کیا نوازشریف کی تقریر ٹکڑائو کی پالیسی کا اعلان ہے یا اس بات کا اظہار ہے کہ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ شیخ رشید نے یہ بیان دے کر کس کی خدمت کی ہے کہ نوازشریف نے اپنا پاسپورٹ خود پھاڑ دیا ہے اور اب ان کی ملک کی سیاست میں کوئی گنجائش نہیں۔ ان کی یہ بات اس تجزیے پر مبنی ہے کہ نوازشریف نے چونکہ ریاست سے ماورا ریاست کا ذکر کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ان کی لڑائی عمران سے نہیں‘ ان لوگوں سے ہے جو عمران کو لے کر آئے ہیں تو وہ لوگ ناراض ہو جائیں گے جن کی طرف میاں صاحب کا اشارہ ہے۔ صاف لفظوں میں ان کا کہنا یہ ہے کہ نوازشریف نے ٹکرائو مول لے کر اپنے لیے ملک میں آنے کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ اس لیے اب نوازشریف کو سیاست کیا‘ ملک میں بھی گھسنے نہیں دیا جائے گا۔ ملک کی تاریخ بتاتی ہے کہ ادارے فیصلے اس طرح نہیں کیا کرتے اور ان کے کوئی مستقل مخالف یا حامی نہیں ہوا کرتے۔ کیا خیال ہے بے نظیر اقتدار میں آنے سے پہلے سکیورٹی رسک نہ تھیں۔ کوئی سوچ سکتا ہے‘ اداروں کو اقتدار سونپا جا سکتا ہے یا نوازشریف طیارہ ہائی جیک کیس کے بعد ہماری مقتدرہ کے چہیتے رہ سکتے ہیں۔ یہ سب آ ئے اور بقائے باہمی کے تحت ملک میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ ہماری فوج‘ چنگیز کی فوج نہیں ہے‘ ایک مہذب دنیا کی نہایت تربیت یافتہ فوج ہے اور اس فوج کے خفیہ ادارے جنگ کے وحشیانہ انداز پر انحصارنہیں کرتے بلکہ ذہانت سے دشمن کو زیر کرتے ہیں۔ اس لیے یہ فضول بات ہے کہ نوازشریف اگر آنا چاہیں تو انہیں طاقت کے زور پر آنے سے روک دیا جائے گا۔ شیخ رشید نے تو اپنی طرف سے انکشاف کیا کہ مسلم لیگیوں کی دوبار ملاقاتیں ہوئیں ہیں مگر اس کا مطلب کہاں سے نکلتا ہے کہ وہ یہ بتانے گئے تھے کہ ہم عمران خان کی حکومت کے خلاف کسی تحریک کا حصہ نہیں بنیں گے۔ فوج یا ہماری اسٹیبلشمنٹ کو کسی ایسی حکومت سے کیوں ہمدردی ہوگی جو دم توڑ رہی ہو اور جس کے بارے میں یہ تاثر عام ہو گیا ہو کہ وہ نااہل ہے، جو ہر کام کے لیے فوج کی محتاج ہے حتیٰ کہ کورونا کے خلاف مہم میں بھی اتنی بیوقوفیاں دکھائیں کہ ایک کمان اینڈ آپریشن کا ادارہ بنانا پڑا۔ نالے صاف کرنے سے لے کر معیشت کی بحالی تک کے ہر کام میں ناکام ہو کر وہ بار بار اس دروازے پر جاتی ہے اور بعد میں کریڈٹ لینے کی کوشش کرتی ہے کہ دیکھو ہم نے کیا تیر مارا۔ دو چار دن میں پتا چلتا ہے کہ سب کیا کرایانہوں نے دوبارہ غارت کردیا ہے۔ صرف ایک مقصد یہ ہے وہ خود کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور وہ تھا پشاور کی بس سروس کا منصوبہ‘ اس کا حال دیکھ لیا ہے۔ کیا خبر ایک دن معلوم ہو کہ اس کام کے لیے بھی فوج کی مدد طلب کرلی گئی ہے۔ بہرحال اس کتھا کہانی کا مطلب صرف اتنا ہے کہ اس بیانیے کو کسی کے خلاف اعلان جنگ سمجھنے کے بجائے اس نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ مطلب یہ بھی نہیں کہ حکومت کا چل چلائو ہے بلکہ یوں سمجھئے جو گند گھولنا تھا‘ وہ کافی ہو گیا ہے‘ اب عقل کے ناخن لینا پڑیں گے۔ یہ نہ سمجھئے کہ آپ یہ سمجھتے رہیں کہ آپ کا متبادل کوئی ہے ہی نہیں۔ عرض کیا‘ زرداری‘ بے نظیر‘ نوازشریف سب اقتدار میں آنے سے پہلے ہماری قومی مقتدرہ کے لیے آئیڈیل نہ تھے بلکہ شاید نیگٹولسٹ پر تھے۔ بے نظیر تو سکیورٹی رسک سمجھی جاتی تھیں۔ آصف زرداری تو اقتدار میں آنے کے بعد بھی میمو گیٹ کا کھیل رچا بیٹھے تھے‘ مگر کسی نے انہیں اقتدار سے رخصت نہ کیا۔ اگر کوئی تبدیلی ناگزیر ہے یا قوم کے مفاد میں ہے تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ممکنہ متبادل کا مقبول عام بیانیہ کیا ہے۔ اقتدار میں آ کر جب کندھوں پر ریاست کی ذمہ داری کا بوجھ پڑتا ہے تو سبھی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ الٹا ان کے مقبول بیانئے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عوام کا کتھارسس ہو جاتا ہے۔ کیا خیال ہے نوازشریف کی تقریر سے بہت سوں کا کتھارسس نہیں ہو گیا ہوگا۔ بہرحال میری اس گفتگو کا یہ مطلب نہ سمجھا جائے کہ کوئی تبدیلی آنے والی ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ سٹیٹس کو جاری نہیں رہ سکتا۔ اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خاص کر وسطی پنجاب میں جو محرومی کے جذبات پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں‘ ان کا تدارک کیا جائے۔ اس کے لیے صرف پنجاب میں تبدیلی بھی معنی خیز ہو سکتی ہے۔ بعض لوگ ایک اور دور کی کوڑی لائے ہیں کہ ہماری نظر میں صرف اندرون ملک ملاقاتوں پر ہے۔ ادھر لندن میں بھی بعض ملاقاتوں کی رپورٹیں ہیں۔ غالباً شاہ سلمان کا نمائندہ نوازشریف سے ملا ہے۔ خطے میں بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔ کیا اس تبدیلی میں ہمارا موجودہ ڈھانچہ کارگر ہو سکتا ہے۔ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کو آپ غیر اہم نہ سمجھیں۔ بے نظیر ایسے تو دھم سے ملک میں آ موجود نہیں ہوئی تھیں۔ بعد میں پول کھل گیا تھا کہ کن عالمی طاقتوں اور شخصیتوں نے کردار ادا کیا۔ ریاست کے معاملات بہت حساس ہوتے ہیں۔ رموز سلطنت اتنے آسان نہیں کہ میرے جیسے ڈھنڈورچی اس کا اعلان کرتے پھریں۔ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہونا ہی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر قبائلی علاقوں کا خیبرپختونخوا میں ادغام ہونا ہی تھا۔ یہ مسلم لیگی حکومت کے کھاتے میں گیا۔ اگر پیپلزپارٹی کی حکومت ہوتی تب بھی ایسا ہی ہوتا۔ حتیٰ کہ تحریک انصاف والے بھی یہی کرتے۔ ووٹ دینے کا پیٹرن بتاتا ہے کہ کوئی اختلاف نہ تھا‘ اصولی اختلاف ہو سکتا ہے۔ الگ صوبہ بنے خیبرپختونخوا کا حصہ بنے یا براہ راست مرکز کے ماتحت رہے۔ طریق کار کیا اختیار کیا جائے۔ مولانا فضل الرحمن ریفرنڈم کے حامی تھے۔ آج سپریم کورٹ میں بھی ایک درخواست ہے۔ اب گلگت بلتستان کا معاملہ ہے۔ مجھے معلوم ہے اس پر کیا اعتراض ہیں مگر جب ریاست فیصلہ کر دے گی تو سبھی قطار اندر قطار ایک طرف ہی ووٹ دیں گے۔ ہاں بعض اختلاف الگ چھوڑے جا سکتے ہیں۔ سینٹ کے چیئرمین کے انتخاب پر زرداری بڑا کریڈٹ لیتے ہیں‘ مگر کیا یہ زرداری کا کارنامہ تھا۔ خدا کا خوف کریں۔ ایسا تھا تو چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کے وقت کیا ہوا تھا۔ اب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کس طرح قانون پاس ہوا۔ کل کلاں کو کیا ہوگا مگر یہ بات یقینی ہے کہ بعض فیصلے ایسے ہوتے ہیں جو سب کو کرنا پڑتے ہیں۔ بس اتنی سی بات ہے کہ یہ ماورائے ریاست کوئی اقدام دکھائی نہ دے‘ بلکہ آئینی اقدام نظر آئے۔ ہم کئی باتوں پر سبق نہیں سیکھ رہے ،مثلاً مشترکہ مفاد کی کونسل کے فیصلے اتفاق رائے سے ہوتے ہیں‘ ہم ہونے ہی نہیں دیتے۔ نتیجہ کیا نکلے گا۔ اٹھارویں ترمیم یونہی تو متنازعہ نہیں بنائی جا رہی۔ اس وقت یقینی طور پر بعض تبدیلیاں درکار ہیں لیکن اگر جبر کا نتیجہ نظر آئیں تو ان تبدیلیوں کی حیثیت مشکوک ہو جائے گی۔ لازمی نہیں اس کا براہ راست اثر ہو مگر یہ یقینی ہے کہ اس کا اثر ریاست کے ڈھانچے پر پڑے گا۔ ہمیں اندازہ کرلینا چاہیے کہ ملک کو اس وقت تدبر کی ضرورت ہے۔ قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ ہم نااہلوں کی طرح فیصلے کر کے لڈیاں ڈالنے کے بجائے سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیں۔ یہ ملاقاتیں جو ملک کے اندر ہوں یا باہر‘ یہ بیانئے‘ یہ تقریریں‘ یہ اکٹھ یہ سب یہ بتاتے ہیں کہ ملک میں ایک فیصلہ کن موڑ آ گیا ہے۔ لازمی نہیں کہ آپ کی غلط ڈرائیونگ سے حادثہ ہو‘ سڑک پر موجود ہر کسی کو اپنی گاڑی ہی نہیں دوسری گاڑیوں کی بھی پروا کرنا پڑے گی۔ سمجھ گئے نا!