مالیاتی خسارہ اب اس ملک اور قوم کے اعصاب پر سوار ہوگیا ہے۔ پوچھیں ،بھلا یہ کس بلا کا نام ہے؟ یہ آمدنی اور خرچ کا فرق ہے۔ مطلب، بچت کے بالکل برعکس فضول خرچی کے زمرے میں آتا ہے۔ضرورت ہے یا نہیں بلکہ ایک لگے بندھے طریقے سے معاملات چل رہے ہیں۔ تبدیلی کی ہرخواہش ، چاہے وہ ملک وقوم کے لیے کتنی فائدہ مند کیوں نہ ہو، بغاوت کے زمرے میں آتی ہے۔ ماضی میں اتنا تردد کیا جاتا تھا کہ شرح سود مالیاتی خسارے کے برابر رکھی جاتی تھی۔ مہنگائی کا تنا سب بھی اس کے اردگر رہتا تھا۔ اب حکومت خود ہی وہ اقدامات اٹھارہی ہے جیسا کہ توانائی پر ٹیکس اور روپے کی قدر میں کمی، جس سے مہنگائی کی شرح ریکارڈ حد تک بہنچ گئی۔ مہنگائی قابو میں رکھنے کیلئے شرح سود بڑھائی جاتی ہے لیکن بے سود۔ ایک اضافے سے کام نہیں بنتا تو دوسرا۔ یہ حربہ کام نہیں کررہا البتہ حکومت کا بھلا ہورہا ہے کہ اسے قرض اندرونی ذرائع سے دستیباب ہوجاتا ہے اور وہ بھی ایسے کہ مقامی سرمایہ کار ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لیے دو واضح راستے ہیں، ٹیکسوں کے دائرہ کار میں توسیع اور بچت ۔ لیکن اس طرف اشرافیہ کا دھیان نہیں جاتا۔ محصولات کے لیے کم اور متوسط آمدنی والے طبقوں پر انحصار تقسیم ہند سے پہلے کی روایت ہے جسے اشرافیہ نے اپنے گلے میں تعویذ کی طرح لٹکا یا ہوا ہے۔ یعنی جس کے پاس کم ہے اس کے پاس پھوٹی کوڑی نہیں چھوڑنی ا ور خرچ اس پر کرنا ہے جس کے پاس خدا کیا دیا بہت کچھ ہے۔ اب لوگوں کے پاس قوت خرید نہیں ہوگی تو یہاں فیکٹریاں کس نے لگانا ہیں؟ ہمارے ہاں جتنی بھی انڈسٹری ہے وہ یا تو زرمبادلہ بچانے کے لیے لگائی گئی ہے یا پھر برآمدات کے لیے تاکہ تجارتی توازن برقرار رہے۔ مقامی منڈی میں بہتری کا کسی کو خیال نہیں آتا کیونکہ جو نظام ہم پر لاگو ہے وہ ہے ہی استعماری دور کا۔ یہی حال قانونی ڈھانچے کا ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنان کی پولیس جو درگت بنا رہی ہے اسی سے اندازہ لگالیں۔ دفعہ ایک سو چوالیس لاہور ہائی کورٹ کالعدم قرار دے چکی ہے لیکن اسکا استعمال ہورہا ہے۔ تجارت کے حالات اس حد تک پریشان کن ہیں کہ ادائیگیوں کا توازن ٹوٹ گیا ہے اور محصولات بیرونی واجبات پر سود کی ادائیگی کے برابر ہیں۔ دستیاب وسائل کی بدانتظامی کا یہ عالم ہے کہ پانچ دریاؤں کی سرزمین میں پینے کا صاف پانی ناپید ہو گیا ہے اور خوردنی تیل اور دالوں جیسی اشیائے ضروریہ درآمد کی جا رہی ہیں ۔ سویلین حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ہدایت پر ان پر اندھا دھند ٹیکس لگا رہی ہے۔ اب اگر باقی معاملات ٹھیک ہوتے تو ہمارے ہاں صرف مسئلہ پٹرولیم مصنوعات ہوتیں جن کی سپلائی یوکرین جنگ کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے۔ ضروری اشیاء پر پہلے سبسڈی دی جاتی تھی لیکن یہ اب ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ سول حکومت بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے سامنے بے بس ہے۔ اگر وہ اپنے معاشی منصوبے شروع نہیں کر سکتی تو لوگوں کا مایوس ہونا فطری ہے۔ اشیائے ضروریہ پر ٹیکسوں کا خاتمہ حکومتی اتحاد کی مقبولیت بڑھانے کا مختصر ترین طریقہ ہے لیکن چونکہ ایسا کرنے سے اشرافیہ کی مراعات کو قربان کرنا پڑے گا، اس لیے اسے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف وفاقی حکومت نے پالیسی اقدامات سے خود مہنگائی کو ہوا دی ہے، صوبائی حکومتیں بھی کم قصوروار نہیں کیونکہ وہ انتظامی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے منافع خوروں، سمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کو پکڑتی ہیں۔ اور وہ واقعی سزا پانے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے اور کوئی بھی سیاسی پارٹی ، خاص کر جب وہ کمزور حالت میں ہو ، مافیا پر ہاتھ ڈالنے سے ہچکچاتی ہے۔ مقامی حکومتیں نہ ہونے سے چونکہ سیاسی پارٹیوں کی جڑیں عوام میں نہیں ہیں، یہی مافیا ہے ، جس کی مدد سے ،دھونس اور دھاندلی کا استعمال کرکے لوگوں سے ووٹ لیے جاتے ہیں۔ مطلب لوگ جتنے غریب اور لاچار ہونگے ان سے ووٹ لینا اتنا ہی آسان۔ حال ہی میں شائع شدہ گیلپ سروے رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ معاشی حالت میں بہتری کے حوالے سے حکومتی کارکردگی سے مایوسی کی وجہ سے بدامنی کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے جس کے اثرات نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر محسوس کیے جائیں گے۔ کیا اشرافیہ کو اس خطرے کا احساس ہے؟ یہ معاشی طور پر کچھ نہیں کر سکتی ۔ امرا کوٹیکس کے دائرے میں نہیں لا سکتی، ان سے مراعات واپس نہیں لے سکتی اور اس کے پاس عوام کو ریلیف دینے کے وسائل نہیں ہیں۔ غرضیکہ ہر وہ کام جو زمانہ جدید میں ریاست کو اپنے پاوں پر کھڑا کرسکتا ہے اور اسکی دائمی سلامتی کا ضامن ہوسکتا ہے، وہ اشرافیہ کے بس میں ہی نہیں ۔ جو کا م یہ کرسکتی ہے وہ البتہ بڑی دھوم دھام سے کر رہی ہے۔ اس نے سرکای مشینری کو مافیا کی سرکوبی کے لیے نہیں بلکہ اپوزیشن کو کچلنے پر لگا دیا ہے۔ آئین اور قانون اسکی اجازت دیتا ہے یا نہیں، اس کی بلا سے! سیاسی کارکنوں کو ان کے گھروں سے گھسیٹ کر نکالا اور پہلے سے پرہجوم جیلوں میں ٹھونسا جارہا ہے۔ رشتہ داروں تک کو معاف نہیں کیا جارہا۔ اپوزیشن پارٹی کے سربراہ پر ڈیڑھ سو سے زیادہ کیس ہیں۔ ایک سے ضمانت ہوتی ہے تو دوسرے وارنٹ آجاتے ہیں۔ سیدھا سادھا فارمولہ یہ ہے کہ اگر اپوزیشن کا گلا گھونٹ دیا جائے تو عوامی غصے کو راستہ نہیں مل پائے گا۔ گھروں میں بڑ بڑاتے اور کڑھتے رہیں۔ اس حساب سے یہ اپوزیشن ہی جو ملک کو انتشار کے راستے پر لے جاسکتی ہے۔ تبھی تو تحریک انصاف کو فتنے کا نام دیا گیا اور کوشش اس وقت یہ کہ اس پر پابندی لگ جائے ویسے ہی جیسے بھٹو دور میں نیشنل عوامی پارٹی پر لگی تھی اور اس کے نتیجے میں اسکی سرحداور بلوچستان میں حکومت ختم ہوگئی تھی۔ اگر تحریک انصاف کا حشر نیپ جیسا نہ کیا جاسکا تو ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ دیوالیہ پن میں ہی تیرہ ملکی حکومتی اتحاد کو اپنی نجات نظر آنے لگے۔