نواز شریف نااہلی کیس اور عمران خان توشہ خانہ نا اہلی کیس میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ نواز شریف نے اپنے اثاثے کاغذات نامزدگی میں چھپائے اور عمران خان نے توشہ خانہ سے خریدے گئے تحائف ایف بی آر سے چھپائے ، وہ بھی ایک سال کے لیے ، یعنی 2018 میں خریدی گئی گھڑی2019 کے اثاثوں میں ڈکلیئر نہیں کی لیکن 2020-21 کے اثاثوں میں ڈکلئیر کر دی۔ اس ایک نکتے کو ذہن میں رکھتے ہوئے آئیے پورا کیس سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 63(2) کے تحت عمران خان کی نا اہلی کے لیے ریفرنس بھجوایا ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ اثاثے چھپانے کے الزام میں عمران خان کو آرٹیکل 62(1)F کے تحت نا اہل کر دیا جائے۔ سب سے پہلی آئینی اور قانونی بحث یہ ہے کہ کیا اسپیکر آرٹیکل 62 کی بنیاد پر ریفرنس بھجوا سکتے ہیں یا نہیں اور دوسرا سوال یہ کہ کیا الیکشن کمیشن آئین کے اسی آرٹیکل کی بنیاد پر ڈکلیریشن دے سکتا ہے یا نہیں ۔ اسی میں چھپا ایک اور سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کورٹ آف لاء ہے یا نہیں ۔ آئیے پہلے انہی تینوںسوالوں کے جواب جان لیتے ہیں ۔ آئین کا آرٹیکل 62 عموما کسی شخص کے کاغذات نامزدگی جمع ہونے سے پہلے حرکت میں آتا ہے۔ کاغذات نامزدگی جمع کراتے ہوئے دیکھا جاتا ہے کہ ایک شخص آئین کے آرٹیکل 62 پر پورا اترتا ہے یا نہیں ، کیا اس شخص نے اپنے اثاثے چھپائے تو نہیں ہیں ، کیا یہ شخص جھوٹ تو نہیں بول رہا ہے ، وغیرہ وغیرہ ۔ اس موقع پر فیصلہ کرنے کا اختیار تین فورمز کے پاس ہوتا ہے۔ ریٹرننگ آفیسر، الیکشن ٹریبونل اور کورٹ آف لائ۔اگر کوئی شخص الیکشن لڑنے کے بعد اسمبلی کا ممبر بن جائے اور بعد میں پتہ چلے کہ اس شخص نے اثاثے چھپائے تھے تو بھی انہی فورمز پر رجوع کیا جا سکتا ہے جیسا کہ نواز شریف کے کیس میں ہوا ، سپریم کورٹ آف پاکستان نے انہیں کاغذات نامزدگی میں تنخواہ چھپانے پر نا اہل کر دیا ۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اسپیکر کا اختیار کیا ہے۔ کوئی شخص ممبر بننے کے بعد اگر کسی جرم میں سزا پا لے یا پاگل ڈکلیئر کر دیا جائے تو اسپیکر اس ممبر کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیج سکتا ہے۔ گویا ماہرین قانون کا اس بات پر تقریبا اتفاق ہے کہ اسپیکر آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت ریفرنس بھیج سکتا ہے آرٹیکل 62 کے تحت نہیں۔ تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن آف پاکستان آرٹیکل 62(1)F کی ڈکلیریشن دے سکتا ہے یا نہیں ۔ اس پر ماہرین متفق ہیں کہ الیکشن کمیشن چونکہ کورٹ آف لاء نہیں ہے لہذا یہ آرٹیکل 62کی ڈکلیریشن نہیں دے سکتا۔ اب آئیے اس بات پر کہ عمران خان پر الزام کیا ہے اور ریفرنس میں کیا کہا گیا ہے ۔ عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں توشہ خانہ سے خریدے گئے تحائف بالخصوص ایک عدد مہنگی گھڑی ایف بی آر کو جمع کرائے جانے والے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کی۔ریفرنس میں دی گئی تفصیلات کے مطابق عمران خان نے 2018 میں یہ گھڑی قانون کے مطابق رقم ادا کرکے خریدی مگر 2019-20 کے اثاثوں میں اسے ظاہر نہیں کیا۔ اسی ریفرنس کا پیرا گراف نمبر 14 خود تسلیم کرتا ہے کہ عمران خان نے 2020-21 کے اثاثوں میں یہ تحائف ظاہر کر دیے تھے۔ گویا عمران خان نے اثاثے ایک سال کے لیے چھپائے بعد ازاں ظاہر کر دیے۔ یہاں دو نکات اہم ہیں ۔ ایک یہ کہ کیا گھڑی، موبائل اور ایسی اشیا کو قانون کے مطابق اثاثوں میں ظاہر کرنا ضروری ہوتا ہے یا نہیں ۔اگر گھڑی کو اثاثوں میں ظاہر کرنا ضروری تھا تو اسے چھپا کر عمران خان نے کس قانون کی خلاف ورزی کی۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا چونکہ یہ اثاثے کاغذات نامزدگی کے وقت نہیں چھپائے گئے تھے اس لیے ریٹرنگ آفیسر، الیکشن ٹریبونل اور الیکشن کمیشن سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں ۔ عمران خان نے اثاثے چھپا کر ایف بی آر قوانین کی خلاف ورزی کی اور ایف بی آر اس خلاف ورزی پر انہیں جرمانہ کر سکتا ہے۔ آخری اہم سوال یہ ہے کہ اثاثہ چھپا لینے سے عمران خان کو بد دیانت ثابت کیا جا سکتا ہے یا نہیں ۔ اس سلسلے میں عدالت کی کئی ججمنٹس موجود ہیں ۔ سب سے اہم شمعونہ بادشاہ قیصرانی کیس کی ججمنٹ ہے ۔ جس میں عدالت نے کہا ہے اگر کوئی امیدوارکاغذات نامزدگی میں بھی اثاثہ چھپا لے تو دیکھنا پڑے گا کہ اس نے کس نیت سے ایسا کیا اور اثاثہ چھپا کر کیا فائدہ اٹھایا اور یہ کہ چھپایا گیا اثاثہ قانونی طریقے سے کمایا گیا تھا یا غیر قانونی طریقے سے ۔لہذا شمعونہ قیصرانی کو اپنی زرعی زمین ظاہر نہ کرنے کے باوجود نا اہل نہیں کیا گیا تھا۔ خواجہ آصف کے کیس میں بھی یہی ہوا،اقامہ ظاہر نہ کرنے کے باوجود فیصلہ ان کے حق میں آیا تھا۔ ایسی کئی اور ججمنٹس بھی موجود ہیں۔ ان ججمنٹس کی روشنی میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ عمران خان نے کیا چھپایا گیا اثاثہ غیر قانونی طریقے سے کمایا ؟ اثاثہ چھپا لیا تو ایک سال بعد اسے ڈکلیر کیوں کیا؟ اثاثہ چھپانے سے عمران خان نے کیا فائدہ حاصل کیا؟ چونکہ عمران خان نے یہ اثاثہ کاغذات نامزدگی میں نہیں چھپایا تو بھی کیا وہ نا اہل ہو سکتے ہیں ؟ میری رائے میں یہ الیکشن کمیشن کا نہیں ایف بی آر کا ایک سیدھا سا کیس ہے۔ اگر گھڑی ایک اثاثہ ہے اور اسے ظاہر کرنا قانون کے مطابق ضروری تھا تو یہ اثاثہ چھپانے کی پاداش میں ایف بی آر ان پہ جرمانہ کر سکتا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ٭٭٭٭٭