وہاںاس قسم کے خوں ریزالیکشن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتے۔ جبکہ ہمارے ملک میں الیکشن کے روز لڑائی جھگڑا معمول کی بات ہے۔ اگلے روز کراچی میں ملیر کے ضمنی الیکشن میں ایسا ہوا۔ تھرپارکر میںایک پولنگ اسٹیشن کو آگ لگا دی گئی۔ہمارے ہاں انتخابات میںفساد اور خون خرابے کی پرانی روایت ہے۔انتخابی تشدد کی روک تھامم روکنے کے لئے نوّے کی دہائی سے پاک فوج کو ووٹنگ کے دن پولنگ مراکز پر تعینات کرنا شروع کیا گیا تھا ۔ کیونکہ پولیس پر لوگوں کا اعتماد نہیں کہ وہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کرے گی۔دیہی علاقوں میں تو امیدوار کے جیتنے میں پولیس کے تعاون کاحصہ خاصا زیادہ ہوتا ہے۔ پندرہ بیس فیصد ووٹ پولیس کی مدد سے حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر رکن اسمبلی پوری کوشش کرتا ہے کہ اس کے حلقہ انتخاب میں اسکی مرضی سے تھانیدار تعینات کیے جائیں ۔ یہ ہے ہماری جمہوریت اور گورننس کا نظام۔ وزیراعظم عمران خان نے حکومت میں آنے سے پہلے بڑے دعوے کیے تھے کہ وہ پولیس کو غیر سیاسی بنادیں گے اور اسکے نظام میں اصلاحات کریں گے۔ حکومت بنتے ہی یہ دعوے خاک میں مل گئے کیونکہ اگر وہ پولیس کو غیرسیاسی بنائیں گے تو انکے حامی ارکانِ صوبائی اسمبلی بغاوت کر دیں گے۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت قائم نہیں رہ سکے گی۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ کی ساخت ایسی ہے کہ یہاں مغربی جمہوریت کامیابی سے نہیں چل سکتی۔ اس نظام کا ارتقا انگریز معاشروں کی تہذیب و ثقافت کے مطابق ہُوا ہے ۔ یہ بندبست وہیں کامیابی سے چل سکتا ہے۔ہمارے ملک میںمغربی جمہوریت کی نقل اسی طرح لُولی لنگڑی چلے گی جسکا مظاہرہ ہم دہائیوں سے دیکھتے آرہے ہیں۔ اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی کا تصور کمزور اور صرف کتابوں تک محدود ہے۔ہمارا معاشرہ تعلق داری پر چلتا ہے‘ قانون پر نہیں۔اسکی جڑیں ہماری معاشرت اور عمرانی حقائق میں پیوست ہیں۔ پاکستانی معاشرہ میں جو لوگ شہروں میں رہتے ہیں وہ بھی قبائلی اور جاگیردارانہ نظام اقدار پر عمل پیرا ہیں‘ مکمل نہیں تو جزوی طور پر سہی۔ ہماری زندگی میں رشتے داری نظام کی مرکزی اہمیت ہے۔مغرب میں اسکا وجود برائے نام ہے ۔ یہ بنیادی سماجی حقیقت ہمارے سیاسی نظام اور اسکے کام کرنے کے طریقہ (حرکیات) پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ رشتے داری نظام کے بہت سے فوائد ہیں ۔لیکن نقصان یہ ہے کہ اس سے اقربا پروری جنم لیتی ہے۔ قانون کی حکمرانی قائم نہیں رہ سکتی۔ میرٹ کا خون ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرہ میں کسی بڑے عہدہ پر فائز شخص کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے کہ اپنے کسی رشتے دار یا برادری سے تعلق رکھنے والے شخص کا جائز یا ناجائزکام نہ کرے۔ بصورتِ دیگر اسے خاندان میں بدنامی اوربائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ معاشرہ عموماً ایسے آدمی کو گھٹیا سمجھتا ہے جو اپنے رشتے داروں‘ برادری والوں کا خیال نہ رکھے۔انہیں دوسروں پر ترجیح نہ دے۔ ایک جدید صنعتی معاشرہ تو میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر چلتا ہے۔جب بھی میرٹ نظر انداز ہوگا توجدید ادارے بیٹھ جائیں گے۔ پی آئی اے‘ اسٹیل ملز‘ ریلوے اور دیگر سرکاری اداروں کی تباہی میںکرپشن کے ساتھ ساتھ اقربا پروری کی بنیاد پر بھرتیوں ‘ تقرریوں اور تعیناتیوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ ہمارے لوگ قبائلی ‘ برادری تعصبات کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے ہیں۔ وہ امیدوار جو گھر سے برادری کے بیس تیس ہزار ووٹ لیکر نکلتا ہے سیاسی جماعتیں بھی اسے ٹکٹ دیتی ہیں۔جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ میں ایک طرف جاگیردار‘ وڈیرے ہیں تو دوسری طرف بہت غریب کسان‘ مزدور‘ ہنر مند افراد۔ یہاں رہنے والوں کی غالب اکثریت عملی طور پر شہری نہیں بلکہ رعایا ہے۔ بڑے زمیندارانتظامیہ کی مدد سے لوگوں کو ہنکا کر جس طرف لے جائیں گے، وہ اس سمت میں جانے پر مجبور ہیں۔ مغربی ممالک کے برعکس ہمارے ہاں فرد فیصلہ نہیں کرتا بلکہ پورا خاندان یا برادری کسی امیدوار یا پارٹی کو ووٹ ڈالنے کا مشترکہ فیصلہ کرتی ہے۔ فرد کی آزادی کا جو تصور مغرب میں ہے وہ ہمارے ہاں نہیں۔شہری علاقوں میں محدود طبقہ ہے جسکے افراد انفرادی طور پر سیاسی وابستگی کا اظہار کرسکتے ہیں لیکن انکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔جس جگہ پر اسّی نوّے فیصد لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ پیٹ کی بھوک ہو‘ دو وقت کاموٹا جھوٹا کھانا ہو وہ غریب و بے کس لوگ کروڑ پتی ‘ ارب پتی وڈیروں کے سامنے کیا جمہوری حق استعمال کرسکتے ہیں۔ جنوبی پنجاب اور سندھ کے سیاستدانوں ‘ ارکان ِقومی وصوبائی اسمبلی کی فہرست نکال کر دیکھیں تو پتہ چلتاہے کہ جو خاندان انگریز کے زمانے میں 1937 میںہونے والے پہلے الیکشن میں کامیاب ہوئے تھے ان کے پوتے پڑ پوتے اور قریبی رشتے دار آج تک منتخب ہوتے آرہے ہیں۔ وسطی اور شمالی پنجاب ایسے جن علاقوں میں بڑی زمینداریاں نہیں ہیں ‘ کسی قدر صنعتی ترقی زیادہ ہوئی ہے‘ تجارت کو فروغ ملا ہے‘ متوسط طبقہ موجود ہے لیکن یہاں برادری نظام مضبوط ہے جو ایک طرح سے قبائلی معاشرت کی ترمیم شدہ شکل ہے۔پنجاب کے یہ علاقے جاگیرداری کے شکنجہ سے تو نکل گئے لیکن ان پر جرائم پیشہ افراد اور سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ پر مبنی گروہوں کی گرفت ہے۔ ایسے سیاسی کلچر میں بیچاری دھان پان پارلیمانی جمہوریت پر تو یہ مثل صادق آتی ہے کہ رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی ہے۔ ملیر اور ڈسکہ کے متنازعہ ‘ پُرتشدد الیکشن سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ان حالات میں بلدیاتی الیکشن ہوئے تو کیسی ہنگامہ آرائی اور خون خرابہ ہوگا۔ کامیاب وہ پارٹی ہوگی جسکے پاس زیادہ دولت مند امیدوار اور بڑی تعداد میں غنڈے ہونگے۔ یہی صورتحال اگلے عام انتخابات میں ہوگی۔ فوج کی تعیناتی سے پُر امن الیکشن ہوسکتے ہیں لیکن اس پرطرح طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ ہم ایک منحوس چکر میں پھنس چکے ہیں۔ جاگیرداروں ‘ قبائلی سرداروںاور جرائم پیشہ افراد نے سیاسی نظام کو یرغمال بنالیاہے۔عام کے حقوق کے نام پر عوام کا بدترین استحصال کیا جارہا ہے۔ ہماری نام نہاد جمہوریت نظریات اور اصولوںکی بجائے ناجائز دولت کے استعمال پر استوار ہوگئی ہے۔اسکا بڑا مظاہرہ سینٹ کے الیکشن میںارکان کی خرید و فروخت سے ہوتا ہے۔ موجود ہ نام نہاد جمہوری نظام ہمارے معاشرہ کے پست ترین عناصر کو تحفظ اورفروغ دے رہا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے نہ گورننس بہتر ہوسکتی ہے‘ نہ کرپشن ختم ہوسکتی ہے ‘ نہ معاشی ترقی ممکن ہے۔ اس اندھیرے سے نکلنے کا راستہ یہی ہے کہ ہم اپنے جمہوری نظام حکومت کو اپنے سماجی حالات کے مطابق تشکیل دیں۔ مغربی ممالک کی اندھی نقالی نہ کریں۔سب سے زیادہ ذمہ داری تعلیم یافتہ طبقہ کی ہے کہ و ہ سنجیدہ بحث مباحثہ کرکے کوئی قابل عمل حل نکالے کہ ہم اس اندھیر نگری سے کس طرح جان چھڑائیں۔