کوئی ہماری اس فریاد پر کان نہیں دھرتا،کیوں دھرے گا؟کیا آزادی مانگنے سے آج تک کسی کو ملی ہے ؟۔جب کشمیری قیادت کہتی ہے کہ اس کے مقابلے میں شہ رگ ہونے کا دعوے دار بھی عملی قدم اٹھائے تو کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی مالی پوزیشن ٹھیک نہیں۔جنرل پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیرکا ’’حل‘‘جہاں ختم کیا تھاوہاں سے ’’شروع‘‘کرنے کا شائد وقت آگیا ہے۔تب کچھ جلد باز کشمیری قیادت نے اسے قبول کیا تھا۔اب ایسا کرنے کے لیے بھی شاید کچھ بیساکھیاں حرکت میں آئیں گی۔ مشرف کاتین نکاتی فارمولہ کشمیری قوم نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ جنرل مشرف نے اس فارمولے کو بظاہرایک تجویز کہااور بحث مباحثے کے ذریعے اتفاق رائے پر پہنچنے کا ایک ذریعہ قرار دیا تھا‘لیکن اپنی ساخت میں یہ تقسیم کشمیر کا خطرناک منصوبہ تھا اوراپنے اندر یہ منصوبہ نہایت خطرناک مضمرات رکھتا ہے۔اس کے بالواسطہ اور بلاواسطہ نتائج تحریک آزادی کشمیر کے لیے زہر ہلاہل سے کم نہیں۔ مشرف نے یہ فارمولہ پیش کر کے بھارت کا یہ حق تسلیم کر لیا تھا کہ وہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ ختم کرنے کے بجائے پسند کا حصہ بطور تحفہ وصول کرے‘ایک حصہ پاکستان کو بخش دے اورکچھ کو عالمی طاقتوں کی چرا گاہ بنانے کے لیے ’’خود مختار‘‘ چھوڑ دیاجائے۔ عراق‘افغانستان اور فلسطین میں امریکہ جو کردار ادا کرتا رہا ہے اس کی روشنی میں یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ اسے کبھی کشمیر کی پروا بھی ہو سکتی ہے۔اس جیسے فارمولوں کے ذریعے خدانخواستہ کشمیر کے لاکھوں شہیدوں کا لہو فروخت کر دیا جائے‘ تو اس سے کیا حاصل ہوگا؟اس طرح تو ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کی جو قیمت لگائی جا رہی تھی وہ اس سودے سے بھی کم ہے جو گلاب سنگھ ڈوگرہ نے انگریزوں کو ادا کی تھی۔تب حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانیؒ نے اس فارمولے پر اپنا فوری رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہاتھا کہ وہ پاکستان کے صدر کی اس تجویز کو قبول نہیں کر سکتے کہ مذہبی اور لسانی بنیادوں پر کشمیر کو تقسیم کردیا جائے‘مسئلہ کشمیر کا واحد حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق استصواب رائے ہے‘جس کی خاطر کشمیری قوم پانچ لاکھ انسانوں کی قربانی دے چکی ہے۔سید علی گیلانی نے حریت کانفرنس کے’’ماڈریٹ‘‘ (انصاری)گروپ کی طرف سے ان تجاویز کے خیر مقدم پر تنقید کرتے ہوئے برملا کہا تھا کہ کچھ لوگ اس سے پہلے بھارت سے ’’اعتدال پسندی‘‘کا سرٹیفیکیٹ لے چکے ہیں‘اب ان کی خواہش یہ ہے کہ پاکستان بھی انہیں امن پسند اور لبرل ہونے کی سندعطا کرے۔مقبوضہ کشمیر کے ثقہ لیڈروں کی اکثریت اور آزاد کشمیر کے تمام قائدین نے (سردار قیوم مرحوم کو چھوڑ کر) اس فارمولے کو مسترد کر دیا تھا۔پاکستان میں تمام سیاسی اور دینی جماعتوں نے بھی جنرل مشرف کے منصوبے کو خطرناک اور پاکستان کے اصولی موقف سے انحراف قرار دیا۔ قائد اعظم ؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ اپنی شہ رگ کے ساتھ غیر سنجیدہ رویے کا کوئی جواز نہیں۔ پاکستان کی کشمیر پالیسی میں بار بار یوٹرن اور انحراف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں زیادہ عرصے تک آمریت رہی ہے۔تاشقند‘ شملہ‘ لاہور اور اسلام آباد میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جو باقاعدہ معاہدے کیے گئے۔ان کا کشمیر سے براہ راست تعلق تھا‘مگر کشمیری عوام کی مصدقہ قیادت کو ہر بار اندھیرے میں رکھا گیا۔ آج ایک بار پھرکشمیری دوراہے پر کھڑے ہیں۔اہل کشمیر کے حق خود ارادیت کا وکیل اس قدر لاغر اور بے بس نظر آرہا ہے۔ کشمیریوں کو حق خود ارادیت بھارت نے ان کو نہیںدیا ہے‘یہ ان کا پیدائشی حق ہے جو اقوام متحدہ کے متفقہ فیصلے اور قرار دادوں کے نتیجے میں ان کو ملا ہے۔موجودہ تحریک بھی کشمیری قوم کے شہیدوں کے لہو سے نمو پا کر جوان ہوئی۔یہ ایک لاکھ شہیدوں کے لہو کا اعجاز ہے کہ بھارت ایسے مسئلے پر غور کرنے اور اسے ’’جامع مذاکرات‘‘ کا حصہ بنانے پر آمادہ ہوا جسے دونوں ممالک سر دخانے میں ڈال کر بھول چکے تھے۔پاک فوج نے کشمیر کے لیے چار جنگیں لڑیں‘ قربانیاں بھی دیں‘ لیکن حکومتوں نے ہمیشہ میدان جنگ کی فتوحات اکثر مذاکرات کی میز پر ہار دیں۔ آج کشمیری پھر پپوچھ رہے ہیں کہ کشمیریوں سے پوچھے بغیر ان کے مستقبل کا فیصلہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاںحکمرانوں کی بصیرت اور وژن پر واہ واہ کے ڈونگرے برسانے والے بھی موجود ہیں۔وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پسپائی کوئی پالیسی نہیں اور غلامی کوئی آپشن نہیں ہوتا۔ نائن الیون کے بعدہم نے مسلسل رجعت کا راستہ اپنا ئے رکھا۔اس کا آغاز افغانیوں کے شکار میں شرکت سے ہوا تھا۔اس وقت یقین دلایا گیا تھا‘ کشمیر پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی‘ لیکن اس کے فوراً بعد امریکی حکم پر کشمیرکے جہاد کے بارے میں پالیسی بھی تبدیل کر دی گئی۔جہاد کی وہ تشریح قبول کر لی گئی جو امریکہ اور بھارت کی تھی۔پھر بھارت کی مرضی کے عین مطابق لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا یک طرفہ اعلان کیا گیا‘بھارت کو جنگ بندی لائن پر باڑ لگانے کی کھلی چھٹی دے دی جس سے بھارتی فوج کو کشمیری نوجوانوں کا قتل عام کرنے میں آسانی ہوگئی۔کشمیر کے نوجوان بھارتی فوج کی گولیوں اور سنگینوں کا شکار بنائے جاتے رہے‘ لیکن پاکستان نے دوستی کا سفر شروع کر دیا‘آج یہ حال ہے کہ ہم نے اپنے بھائی بہنوں کو قاتلوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا،ان کی قیادت سے آنکھیں پھیر لی ہیں۔ کشمیر کی وہ مائیں خون کے آنسو رو رہی ہیں جن کے جگر گوشے پاکستان کی شہ رگ کی بحالی کی جنگ میں کام آ چکے ہیں۔دل ہے کہ اسے قرار نہیں آرہا۔جان ہے سو بکھر بکھر گئی۔حشر کا دن ہو گا اورکشمیرکے ہزاروں شہید ہوں گے،مظلوم ہوں گے،ان کے ہاتھ ہوں گے ہمارا گریبان ہو گا۔ہمارے پاس ان کے سوالوں کا کیا جواب ہو گا؟