کڑوا تو ہمیں بہت لگے گا مگر اس تجزیے پر ہمیں غور کرنا چاہئیے ۔ جناب احمد جاوید ہمارے عہد کے ممتاز ترین اہلِ علم میں سے ایک ہیں ۔ ایک منفرد شاعر بھی لیکن دراصل زندگی ، کائنات ، آدمی اور اس کے پروردگار پہ غور وفکر کرنے والے ایک نادر مفکر ۔ پاکستانی میڈیا پر یہ ان کا ایک بہت چونکا دینے والا تبصرہ ہے ۔ سوال: کہا جاتاہے کہ نوجوان نسل کو ہمارا میڈیا حقائق سے دور لے جا رہا ہے ۔ غیر حقیقی آدرشوں کا اسیر بنا کر مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل رہا ہے ۔ جواب : ہمارے سوشل میڈیا فلموں ، ڈراموں اور برقی ذرائع ابلاغ کا حال وہی ہے ، جو شراب اور جوئے کا ہے ۔ اس کا ضرر اس کے فائدے سے کہیں زیادہ ہے ۔ پچیس تیس بر س سے مغرب میں اس موضوع پر لکھا جا رہا ہے ۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے میڈیا فلاسفی اور کمیونی کیشن تھیوری پر سرسری معلومات کا بھی فقدان ہے ۔ مثلاً الفرڈ ہچکاک کے "Untrue shadow of life"سے کتنے لوگ واقف ہیں ۔ اور "Luhmann"کی سسٹمز تھیوری کو پڑھنے اور سمجھنے کی بنیادی اہلیت بھی کتنے لوگ رکھتے ہیں ۔ ہر سنجیدہ بات ہمارے دانشوروں کو مشکل بلکہ مہمل لگتی ہے ۔ کسی پیچیدہ تصور سے ہمارے ذہن کو سرے سے کوئی مناسبت ہی نہیں ، خواہ اخبار ی زبان ہی میں بیان کیا جائے ۔ ایک صاحب اس ناچیز کے بعض لیکچرز صرف اس لیے سننے آتے ہیں کہ رخصتی مصافحہ کرتے وقت ایک ناوک فگن مسکراہٹ کے ساتھ طنز کر سکیں :تم لفاظی اچھی کرتے ہو ۔ میں مروت اور شرم کے مارے ان سے کہہ نہیں پاتا کہ میاں ڈھنگ کی تحریریں پڑھا کرو کہ تمہاری ذہنی گراوٹ اور بے مائیگی کا ازالہ ہو ۔کسی بھی علم میں بلوغت کا مرحلہ آتاہے تو اس کے مراحل پیچیدہ ہوتے جاتے ہیں ۔ اظہار کا اسلوب بھی کچھ ثقیل سا ہو جاتاہے ۔ ہماراحال یہ ہے کہ کوئی خیال کی پیچیدگی کو ذرا آرائشی زبان میں ،حسنِ اظہار کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کرے تو بڑے تحکم کے ساتھ کہہ دیا جاتاہے کہ آپ کی بات محض تاثراتی ہے ۔ ذہن کو اپیل نہیں کرتی ۔ اگر اسی بات کو معیاری علمی زبان میں کہا جائے تو ’’مشکل ، مشکل ‘‘ کا شور مچ جاتاہے ۔ میں نے کئی بڑے دماغوں کو اس فکر میں گھل گھل کر ضائع ہوتے دیکھا ہے کہ کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا میڈیا باقاعدہ ایک کارپوریشن ہے اور کیپیٹل ازم کے ایجنڈا کو تیزی سے عمل میں لانے کا شاید سب سے طاقتور ہتھیار ۔ اس کی یہ حیثیت پہچانے بغیر ہم اسی طرح اس کی غلامی کرتے رہیں گے ۔ طرح طرح کے خوشنما نام دے کر میڈیا کے احسانات گنواتے رہیں گے ۔ تنقیدی نظر ڈالنے کی کوئی جسارت کرے تو جواب میں تمدنی ارتقا ، اصولِ تغیر اور گلوبلائزیشن کا رٹا ہوا بھاشن سنا دیا جاتاہے ۔ فحاشی اور بے حیائی پر دبی زبان میں بھی اعتراض کرو تو بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کے طعنے ملتے ہیں ۔ ارے بھائی، ہم مسلمان ہیں ، ظاہر ہے کہ سب چیزوں کو اسلامی تناظر ہی میں دیکھیں گے ۔ جواب میں انسانی حقوق کی فہرست منہ پر مارنے کا کیا جواز ۔ ہم غلطیاں بھی کرتے ہیں لیکن غلطیوں کی تصیح بھی اسلام ہی سے ہوگی ۔ کہیں اور سے تو ہم ہدایات نہیں لیں گے ۔ مسلمان اپنے بنیادی تناظر سے دستبردار نہیں ہو سکتا ۔ ہر تہذیب ایک World Viewرکھتی ہے اور اسی میں رہتے ہوئے چیزوں کو رد ّوقبول کرتی ہے ۔ ایں گنا ہ ہیست کہ درشہر شما نیز می کنند ۔ ہماری غلطی یہ ہے کہ قانونِ تغیر سے ہم آہنگ اور ہم قدم رہنے والے علوم و فنون، صدیوں سے ہماری دسترس سے باہر ہیں ۔ تاریخ سے لا تعلق ایک کند ذہن اور سوئی سوئی سی قدامت پسندی دنیا کو ہم پہ ہنسنے کا موقع فراہم کر رہی ہے ۔ ہماری فلمیں اور ڈرامے کم از کم دو بڑی خرابیاں نوجوانوں میں پیدا کر رہے ہیں ۔ ایک ترسنے کی کیفیت اور دوسرے بدذوقی اور گھٹیا پن ۔آدمی جب ترسنے کی مستقل کیفیت میں رہتاہے تو اس میں جنسی پرورژن ، دہشت گردی کی طرف میلان اور لوٹ مار کا جذبہ پیدا ہو جانا سامنے کی بات ہے ۔ ترقی، دولت اور طاقت وغیرہ، مختلف شہوتیں بدروحیں بن کر اس طرح مسلط ہو جاتی ہیں کہ آدمی خود اپنے لیے ناقابلِ شناخت ہو جاتاہے ۔ اپنے ذہن سے محو ہو کر بس جبلتوں کے آتش فشاں کا لاوہ بن کے رہ جاتاہے ۔ جن نوجوانوں کو یہ لت لگ جائے ، ان کا تخیل اور احساسات حقیقی زندگی سے کوئی نتیجہ خیز تعلق پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتے ۔ عملی دنیا سے ہجرت کر کے وہ ایک خیالی جنت میں جا بستے ہیں ۔ ہمارے ڈرامے اور فلمیں تو خیر بڑے سے بڑے خیال اور جذبے کو vulgrise کرکے دکھاتی ہیں ۔ ذہن اور طبیعت کو گندگی میں لتھڑے رہنا سکھاتی ہیں ۔ ایسی گندگی کہ مذہبی آدمی ہی نہیں بلکہ بادلئیر کے ہم مشرب بھی جس پر تھُو تھُو ہی کریں ۔ کسی بھی شخص کو جانچنا ہو تو یہ بعد میں دیکھنا چاہئیے کہ اس کے کمالات کیا ہیں ۔پہلے یہ دیکھاجائے کہ کیا اس کی کمزوریوں میں گراوٹ اور بد صورتی تو نہیں ؟ افسوس، نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد اس پرکھ پر پوری نہیں اترتی ۔ اس کی ذمہ داری ہمارے میڈیا پر بھی ہے ۔ آزادی کا ایسا تصور وہ رکھتا اور اس کا ڈھونڈورہ پیٹتا ہے ، جو انسانی نہیں ، نرا حیوانی ہے ۔ اس کے منہ پر تھوبڑا نہ کسا گیا تو سب چٹ کر جائے گا ۔ آدمیت کی رہی سہی کھیتی بھی اجاڑ دے گا ۔ ان فلموں اور ڈراموں نے اخلاقی بحران کے علاوہ جو جمالیاتی فساد پیدا کیا ہے ، وہ لوگ بھی اس پر کراہت محسوس کریں گے ، جن کی ذوقی تربیت سعاد ت اللہ خاں رنگین اور نواب مرزا شوق نے کی ہے ۔ افسوس یہ سب اس ملک میں ہو رہا ہے ، جسے ریاستِ مدینہ کی طرز پر بنانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں ۔ اس دنائت پر میں تو خود کو دینی موقف اختیار کرنے کا سر سے پائوں تک پابند محسوس کرتا ہوں ۔ اپنی سب سے بڑی ذمہ داری بلکہ فخر جانتا ہوں ۔ اپنے ایک دوست کا حوالہ دیتا ہوں ، جو پیدائشی مارکسسٹ ہیں جو فرماتے ہیں : اگر مجھے قاضی لگا دیا جائے تو میڈیا اور پیمرا دونوں کو قتلِ عام کے جرم میں لٹکانے کا حکم جاری کر دوں ۔ میڈیا جدید دنیا کی شاید سب سے موثر قوت ہے ۔ یہ انسان کی فطرت تک کو تبدیل کر سکتاہے ۔ فلموں اور ڈراموںمیں احساسِ ذمہ داری اور تخلیقی احساس پیدا کیے بغیر یہ سنگین مسئلہ حل نہیں ہو سکتا ۔ میڈیا میں ذمہ داری کا شعور اور تاریخی جوہر ،ریاست کی مداخلت اور سوسائٹی کی حساسیت کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا ۔ اب یا تو قومی خیر خواہی کے جذبے سے کوئی بہت ہی بنیادی سیاسی، سماجی، معاشی ، تعلیمی ،کثیر الجہات انقلاب لائیے ورنہ اسی طرح پریشان اور فکر مند ہونے کی اداکاری کرتے رہئیے۔ طاقت کے بغیر گداگری ہی ہو سکتی ہے اور کچھ نہیں ، جو طاقت، جو نظریے پر یقین و استقامت اور علم سے پیدا ہوتی ہے ۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ علم اگر نظریاتی نہ ہو تو اس کے اخلاقی نتائج نہیں نکلتے جو اجتماعی وجود کی تعمیر ، تشکیل اور حفاظت کے لیے لازماً درکار ہیں ۔ اسی لیے میں تو ایک تکیہ کلام کی طرح دہراتا رہتا ہوں کہ مذہبی علوم اور کردار میں انسان دوستی کاعنصر کم ہو گیا ہے ۔ اس کمی کو ایک بھیانک دینی نقص سمجھ کر ازالہ نہ کیا گیا تو اسلام پر انسان دشمنی کا بہتان دنیا کے لیے قابلِ قبول ہوتا جائے گا ۔ کڑوا تو ہمیں بہت لگے گا مگر اس تجزیے پر ہمیں غور کرنا چاہئیے ۔