ایسی قوم جسے اپنے نظام ، آئین و قانون اور ریاست کے اہم اداروں پر اعتماد نہ رہے اس کی بے چینی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ گذشتہ چند ماہ میں متعدد بار تواتر سے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں سوال پیدا ہوتا ہے کیا ہم کسی نظام کے تحت رہتے ہیں ؟نظام جو ریاست کو چلانے کے کا لازمی جزو ہے،اپنا وجود رکھتا ہے؟سیاسی اخلاقیات جو بسا اوقات نظام سے اہم ہوتی ہیں،اپنا وجود رکھتی ہیں؟قانون کو چکما دینے کا چلن، اختیارات کا ناجائز استعمال،عدالتوں سے کھلواڑ،ڈھٹائی ، ضد ، انا اور بے شرمی۔ ہماری سیاست میں رہ کیا گیا ہے؟ مثلا استعفے قبول کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے کوئی تو قانون ہو گا ہی۔ ظاہر ہے ، قانون یا تو یہ ہے کہ کوئی اجتماعی استعفے دے تو قبول کر لیے جائیں۔یاپھر قانون یہ ہے کہ استعفے اجتماعی طور پر دیے جائیں تو قبول نہ کیے جائیں۔مگر عملی طور پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں ایسا کوئی قانون موجود نہیں جو قومی اسمبلی کے اسپیکر سے پوچھے کہ وہ سیاسی مصلحت کے تحت فیصلے کرنے کا پابند ہے یا قانون کے مطابق؟وہ چاہے تو استعفے قبول نہ کرے اورمہینوں تک شرائط عائد کرتا رہے ۔ وہ چاہے تو بغیر شرائط پورا کیے اچانک استعفے قبو ل کر لے۔ قانون کی کتاب کو زمین میں دفن کر کے بادشاہت کے قیام کا اعلان کر کیوں نہیں دیتے۔ قانون کو دھوکہ دینے اور اداروں پر اثرورسوخ استعمال کرنے کے چلن نے نظام تباہ کر دیا۔ آئین کی کتابیں ردی معلوم ہوتی ہیں۔ہمارے نظام میں ن لیگ عطا تارڑ کو بھی نگران وزیر اعلی بنوا سکتی تھی۔ وہ تو ان کی مہربانی ہے کہ محسن نقوی اور احد چیمہ کا نام دیا۔اور اگر عطاتارڑ نگران وزیر اعلی بن جاتے تو کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ فریق مخالف ہر شہر میں روز احتجاج بھی کرے کسی کی صحت پہ کیا فرق پڑتا ہے۔ڈھٹائی سے کہا جاتا ہے ، جائو جا کر عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائو۔اُن عدالتوں کا جس کا نظام دنیامیں 126 ویں نمبر پر ہے۔ جب تک عدالت کوئی فیصلہ سنائے گی، نگران کی مدت گزر چکی ہو گی۔یہ نظام فرسودہ ہو گیا ہے، میرٹ پہ ایک غیر جانبدار وزیر اعلی تک مقرر نہیں کر سکتا۔اس نظام سے کسے کوئی امید بچی ہے؟ ابھی چند ہی دن کی بات ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک جج نے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دیا۔ الیکشن کمیشن نے حکم پر عمل درآمد نہ کیا۔فریق مخالف اسی عدالت کے پاس گیا ،عدالت نے اپنے ہی فیصلے کو ردی کو ٹوکری میں ڈال دینے کے معاملے کو اتنا بھی سنجیدہ نہ لیا کہ فوری سماعت ہی ہو جاتی ، دو دن بعد سماعت ہوئی تو دو ہفتے کی تاریخ دے کر معاملہ لٹکا دیا گیا۔ اب چند ہفتے گزرنے کے بعد یہ موضوع ہی ختم ہو گیا ہے ۔رانا ثنا اللہ نے کہا انتخابات نہیں ہو سکتے اور انتخابات نہیں ہوئے۔ اب بتائیے آئین و قانون بر تر ہوئے یا رانا ثنا ء کی منشا؟ آئین میں لکھا ہے اسمبلیاں تحلیل ہونے کے نوے دن کے اندر انتخابات ہوں گے، گورنر انتخابات کی تاریخ دے گا۔ مگر آئین کی حیثیت ہی کیا ہے۔ گورنر تاریخ نہ دینا چاہیں تو کون مائی کا لعل ان سے تاریخ دلوا سکتا ہے؟ وہ گورنرتھوڑا ہی ہیں بادشاہ ہیں ۔ بادشاہ کی مرضی جب جو چاہے کرے ۔ اگرنوے دن میں انتخابات حکومت کے فائدے میں نہیں تو انتخابات نہیں ہوں گے۔ قانون ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ معاملہ پھر عدالت کے پاس جائے گا اور عدالت سے جب تک فیصلہ آئے گا نوے روز کی مدت شاید گزر ہی چکی ہو۔ نئی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی نیب قوانین میں ترامیم کیں تا کہ اپنے کیسز ختم کرائے جا سکیں۔نیب قوانین کو فورا عدالت میں چیلنج بھی کر دیا گیا۔ اس عمل کو مہینوں گزر گئے۔ سپریم کورٹ میں یہ معاملہ زیر سماعت ہے۔ نیب کے کیسز دھڑا دھڑ ختم ہو رہے ہیں ، فائدہ اٹھانے والے فائدہ اٹھا کر لے بھی گئے۔ عدالت سے جب فیصلہ آئے گاکیسز ختم ہوئے مدت ہو چکی ہو گی اور ملزمان پارسا بن کے اگلا انتخاب لڑ چکے ہوں گے۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے ، تب ہوئے جب پیپلز پارٹی نے اپنا ہوم ورک مکمل کر لیا۔پیپلز پارٹی نہ چاہتی تو جماعت اسلامی ناک رگڑتی رہتی ،کچھ فرق پڑنے والانہ تھا۔انتخابات کے نتیجے پر بے شمار سوالات اٹھے، فارم 11,12 مذاق بن کے رہ گیا۔جائو جا کر عدالت سے انصاف مانگو۔اگر دو سال میں مل جائے تو اپنا مئیر بنا لینا ۔نہ ملے تو سڑکوں پر احتجاج کرو کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔ قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کے لیے ارکان کی تعداد کم سے کم 228 ہونی چاہیے۔ تحریک انصاف کے استعفوں کے بعد یہ تعداد 228 سے کم ہو چکی ہے۔ایک اسمبلی آئین میں معمولی ترمیم کرنے کے قابل بھی نہیں بچی،تو یہ اسمبلی ہے کس لیے؟لیکن یہ قائم رہے گی، اس کی مدت میں اگر ایک سال کا اضافہ مقصود ہو ا تو وہ بھی ہو جائے گا ، کوئی روک کے دکھائے۔ ہمارے ہاں عملا بادشاہت کا نظام قائم ہو چکا ہے۔نواز شریف کی بات ناگوار گزری تو ریاست کے تمام ادارے اسے نااہل کرنے اور سیاست سے نکال باہر کرنے میں لگ جائیں گے۔ عمران خان نا پسند ہوئے تو ان پر کانٹا لگا دیا جائے گا۔ فیصلہ کر لیا تو کوئی ادارہ اس میں رکاوٹ نہیں بن سکے گا۔ہوا کا رخ تبدیل ہو گیاتو مزاحمت نا ممکن ہے۔ نظریہ ضرورت کو جنم لینے میں یہاں وقت نہیں لگتا۔مایوسی اوربے چینی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے مگر ضد اور ہٹ دھرمی میں کمی واقع نہیں ہو رہی۔ 1971 میں چند لوگوں کی ضد ملک کو دولخت کرنے کا باعث بنی ، تاریخ سے ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔فاطمہ جناح سے لیکر عمران خان تک ہر سیاست دان پر کانٹا لگا دیا گیا۔ہر بار سیاست دان غلط تھے؟ اور اگر تھے کانٹا لگا کر حاصل کیا ہوا۔آئین و قانون کا بازو بار بار مروڑنے سے اگر نتائج مثبت نکلے ہیں تو یہ بھی قبول۔اگر ستر سال بعد بھی ہم کشکول اٹھائے دنیا بھر میں پیسے مانگتے پھر رہے ہیں تو روایات اورحکمت عملی بدلنے کی ضرورت ہے۔