ادارہ ِ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گزشتہ ہفتے مہنگائی نے سارے ملکی ریکارڈ توڑدیے ہیں اور 42.3فیصد اضافہ کے ساتھ ملک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ دوسری خبر کے مطابق نوے فیصد بلوچستان زیر ِ آب آچکا ہے۔ پنجاب کے مغربی اضلاع میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی بدولت کئی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک تصوریر وائرل ہورہی ہے جس میں ایک شخص سیلابی ریلے کی زد میں آکر جاں بحق ہوچکا ہے۔دونوں ہاتھ مٹی کے اوپر جب کہ پورا وجود مٹی کے اندر ہے۔ یہ تصویر دراصل عوامی مسائل اور حکومتی ترجیحات کے درمیان واضح لکیر کھینچ رہی ہے۔۔یہ دراصل لاچار اور جبر کے ستائے ہوئے پاکستانی عوام کی نعش ہے جو چیخ چیخ کر اعلان کررہی ہے کہ ’ریاست ماں کے جیسی نہیں رہی‘۔ یہ نعش پیغام دے رہی ہے کہ ریاستی اداروں پر قابض حکمرانوں اور ریاستی مشینری پر قابض نو کرِ شاہی کے رسہ گیروں نے پاکستانی عوام کو یرغمال بنا لیا ہے۔ یہ تصویر اْس سرائیکی شعر کا عملی نمونہ بن چکی ہے جس میں شاعر کہتا ہے کہ ’تیڈے تخت دے مسئلے نئیں مْکدے، ساڈی یار حیاتی مْک گئی اے۔ ملک پہلے ہی طبقاتی تفریق سے دوچار تھا۔ٹیلی ویژن سکرین پر بیٹھے اینکر، دانشور، تجزیہ نگاراور ریٹائرڈ افراد پر نظر پڑتے ہی ناظر جان لیتا ہے کہ کس پر تنقید ہوگی اور کس پارٹی یا سیاستدان یا ادارے کی تعریف ہوگی۔ جاگیرداروں، صنعت کاروں اور کاروباری حضرات پر مشتمل پارلیمان ِ پاکستان کے ممبران کے اِنکم ٹیکس گوشواروں پر نظر ڈالیں تو اِن پر مسکین ہونے کا گماں ہوتا ہے۔ مہنگائی، معاشرتی ناانصافی، معاشی تفریق اور اب سیلاب سے تباہ ہوتے ہوئے عوام کی حالت ِ زار دیکھیں تو بے یار و مددگار نظریں آسمان کی طرف اْٹھ جاتی ہیں۔ گزشتہ کئی ماہ سے جاری سیاسی عدم ِ استحکام کے سبب سیاستدان عوام کا اعتماد کھو رہے ہیں۔ ہیجان انگیز حالات، حکمرانوں کی مفاد پرستانہ ترجیحات، بدلتے رحجانات اور عوام سے بے اعتنائی نے خود عوام کو محسوس کرادیا ہے کہ ملک بِنا حکومت کے بھی چل سکتا ہے۔ ریاستی اداروں کو اپنی اْنگلیوں پر نچاتے مفاد پرست افراد اپنی اہمیت کھو بیٹھے ہیں۔ بلوچستان، جنوبی پنجاب اور سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریوں نے سیاستدانوں کے منافقانہ چہروں سے پردہ اْٹھا دیا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں اور نقصانات کو کم کرنے کیلئے محض چند ریاستی ادارے حرکت میں نظر آتے ہیں۔مگر جدید ٹیکنالوجی اور پیشہ ورانہ تربیت سے عاری اِن اداروں اور ان میں کام کرنے والے افراد کی کارکردگی محض فوٹوسیشن تک محدود ہوچکی ہے۔یہ ریاستی ادارے چند طاقتور افراد کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں۔ اِ ن حکمرانوں نے چند ہی دِنوں میں نیب کے قوانین میں ردو بدل کرکے عوام کو اپنی ترجیحات بتلا دی ہیں۔ اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر ایک دوسرے کو قاتل، ظالم، غدار اور ملک دشمن جیسے القابات دیتے ہوئے یہ حکمران باہم شیر و شکر ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب لاچار پاکستانی عوام کی حالت ِ زار کا اندازہ جاری سیلاب سے لگایا جاسکتا ہے۔ اِن حکمرانوں نے اپنے متفقہ آقا امریکہ کے سامنے ہمیشہ گھٹنے ٹیک کر اربوں ڈالرز کے قرضے لئے اور اندرون و بیرون ِ ملک ذاتی جائیدادیں بنائیں۔ آج تک کسی غریب نے امریکہ سے قرض نہیں لیا۔ آج تک کسی غریب کو اپنا کاروبار قائم کرنے، بیرون ِ ملک جائیداد بنانے کے لئے امریکی ڈالر نہیں دیے گئے بلکہ ہمیشہ حکمرانوں نے عوام کے نا م پر اپنے آقا سے قرضہ لیا۔ ٹیلی ویژن سکرینیں دیکھیں تو ساری خبریں اِ ن حکمرانوں کے بیانات اوراَن پر قائم بدعنوانی، اقربا پروری اور اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے مقدمات کے اِردگرد گھوم رہی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان تحریک ِ انصاف، پاکستان مسلم لیگ ق،متحدہ قومی موومنٹ سمیت سبھی سیاسی جماعتوں کے رہنماء ایک دوسرے پر بیان بازی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ سیاستدان ایک دوسرے کو برملا برا بھلا کہتے ہیں۔ بدعنوان، چور اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث قرار دیتے ہیں۔ اقتدار کی راہداریوں میں گھومتا ہوا دھڑا ریاستی اداروں کو اپنے مفاد ات کے تحفظ کے لئے استعمال کرتا ہے۔ حز بِ اختلاف کے دھڑے پر دشنام طرازی کرتا ہے۔ اْس دھڑے کے سرکردہ رہنماؤں پر ریاستی اداروں سے مختلف جرائم میں ملوث ہونے کے کیس بنواتا ہے۔ ریاستی اداروں میں اِن کی پیشیوں پر ٹیلی ویژن سکرین پر پھر خبریں چلتی ہیں۔ کچھ عرصہ بعد معلوم ہوتا ہے کہ آپس میں گتھم گتھا سیاسی دھڑوں اور ایک دوسرے کا پیٹ چیرتے سیاستدانوں کے درمیان صلح ہوگئی ہے۔ ایک دوسرے کے دشمن نظر آنے والے سیاستدان ایک دوسرے کو گلے لگارہے ہوتے ہیں۔آج تک اِن سیاستدانوں نے عوام یا ملکی تعمیر و ترقی کے لئے کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے پر عملی اقدامات نہیں اْٹھائے۔ دریاؤں کی ڈیسلٹنگ جیسے منصوبے نہیں بنائے۔کچی بستیوں کو محفوظ بنانے جیسے قوانین پر کام نہیں کیا۔ ڈیموں کی تعمیر اور توانائی پیدا کرنے کے منصوبوں پر بات نہیں کی گئی۔ اگر ان سیاستدانوں اور حکمرانوں نے سچ مچ عملی اقدامات اْٹھائے ہوتے تو آج چین کے دریاؤں کی طرز پر ہمارے دریاکچی آبادی کو نقصان پہنچائے بنا اپنی حد میں بہہ رہے ہوتے۔ اِن دریاؤں میں بہتا ہوا پانی منظم نہری نظام کے ذریعے ہمارے صحراؤں کو سیراب کررہا ہوتا۔ ملک میں سیلاب کی بدولت تباہی کیبجائے خوشحالی کا سماں ہوتا۔ ہم دریاؤں میں بہتے پانی اور بارش کو اپنی خوشحالی کی ضمانت سمجھتے۔مگر ہمارے مفاد پرست حکمرانوں نے اس وطن ِ عزیز کو اپنے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔عوام بھوک و افلاس، تنگدستی سے بلک رہے ہیں۔ اب ملک کے حالات اس نہج پرپہنچ چکے ہیں کہ ہر ریاستی ادارہ عوام کا مقدمہ لڑنے سے ہچکچارہا ہے۔شاید اسی لئے کسی شاعر نے ملکی حالات کی بھرپور عکاسی کرتے ہوئے عوام کا مقدمہ خود عوام اور اربابِ اختیار کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ اے میرے دیس کے لوگو! شکایت کیوں نہیں کرتے؟ تم اِتنے ظلم سہہ کر بھی بغاوت کیوں نہیں کرتے؟ یہ جاگیروں کے مالک اور لٹیرے کیوں چنے تم نے؟ ترے اوپر ترے جیسے حکومت کیوں نہیں کرتے؟ یہ بھوک، افلاس، تنگدستی تمھارا ہی مقدر کیوں؟ مقدر کو بدلنے کی جسارت کیوں نہیں کرتے؟ میرے منصف تمھارے فیصلوں سے مجھ کو کیا حاصل؟ جو میرا کیس ہے اْس کی سماعت کیوں نہیں کرتے؟