(اردو کے منفرد لہجے کی شاعرہ فہمیدہ ریاض کو رخصت ہوئے ایک سال ہوگیا۔فہمیدہ سے رفاقت اور دوستی کا ایک طویل تعلق اور رشتہ تھا ابھی بھی یقین نہیں آتا کہ وہ مجھ سے دور ہوگئی ہیں۔اس تاثراتی تحریر میں فہمیدہ کی چار دہائی کی شاعری اور شخصیت کو سمیٹنے کی ناتمام کوشش کی ہے۔) کاغذ ترا رنگ فق کیوں ہوگیا شاعر ترے تیور دیکھ کر کاغذ ترے رخسار پہ داغ کیسے ہیں شاعر میں ترے آنسو پی نہ سکا کاغذ میں تجھ سے سچ کہوں شاعر مرا دل پھٹ جائے گا فہمیدہ سے ہماری دوستی کا تعلق شیریں سے رشتہ بننے سے پہلے کئی برسوں سے تھا۔ہئے ہئے،اب اس لفظ دوستی میں بھی وہ مٹھاس ،وہ اپنائیت اور خلوص نہ رہا۔شادی کو ہفتہ نہیں گذرا تھا۔ہنی مون جیسی بورژوا حرکت کرنے کی نہ تو جیب اجازت دیتی تھی اور نہ ہی پارٹی لائن۔فہمیدہ ایک دن علی الصبح گھر آن دھمکیں۔اور شیریں سے کہنے لگیں۔’’بھئی میں مجاہد کو لے کر لاہور مشاعرے میں جارہی ہوں۔تمہیں پتہ ہے نا میں نے شادی سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مجاہد سے میری دوستی مت چھڑوا دینا۔‘‘اب تو خیر شیریں خواتین کو تحفظ دینے کے کمیشن کی سربراہ ہیں۔ اس زمانے میں بھی شاعر عوام حبیب جالبؔ سے تعلق ِ خاص کے سبب ہماری آوارگیوں سے خاصی آشنا تھیں۔مگر شادی سے صرف ہفتے بھر میں انہیں چھوڑ کر لاہور جانے والا فیمینزم کا سبق انہوں نے ابھی پڑھا نہیں تھا۔یوں بھی فہمیدہ اس وقت کوئی عام خاتون تھیں نہیں۔دودھیا چہرے پر بڑی بڑی آنکھیں۔ساڑھی کا ایک پلوُایک خاص انداز میں ایک ہاتھ سے چھلکتا تو دوسرے ہاتھ میں دھواں اڑاتا سگریٹ ۔اور اس پر پھر یہ شاعری: سو جاؤ ۔۔۔ تم شہزادے ہو اور کتنے ڈھیروں پیارے ہو اچھا تو کوئی اور بھی تھی اچھا پھر بات کہاں نکلی کچھ اور بھی باتیں بچپن کی کچھ اپنے گھر کے آنگن کی سب بتلا دو۔۔۔پھر سوجاؤ اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو یہ ٹھنڈی سانس ہواؤں کی یہ جھل مل کرتی خاموشی یہ ڈھلتی رات ستاروں کی بیتے نہ کبھی ۔۔۔تم سو جاؤ اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو دہائی تو گذر ہی گئی۔اب وہ باتیں،یادیں تازہ کرنے کے لئے دماغ کی رگیں کھینچنی ہونگی۔دل کو لہو لہان کرنا ہوگا۔فگار انگلیاں چاہئے ہونگی۔مگر اب نہ وہ دماغ،نہ دل اور نہ وہ قلم۔جس کی سیاہی برسوں پیٹ سے لگ کر سوکھ چکی ہے۔مگر فگار انگلیاں دکھا کر رخصت بھی تو نہیں ہوا جاسکتا۔70کی دہائی کا آغاز تھا۔پیپلز پارٹی کا ’روٹی،کپڑا،مکان‘ کا نعرہ ، کوثر نیازی کی خطابت اور مسعود محمود کی کارستانیوںمیں کبھی کا گم ہوچکا تھا۔ادھر ٹوٹتے بکھرتے بائیں بازو کی تلواریں اپنے لہو میں نیام ہو رہی تھیں۔روسی،چینی لیفٹ کی لڑائی اور فیض صاحب نے اس وقت کیسے ایک شعر میں سمیٹا تھا۔ یاں اہل جنوں یک بی دیگر دست و گریباں واں اہل ہوس تیغ بہ کف در پہ جاں ہے ان دنوں کراچی یونیورسٹی کی لابی میں ہم نے ادھر ادھر بکھرے کامریڈوں کے ساتھ ایک ینگ رائٹرز فورم بنائی تھی۔یکم مئی پر مشاعرے کا پروگرام بن رہا تھااسی دن خبر آئی کہ ویتنام میں ہو چی من کے گوریلوں نے امریکہ بہادر کو نکال باہر کیا ہے۔عجیب سرمستی و سرشاری ہم پہ طاری تھی۔اس وقت بھی یہاں خالد،خورشید ،مجید بلوچ بیٹھے ہیں۔جو فہمیدہ کے ساتھ کٹریکٹ ہال کی جھا ڑ پونچھ میں لگے تھے۔جالب ؔ،فرازؔ سمیت سارے ہی ترقی پسند موجود تھے۔فہمیدہ نظم پڑھنے آئیں توبدن دریدہ کی شاعری کی فرمائش ہونے لگی ۔ تم مجھ سے کہتے تھے بن کاجل اچھی لگتی ہیں میری آنکھیں تم اب جس کے گھر جاتے ہو کیسی ہوں گی اُس کی آنکھیں جن پہ دل دھڑکا تھا وہ باتیں سب دہراتے ہو وہ جانے کیسی لڑکی ہے تم اب جس کے گھر جاتے ہو مگر فہمیدہ نے اپنی معمول سے اونچی آواز میں کہا۔’’آج میں آپ کو ایک نئی نظم سناؤں گی، 23مارچ۔ قرارداد پاکستان پر نہیں۔ راولپنڈی میں پنجاب پولیس کی فائرنگ سے ہونے والے نیپ کے شہیدوں کے نام۔‘‘ پیراہن چاک کرو مصلحت اندیشی کا اپنے اشکوں کی برستی ہوئی بوچھاڑ میں آؤ یہ جھجکتے ہوئے بازو تو ہوا میں لہراؤ جسم کو رقص کے گرداب میں چکرانے دو شہر در شہر جو ہم رقص میں لہرائیں گے حلقہ در حلقہ بھنور پڑتے چلے جائیں گے مشاعرہ ختم ہوا۔ طار ق روڈمیں ہندو کے ہوٹل میں کھانا کھایا گیا۔جنہوں نے کبھی ایک سگریٹ چکھی نہیں تھی۔فہمیدہ کے ایڈمریشن میں ساری کے ٹو کی ڈبی خالی کردی۔ہم سب جو عمر میں ان سے پانچ چھ سال چھوٹے تھے۔ان پر عاشق ہوچکے تھے۔مگر یہی وہ وقت تھا جب ہم اپنی ڈگریاں بغل میں دبائے اُس راہ پرکھڑے تھے جہاں ایک راستہ شاندا ر نوکریوں کی طرف جا رہا تھا ،تو دوسرا سرخ پھریروں اور انقلابی نعروں کی طرف۔فہمیدہ لندن سے واپسی پر ایک اچھی بھلی ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں لگی ہوئی تھیں،مگر ان کا رومانس جنون کی حد تک بلوچ قوم پرستوں سے جڑا ہوا تھا۔جو پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف اپنی منتخب حکومت کی برطرفی کے بعد پہاڑوں پر مسلح جد وجہد کر رہے تھے۔ایک دن کوئٹہ جیل جا پہنچیں۔میرے دوست مجید بلوچ بتاتے ہیں کہ میرے ساتھ انقلابی شاعر گل خان نصیر بھی بیٹھے تھے۔بڑی معصومیت سے پوچھا۔’’میں پہاڑوں پر جانا چاہتی ہوں۔‘‘میر گل خان نصیر نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔’’اس ساڑھی اور اونچی سینڈل میںآپ پہاڑوں پر کیسے چڑھیں گی۔‘‘کوئٹہ سے واپس آئیں تو پتھر کی زبان کی شاعری بلوچوں کے لہو میں ڈوبی ایک نعرہ ٔ مستانہ بنی ہوئی تھی۔ جسم پر پیراہن پارہ پارہ گولیوں سے بدن پارہ پارہ بے سہارا لہو بہہ رہا ہے خون بیدار ہے جلد سوتا نہیں سینہ ٔ سنگ میں جذب ہوتا نہیں تازہ تازہ لہو بہہ رہا ہے حوصلہ کس میں تھا کس میں تھا حوصلہ وقت لکھتا ہے تاریخ کا فیصلہ ہم نہ جانیں مگر ہم نہ مانیں مگر یہ ہمارا لہو بہہ رہا ہے (جاری ہے)