لاہور ہائیکورٹ بہاولپور بینچ کے جج مسٹر جسٹس شجاعت علی خان نے کہا کہ ریاست بہاولپور کے قیام کی 275 سالہ تقریبات کو تزک و احتشام کے ساتھ منایا جائے گا۔ تقریبات کے سلسلہ میں قائم کئے گئے سیکرٹریٹ کا افتتاح کر دیا گیا ہے، تقریبات کیلئے سیکرٹریٹ کا افتتاح کر دیا گیا ہے اور تقریبات آئندہ سال فروری 2023ء میں ہوں گی۔ اس سلسلے میں مختلف انتظامی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں، کہا گیا ہے کہ بہاولپور ڈویژن کا گزیٹر، تاریخی بروشراور دستاویزاتی فلم اور دیگر دستاویزات مرتب کی جائیں گی۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نواب سر صادق خان عباسی کی فلاحی ریاست کے تناظر میں خدمات کو اجاگر کیا جائے گا۔ سابق ریاست بہاولپور کے قیام کی 275 سالہ تقریبات منانے کا فیصلہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے، نہ صرف یہ کہ سابق ریاست بہاولپور بلکہ وسیب کے لوگ اس فیصلے کو استحسان کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں یہ بھی ضروری ہے کہ فلاحی ریاست کے ساتھ ساتھ قیام پاکستان کے لئے ریاست بہاولپور کی خدمات کو اجاگر کیا جائے، یہ ایک اہم نقطہ ہے۔ ریاست بہاولپور کی پاکستان کے لئے کتنی خدمات ہیں ؟ اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ پاکستان کی کرنسی کی ضمانت ریاست بہاولپور نے دی ،پہلی تنخواہ کی چلت کیلئے پاکستان کے پاس رقم نہ تھی تو نواب بہاولپور نے پہلے تنخواہ کی چلت کے لئے 7کروڑ روپے کی خطیر رقم دی قائد اعظم نے نواب بہاولپور کو محسن پاکستان کا خطاب دیا۔قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ قیام پاکستان سے قبل بھی ایک پاکستان ڈھائی سو سال پہلے موجود تھا اور اس کا نام ریاست بہاولپور تھا ۔ تحریک پاکستان قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کیلئے ریاست بہاولپور کا کردار ناقابل فراموش ہے مگر افسوس کہ آج ان باتوں کا تذکرہ تاریخ پاکستان اور نصاب کی کسی کتاب میں موجود نہیں۔قیام پاکستان سے پہلے نواب بہاولپور نے ریاست کی طرف سے ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا جس پرایک طرف مملکت خداداد بہاولپور اور دوسری طرف پاکستان کا جھنڈا تھا ،پاکستان قائم ہوا تو قائداعظم ریاست بہاولپور کی شاہی سواری پربیٹھ کر گورنر جنرل کا حلف اٹھانے گئے ۔ پاکستان کیلئے خدمات کے علاوہ ریاست بہاولپور کے ادارے تاریخی حیثیت کے حامل ہیں، 1882ء میں ڈیرہ نواب صاحب میں صادق گڑھ پیلس بنایا گیاتو بتایا جاتا ہے کہ اس کی لاگت اس وقت 15 لاکھ روپے آئی ،دیکھا جائے تو آج کے دور کے 15 ارب بنتے ہیں ، غیر ملکی ماہرین نے اس کام کو پایہ تکمیل پہنچایا۔ جامع مسجد الصادق کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ تاریخی مسجد اس جگہ قائم کی گئی جہاں وہ قدیم تاریخی مسجد موجود تھی جس کا سنگ بنیاد 1197ھ میں چشتیہ سلسلہ کے معروف بزرگ حضرت خواجہ نور محمد مہارویؒ نے رکھاتھا،موجودہ تاریخی مسجد الصادق کا نقشہ 1925ء میں ڈیزائن ہوا، مسجد کے نیچے سینکڑوں دکانوں پر مشتمل بازار ہیں اور مسجد کے نام سینکڑوں ایکڑ رقبہ الگ ہے، یہ مسجد شہر کے عین وسط میں واقع ہے، جسے دور دور سے دنیا دیکھنے آتی ہے۔ بہاولپور کے قدیم محلات میں نور محل، گلزار محل ، نوشاب محل، فرخ محل اور دولت خانہ اپنی مثال آپ ہیں۔ 1924ء میں سنٹرل لائبریری بہاولپور کی بنیاد رکھی گئی جو کہ اس وقت پورے ہندوستان کی بڑی لائبریری تھی اور اس کا رقبہ 88 کنال رقبہ پر محیط تھی۔ 1925ء میں جامعہ الازہر مصر کی طرز پر جامعہ عباسیہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 1906ء میں جدید سہولیات سے مزین بہاول وکٹوریہ ہسپتال کی جب بنیاد رکھی گئی توایشیاء کے بڑے ہسپتالوں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ بہاولپور کے تاریخی مقامات کے ساتھ ساتھ چڑیا گھر، سٹیڈیم، صادق پبلک سکول ، ستلج ویلی پراجیکٹ، لال سونہارا پارک بھی قابل دید ہیں۔ بہاولپورکے محلات اتنے شاندار تھے کہ یورپ بھی ان پر رشک کرتا تھا ، محلات میں فرنیچر پر سونے کے کام کے علاوہ برتن بھی سونے کے تھے،کرنسی کی یہ پوزیشن تھی کہ بہاولپور کا روپیہ اور برطانیہ کا پائونڈ برابر تھے۔ بہاولپور صوبہ نہیں ،ریاست تھی، کچھ لوگ اپنی سیاست چمکانے کیلئے بہاولپور صوبہ بحالی کی بات کرتے ہیں جو غلط ہے ۔ ایک خاص بات یہ کہ ریاست بہاولپور کا مونو گرام تھا جو ہمدردی و غمگساری کا شاہکار سمجھا جاتا۔ ریاست بہاولپور کے صادق دوست مونو گرام میں دکھایا گیا کہ چاند ستارہ علاقے کے امن کا نشان ہے، گندم کا نشان علاقے کی زرعت کی نشاندہی کرتا ہے، اونٹ کے نشان سے علاقے کے ریگستان اور چولستان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اور چوتھا نشان اس علاقے کے دریاؤں اور نہروں کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس مونوگرام میں دونوں طرف دکھائے گئے پرندے جن کو پلیکن کہا جاتا ہے، اس کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ جب اس ملک میں یا شہر میں جہاں یہ پرندہ رہتا ہے اگر اس علاقے میں خدانخواستہ کبھی قحط پڑ جائے اور ان پرندوں کو کچھ کھانے کو نہ ملے اور ان کے بچے بھوکے مرنے لگیں تو اس وقت یہ پرندہ اپنی لمبی گردن اپنے جسم کے اندر چھپا لیتا ہے اور اس کے بچے اس کو کھا تے ہیں اس طرح یہ اپنی جان اپنے بچوں پر قربان کر دیتا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ لاہور ہائیکورٹ بہاولپور بینچ کے جج جسٹس شجاعت علی خان نے کہا کہ نئی نسل کو ریاست بہاولپور کے ادوار سے روشناس کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے، کمشنر بہاولپور ڈویژن راجہ جہانگیر انور، ڈپٹی کمشنر عرفان علی کاٹھیہ، وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے ریاست بہاولپور کے قیام کی 275 سالہ تقریبات کے حوالے سے آگاہ کیا ۔ ریاست بہاولپور کی تقریبات کے سلسلہ میں قائم کی گئی کمیٹیوں میں جو لوگ شامل ہوئے ہیں یقینا وہ صاحب علم ہوں گے اور ان کی اہمیت اور شخصیت سے انکار نہیں مگر ریاست بہاولپور کے حوالے سے وہ تاریخی کام ہونا چاہئے جو ہمیشہ یاد رکھا جائے اور تاریخ کا حصہ بن جائے۔اس بات کو بھی سامنے رکھا جائے کہ برصغیر کی خوشحال ترین ریاست آج ایک پسماندہ ڈویژن کیوں ہے؟، ایک وقت تھا کہ دوسرے علاقوں کے لوگ روزگار کے سلسلہ میں ریاست میں آتے تھے ، آج نصف سے زائد مقامی آبادی کراچی و دیگر شہروں میں بسلسلہ روز گار نقل مکانی پر کیوں مجبور ہوئی ہے۔