اس وقت واقعات اتنی تیزی سے ہو رو نما رہے ہیں کہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کب کیا ہو جائے۔22 جنوری کو رات بارہ بجے پنجاب کے وزیر اعلی کا اعلان ہو گیا ۔زمانہ طالب علمی میں اساتذہ سے سنا تھا کہ الیکشن دن کے اجالے میں ہوتے ہیں اور بغاوت اور انقلاب رات کے اندھیرے میں برپا ہوتے ہیں۔ اب کیا کہا جا سکتا ہے کہ سید محسن نقوی کا پنجاب کے وزیر اعلی کی سیٹ پر آجانا کس قسم کا انقلاب ہے جو رات کے اندھیرے میں آیا ہے۔یہ تیسرا موقع ہے جب کسی صحافی کو پنجاب کا عبوری وزیر اعلی بنایا گیا سب سے پہلے 2013ء میں جناب نجم سیٹھی پنجاب کے وزیر اعلی بنے تھے۔ اور 2018ء میں جناب حسن عسکری کو پنجاب کا نگران وزیر اعلی بنایا گیا۔ اور اب سید محسن نقوی کو یہ ذمہ داری ملی ہے۔ سید محسن نقوی نیوز چینل کے مالک ہیں اور اسکے علاوہ وہ پانچ چھ مقامی نیوز چینل کے بھی مالک ہیں۔ جن میں سٹی لاہور شہر کا نیوز چینل اور سٹی فیصل آباد شہر کا نیوز چینل ہے۔محسن نقوی کا تعلق امریکہ کے ایک نیٹ ورک سی این این سے بھی رہا ہے وہ پاکستان میں سی این این کے ہیڈ رہے ہیں۔ بہت کم عمری میں بہت زیادہ ترقی کی ہے وہ 30 سال کی عمر میں وہ اپنا نیوز چینل لانچ کر چکے تھے۔وہ گجرات کے چوہدریوں کے رشتہ دار ہیں اور جناب آصف زرداری کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔اب تحریک انصاف اس تعیناتی کے خلاف کورٹ میں جانے کا اعلان کر چکی ہیں۔ اب الیکشن سے پہلے ہی کشیدگی کا ماحول پیدا ہو چکا ہے دیکھتے ہیں کہ پنجاب کے نگران وزیر اعلی اپنے اس اثر کو زائل کرتے ہیں یا عمران خان کے خدشات درست ثابت ہوتے ہیں۔ 23 جنوری صیح ساڑھے سات بجیکے بعد پورا پاکستان رات بارہ بجے تک بجلی سے محروم رہا۔ کراچی کے کچھ علاقوں میں بجلی شام چار بجے تک بحال ہو گئی تھی مگر پنجاب کے بہت سارے علاقے رات بارہ بجے تک اندھیرے میں ڈوبے رہے۔ اس دن پنجاب کے نگران وزیر اعلی نے حلف اٹھا یا ہے اور اب ملک کے دوسرے سب صوبوں کو بھی پتہ چل گیا ہے کہ کوئی آیا ہے جس کے آنے کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ ملک کا سارا نظام رک گیا تھا البتہ اس دن بہت سے لوگ ایک دوسرے کو ملنے میں کامیاب رہے کیونکہ ایک پورا دن انکو انٹر نیٹ کے بغیر گزارنے کا موقع مل گیا تھا اب ہم نیٹ کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ سارا دن سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا مشغلہ ہو کہ وقت گزرے۔ اس وقت احساس ہوا کہ کتاب کی ابھی کتنی ضرورت ہے۔ پاکستان میں یہ ایک سال میں دوسرا بریک ڈاون تھا حسب معمول ایک تین رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے کہ سسٹم کیوں خراب ہوا اب زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ کوئی چند صفحات کی رپورٹ آجائے گی ورنہ تو اسکی امید بھی نہیں ہے۔ گزشتہ دس سال میں صرف 2020ء اور 2016 ء دو ایسے سال ہیں ہیں جب ملک گیر پاور بریک ڈاون نہیں ہوا ورنہ تربیلا اور گدو دونوں میں کوئی ایک ہر سال یہ کارنامہ انجام ہوتا آ رہا ہے۔ 2014ء اور 2017ء میں تربیلا میں فالٹ تھا اور 2015ئ، 2018ئ، 2019ئ، 2021 ئ، 2022ء اور 2023ء میں یہ واقعہ گدو میں پیش آیا۔ ایک بجلی بند اور دوسرا سارے دن عجیب عجیب افواہیں گردش کرتی رہیں۔کوئی مارشل لا کا کہتا تو کوئی تخریب کاری کی خبر سناتا رہا۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم ہر سال ایک دن بجلی کے بغیر گزار دیتے ہیں۔ ورنہ صورتحال تو یہ ہے کہ سنہ 2000ء کے اعداد شمار کے مطابق جی ڈی پی کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں 41 ویں نمبر پہ تھا اور درآمدات میں 49 اور برآمدات میں 65 ویں نمبر پر تھا۔ لیکن فی کس امدنی میں پاکستان کا نمبر 172 واں تھا۔ اب تو مزید دو سال گزر گئے ہیں مزید ترقی ہو گئی۔ہم عالم اسلام کی اکلوتی ایٹمی طاقت ہیں۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے چین ، بھارت، امریکہ اور اندونیشیا کے بعد پانچویں نمبر پر ہیں۔پاکستان رقبہ کے لحاظ سے دنیا میں 34ویں نمبر پر ہے۔آبادی میں جو ترقی ہم نے کی ہے 2030ء تک ہماری پانچویں پوزیشن کو کوئی خطرہ نہیں ہے البتہ 2050 میں نائجیریا ہم سے آگے چلا جائے گا اوہ ہم چھٹے نمبر پر ہونگے۔ الیکشن کا تو کوئی پتہ نہیں البتہ منی بجٹ کی آمد آمد ہے اور مہنگائی کا جو طوفان لائے گا۔ ابھی سے کپکپی طاری ہے معاشی ماہرین کا کہنا ہے بجلی سات روپے فی یونٹ مہنگی ہو جائے گی۔ پٹرول اور ڈیزل پر لیوی 50 روپے فی لیٹر ہو گی۔ گیس 70 فی صد مہنگی ہوگی۔ فوڈ آئٹم کا جو پہلے حال ہے گندم کی قیمت 5400 روپے فی من سے اب 4200 روپے پر آئی ہے۔اب آنے والی فصل کی امدادی قیمت پنجاب میں 3000 اور سندھ میں 4000 طے ہوئی ہے۔جب ایک صوبے سے دوسرے میں 1000 کا فرق ہوگا تو ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں گندم پہنچے گی۔ اب سٹیل ملز والوں کا کہنا ہے ان کے پاس صرف 4 دن کا خام مال موجود ہے۔ سٹیل انڈسٹری پر 40 سے زائد صنعتوں کا انحصار ہے سمجھ سے باہر ہے کہ ملک کے حالات کس طرف جارہے ہیں ترقی کی نمو جواب کم ہو کر 3 فی صد کے قریب ہے عالمی اداروں کے مطابق اس میں اور کمی ہو سکتی ہے دوسری طرف افراط زر جو اب 25 فی صد سے زائد ہے اس میں مزید دس فیصد کا امکان ہے۔ ایک سال میں افراط زر کا 35 تا 40 فی صد بڑھنا کو ئی اچھا شگون نہیں ہے اب ہم صرف سری لنکا اورایک ادھ ملک سے پیچھے ہیں۔ آئی ایم ایف سے اگر معاملہ طے ہوتا ہے تو دوست ممالک سے مدد مل سکتی ہے۔ اب ہر کوئی ہمیں کہہ رہا ہے پہلے اپنے معاملات درست کریں اسکے بعد قرض کی بات کریں۔جواری آدمی کو کوئی بھی ادھار نہیں دیتا کاروباری کو لوگ خود گھر آکے قرض دیتے ہیں یہی دنیا کا دستو ر ہے اور اس میں ہی فراست ہے۔