وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں قومی سلامتی کمیٹی کوبتایاگیا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن اور استحکام کے لئے اپنا تعمیری کردار جاری رکھے گا۔افغان حکومت کی سہولت کاری سے ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کا عمل جاری ہے جس میں حکومتی قیادت میں سول اور فوجی نمائندوں پر مشتمل کمیٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے آئین پاکستان کے دائرے میں بات چیت کررہی ہے، جس پر حتمی فیصلہ آئین پاکستان کی روشنی میں پارلیمنٹ کی منظوری، مستقبل کیلئے فراہم کردہ رہنمائی اور اتفاق رائے سے کیاجائے گا۔ امریکی دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان نے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا ہے ۔ 80 ہزار سے زائد پاکستانی سکیورٹی اہلکار اور شہریوں کی شہادت ہوئی۔جبکہ80 ارب ڈالر کا معیشت کو نقصان ہوا۔ اس کے بدلے میں امریکا کی طرف سے ہمیں جو کچھ ملا،وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کو بہت پہلے ہی پرائی جنگ سے نکل کر اپنی شہریوں کی جان ومال کی حفاظت یقینی بنانی چاہیے تھی۔مگر انھوں نے تساہل سے کام لیا ۔جس کے باعث آج ہم ا س مقام تک پہنچے ہیں۔ اپنے بگڑے ہوئے معاملات کو سیدھا کرنے کے لیے ہم نے کیا کرنا ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں کسی بھی دوسرے ملک کی طرف دیکھنے کی بجائے خود کو اتنا مضبوط اور مستحکم بنانا چاہیے کہ ہم دوسروں کے دست نگر نہ رہیں۔معاملات میں سدھار پیدا کرنے کے لیے موجودہ حکومت جو اقدامات کررہی ہے،وہ خوش آئند ہے ۔لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ماضی میں جب تحریک انصاف کی حکومت نے کالعد م تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کیے تھے تو تب پاکستان پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ اس کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ،اس وقت یہ کہا جاتا تھا: ہمیں اعتماد میں نہیں لیا جا رہا ۔ اب تحریک انصاف کو ان مذاکرات میں شامل نہیں کیا جا رہا ۔اس لیے ضروری ہے کہ حکومت تما م سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے ۔تاکہ کل کلاں کوئی بھی جماعت اقتدار میں آ کر اس امن منصوبے پر تنقید نہ کرے ۔ کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہئیں ۔اس سے نہ صرف امن قائم ہو گا بلکہ افراتفری اور لڑائی جھگڑے کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے ۔مذاکرات میںہمیشہ کچھ لو اور کچھ دو کا معاملہ ہوتا ہے ۔کچھ معاملات کی معافی تلافی ہوتی ہے ۔ابھی حال ہی میں جب افغان طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو سابق افغان صدر اشرف غنی سمیت سب مخالفین کو معاف کر دیا ۔حالانکہ ان کا ہم سے کئی گنا زیادہ مالی اور جانی نقصان ہوا تھا ،ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ کالعدم ٹی ٹی پی کے کچھ گروپس امن کی جانب لوٹنا چاہتے ہیں، حکومت بھی ان گروپس کے ساتھ رابطے مستحکم کرے۔ کیونکہ کالعدم ٹی ٹی پی کو غیر مسلح کرنے اور انہیںعام پاکستانی شہری بنانے کے لیے مذاکرات کرناریاست کے مفاد میں ہے ۔ ان مذاکرات میں افغان طالبان ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔اگر دیکھا جائے تو کالعدم ٹی ٹی پی کے مختلف گروہ ہیں، ان گروہوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جو پاکستان کے ساتھ اپنی وفا کا عہد نبھانا چاہتے ہیں اور ایک صلح جو، امن پسند اور آئین پاکستان کو مان کر آگے چلنے کا پیمان کرنا چاہتے ہیں۔اگر یہ مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر ہندوستان کی ریشہ دوانیوں کا بھی مکمل خاتمہ ہو جائے گا، کیونکہ ہمارا دشمن ان لوگوں کو ہمارے خلاف استعمال کرتا ہے ۔جس بنا پر آئے روز بلوچستان اوراور شمالی علاقہ جات میں سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں اور افسران کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کالعدم تحریک طالبان میں تقریبا تین سے پانچ ہزا رکے قریب لوگ شامل ہیں ۔یہ سب جنگجوکسی ایک کمان کے تحت کام نہیں کرتے بلکہ مختلف گروہوں میں تقسیم ہیں ۔اس لیے مذاکرات میں اس بات کی گارنٹی حاصل کی جائے کہ جس بھی اکثریتی گروپ کے ساتھ مذاکرات ہوں وہ دوسرے گروپس کو بھی امن کی جانب لائے گا ۔اگر وہ کسی قسم کی خلاف ورزی کریں گے تو پھر وہ خود ان کے خلا ف کارروائی کریں گے ۔ پاکستانی قوم اور افواج پاکستان کی بے مثال قربانیوں کی بدولت ملک بھر میں ریاستی عمل داری، امن کی بحالی اور معمول کی زندگی کی واپسی کو یقینی بنایاگیا ہے۔ آج پاکستان کے کسی حصے میں بھی منظم دہشت گردی کا کوئی ڈھانچہ باقی نہیں رہا۔یہ صرف افواج پاکستان کی بے پایہ قربانیوں کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے ۔پاکستان اور افغانستان ایک پرامن ، مستحکم ،متحد اور خو شحال خطے کے لیے کام کر رہے ہیںکیونکہ جب تک اس خطے میں امن قائم نہیں ہوتا تب تک یہاں سے غربت ،افلاس اور کسمپرسی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا ۔یہ خطہ ایک طویل عرصے سے جنگ وجدل میں گھرا ہوا ہے۔اسی بنا پر یہاں پر بیروزگاری کے بادل منڈلا رہے ہیں ۔گو اب امریکہ بھی اس خطے سے چلا گیا ہے ،جبکہ افغانستان میں بھی امن واپس لوٹ آیا ہے ،اس لیے ہمیں بھی کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کو کامیاب بنا کر امن کی جانب بڑھنا چاہیے ۔اس وقت حکمران اتحاد میں گیارہ جماعتیں شامل ہیں ،جو سبھی مذاکرات کی حامی ہیں ،صرف پی ٹی آئی کے ممبران نے اسمبلی کی نشستوں سے استعفے دے رکھے ہیں ،سیاسی اور عسکری قیادت انھیں بھی مذاکرات میں شامل کر ے ،سابق وزیرا عظم عمران خان تو ویسے بھی مذاکرات کے حامی ہیں ،لہذا انہیں بھی دعوت دی جائے تاکہ متفقہ طور پر مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کیاجا سکے۔