ایک خبر یہ ہے کہ گھر کے باہر لگے ٹرانسفارمر کو ہٹوانے کے لیے ایک شہری کو بیس سال قانونی جدوجہد کرنا پڑی اور تب جا کر اس کے حق میں فیصلہ آیا۔بظاہر یہ ایک خبر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ برطانوی نو آبادیات کے تحت قائم کیے گئے اس افسر شاہی اور قانونی نظام کا نوحہ ہے جسے قائد اعظم نے بدلنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کی جگہ بتدریج اپنا مقامی نظام قانون لایا جانا تھا جو اسلامی اصولوں سے مزین ہوتا لیکن ان کے انتقال کے بعد کسی کو یاد ہی نہ رہا کہ اس ڈھانچے کو بھی تبدیل کرنا ہے۔ ہماری افسر شاہی کے بارے میں مشاہدہ یہ ہے کہ یہ کام نہ کرنے کی تنخواہ لیتی ہے اور کام کرنے کے لیے اس کی خدمت گزاری کرنا پڑتی ہے۔ یہی اس شخص نے کیا ہوتا تو کچھ عجب نہیں تھا کہ دو ماہ میں ٹرانسفر اتار دیا جاتا۔ برطانوی نو آبادیاتی بندوبست کا بنیادی اصول یہ تھا کہ ریاست کا معاملہ شہریوں سے نہیں رعیت سے ہے۔یعنی یہ عوام اور ان کے منتخب حکمرانوں کا تعلق نہیں تھا۔یہ رعایا اور اس کے آقا کا تعلق تھا۔ عمومی نصاب کی کتب سے لے کر قانون کی کتب تک یہی اہتمام موجود رہا۔چنانچہ اصول یہ تھا کہ رعایا میں سے جو فرمانبردار ہیں ، بادشاہ کا قانون ان فرماں بردار غلاموں کی داد رسی کرے گا۔ اور جو گستاخ ہیں ان سے نبٹے گا۔ اس فرماں بردار رعیت کو پھر کچھ آداب سکھائے گئے کہ غلام رعایا جب برطانوی آقا کی بنائی گئی کسی عدالت میں آقا کے قانون کے تحت انصاف کی التجا لے کر حاضر ہو گی تو اسے کون سے آداب بجا لانے ہوں گے۔ رعایا کو یہ حق نہیں تھا کہ وہ انصاف ’ طلب ‘ کرتی۔ رعایا کو ’ڈیمانڈ‘ کی گستاخی کی اجازت نہیں تھی، اسے صرف رعیت کے آداب سکھائے گئے۔جیسے نوکر اپنے مالک کے حضور التجالے کر حاضر ہوتا ہے۔ چنانچہ آج بھی کچہریوں سے وہ اندازغلامی ختم نہیں ہو سکے۔ انصاف مانگنے والے کو آج بھی ’ سائل‘ لکھا جاتا ہے۔اور یہ ’ سائل‘ آج بھی ’ عرض گذار‘ اور ’ملتمس‘ ہی پایا جاتا ہے۔صدیوں کا عجز سماج کی رگوں میں یوں دوڑتا پھر رہاہے کہ وہ انصاف کے حصول کے لیے بھی جاتاہے تو ایسے انداز سے التجا کرتا پایا جاتا ہے جو اسلامی اقدار اور شرف انسانی سے فروتر ہے۔قابل غور نکتہ یہ ہے کہ حقوق انسانی کے ا س دور میں بھی ہمارے ہاں انصاف طلب نہیں کیا جاتا ۔ اس کے لیے Prayer کی جاتی ہے۔باقاعدہ اہتمام سے پوچھا اور بتایا جاتا ہے کہ Prayer کیا ہے۔ یہی رویہ جب سماج میں ظہور کرتا ہے تو بچوں کو سکول سے چھٹی کی درخواست I beg to say سے شروع ہوتی ہے۔سائل بے چارہ عرض گزار ہی رہتا ہے اور سڑکوں پر بورڈ لکھے ہوتے ہیں چلتے رہیے ورنہ گولی مار دی جائے گی ، ورنہ حوالہ پولیس کر دیا جائے۔ پبلک یوٹیلٹی کے دفاتر سے بھی عوام کو ایسے مخاطب کیا جاتا ہے جیسے وہ شہری نہیں ، آج بھی رعیت ہی ہوں۔ رویوں میں ہی انسان دوستی نہیں ہے۔ کہیں’ خبردار ‘ سے مخاطب کیے جاتے ہیںکہیں ’ تنبیہہ ‘ سے۔ بیوروکریسی جیسے ادارے تفنن طبع کے لیے تو ’ سول سرونٹ‘ ‘ ہیں لیکن رویے وہی ایسٹ انڈیا کمپنی والے۔عوام سے کٹے ہوئے اور عوام سے بہت دور۔شہری کو ان افسران تک پہنچے کے لیے آج بھی قریب ویسے ہی’ معززین ‘ کی حاجت رہتی ہے جنہیں برطانوی نو آبادیات میں ’ کرسی نشیں‘ کا درجہ دیا گیا تھا۔اسی رویے اور اسی مجبوری کا دوسرا نام ’ تھانہ کچہری ‘ کلچر ہے جو ہماری مروجہ دیہی سیاست میںریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کلچر جب تک نہیں بدلتا، نو آبادیاتی قوانین میں جزوی ترمیم سے بھی کوئی خیر برآمد ہونا ممکن نہیں۔ نو آبادیاتی بندوبست کے اس طرز فکر اور اہتمام سے مقامی سطح پر تین رویوں نے جنم لیا۔ ایک رویہ نو آبادیاتی بندو بست سے مزاحمت پر مبنی تھا ۔ چنانچہ رد عمل میں ایک طبقہ اس نظام سے کٹ کر رہ گیا ۔ اس طبقے کے نزدیک اس نظام میں سرے سے کوئی خیر نہ تھا۔اس طبقے کی غالب اکثریت صاحب عزیمت تھی۔ ان اہل خیر کے لیے اس نظام میں کوئی کشش نہ تھی اور برطانوی نو آبادیاتی نظام کے نزدیک ان کی کوئی افادیت نہ تھی۔ دوسرا رویہ خود سپرگی اور احساس کمتری کا تھا۔جس کے مظاہر ہمارے سامنے ہیں۔ تیسرا رویہ اقبال اور قائد اعظم کا رویہ تھا۔ا س نظام کے اندر رہ کر اپنی تہذیب ، اپنے مذہب اور اپنی روایات سے جڑے رہنے کا رویہ۔قائد اعظم نے برطانوی نو آبادیاتی نظام میں انتخابات میں حصہ لیا مگر اپنے کاز سے جڑے رہے اور اسمبلی اجلاس می شرکت سے انکار کر دیا۔ دبائو بڑھا کر پاکستان کے قیام کا مطالبہ منوایا۔ مجبوری کے عالم میں ایکٹ آف انڈیا کو اپنا عبوری آئین بھی تسلیم کیا لیکن اپنے حلف میں True faith and allegiance to His majesty کی بات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور وہاںTrue allegiance to the Constitution of Pakistan and faith to His Majesty کے ا لفاظ شامل کروائے۔کیونکہ allegiance بہت بڑے درجے کی وفاداری میں آتا ہے اور لمحہ موجود کے بے رحم حقیقتوں کے باوجود اس درجے کی وفاداری بادشاہ سے نہیں آئین سے رکھی گئی۔یہی رویہ قائد اعظم نے اس وقت دکھایا جب انہوں نے مائونٹ بیٹن کو گورنر جنرل ماننے سے انکار کر دیا۔ یعنی ا یک طرف قائد اعظم قیام پاکستان سے منسلک آئینی پیچیدگیوں کو بھی نبھا رہے رہے تھے کیونکہ پاکستان بہر حال ایک سیاسی اور قانونی جدوجہد سے حاصل کیا گیا تھا اور اس کے کچھ آئینی مراحل تھے جن سے گزرنا تھا لیکن جہاں جہاں قائد اعظم نے محسوس کیا کہ کوئی بات آگے چل کر ان کے مقاصد ، خود مختاری اور قومی وقار سے متصادم ہو سکتی ہے وہاں وہ ڈٹ گئے اور اپنی بات دلیل سے منوا لی۔ یہی رویہ ہمیں اقبال کے ہاں ملتا ہے۔اقبال نے برطانوی ادارہ جاتی انتظام میں جو خیر کی قوت تھی اسے تسلیم کیا ، مگر اپنی اقدار اور روایات سے بھی جڑے رہے۔یہاں تک کہ اقبال کے تصور ریاست میں اسلامی قانون کے باب میں اجتہاد کی ذمہ داری پارلیمان کی ہے ۔ ہمیں اسی تیسرے رویے کی ضرورت ہے۔ رد عمل اور احساس کمتری کا شکار ہوئے بغیر ، ہمیں اس پورے نظام کا ا ز سر نو جائزہ لینا ہو گا۔ جہاں خیر کا عنصر ہو اسے قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ علمی و فکری ارتقاء نسل انسانی کا مشترکہ ورثہ ہے لیکن جہاں خیر کی بجائے نو آبادیاتی آزار کا پہلو غالب ہے ، اس سے نجات ضروری ہے۔ ہمارے تمام قوانین کو ہمارے آئین سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔قائد اعظم اور اقبال کے ویژن کے مطابق ۔ آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق کے مطابق اور اسلام کے انسان دوست اصولوں کے مطابق ۔ یہ کام پارلیمان کے کرنے کا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اسے قانون سازی کے علاوہ اور بہت سے ’’ اہم کام‘‘ درپیش رہتے ہیں۔