پاکستان میں انتشار کی سیاست جاری و ساری ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاست کے دو سب سے بڑے ستون جھوٹ اور الزامات ہیں۔اپنے بارے میں جھوٹ بولا جائے اور دوسروں پر الزامات لگائے جائیں۔کوئی حکومت اپنے کئے گئے اقدامات کی ذمہ داری بھی گزشتہ حکومتوں پر ڈالتی ہے۔عمران خان نے اپنے پونے چار سال گزشتہ حکومت پر الزامات لگاتے ہوئے گزارے اور آج انہیں بھی یہی صورت حال درپیش ہے۔جو لوگ چار روپیہ فی لیٹر قیمت بڑھنے پر آسمان سر پر اٹھا لیتے تھے۔انہوں نے پٹرول کی قیمت یکمشت 84روپے فی لیٹر بڑھا دی اور ڈیزل کی قیمت میں 109روپے فی لیٹر اضافہ کر دیا اب آئی ایم ایف کی مہربانی سے 50روپے فی لیٹر ٹیکس لگانے کی تجویز بھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ان اقدامات کو مشکل فیصلہ کہہ کر اس کا کریڈٹ تو لیا گیا ہے لیکن اس کی ساری ذمہ داری بھی حسب معمول سابقہ حکومت پر ڈالی گئی ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ سابقہ حکومت نے کیا تھا۔جناب وزیر اعظم نے وعدہ کیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف سے کیا گیا معاہدہ قوم کے سامنے رکھیں گے لیکن ابھی تک یہ وعدہ پورا کرنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ وزیر اعظم اپنی تقاریر میں قومی یکجہتی کی بات کرتے ہیں اور ساری قوم کو ساتھ لے کر چلنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کے وزیر داخلہ نے ملک کے مقبول ترین لیڈر پر دہشت گردی کا مقدمہ قائم کیا ہوا ہے۔آج کی تازہ خبر ہے کہ عمران خان کی بریت کی حمایت کرنے پر وزارت داخلہ نے دو پراسیکیوٹرز کو ملازمت سے برطرف کر دیا ہے کوئی ذی شعور انسان یہ یقین نہیں کرے گا کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا قائد دہشت گرد ہے۔موجودہ حکومت کا یہ اقدام اتنا ہی قابل اعتراض ہے جتنا رانا ثناء اللہ کو منشیات کے مقدمے میں گرفتار کرنا قابل اعتراض تھا۔ملک کی سب جماعتوں کو اپنے اپنے موقف پر نظرثانی کرنی پڑے گی۔بہت سے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوری الیکشن ہی مسائل کا حل ہے لیکن میری ناقص رائے میں موجودہ حالات میں الیکشن بھی ہمارے مسائل حل نہیں کر سکتا۔ان حالات میں کوئی جماعت بھی اپنے حریف کو فاتح تسلیم نہیں کرے گی اپنی فتح ہو تو الیکشن کو آزادانہ اور درست قرار دیا جاتا ہے۔دوسرا فریق جیت جائے تو اسے دھاندلی قرار دیا جاتا ہے۔اگر انتشار کی سیاست جاری رکھنی ہے تو الیکشن کے بعد بھی حالات میں تبدیلی نہیں ہو گی۔حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ سیاست نہیں بلکہ ریاست کو بچانے کے لئے حکومت میں آئی ہے۔پی ٹی آئی کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ وہ ملک کی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے اور اقتدار اس کا مطمعٔ نظر نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سب سیاسی جماعتوں کو صرف اقتدار سے محبت ہے ابھی تک یہی ثابت ہوا ہے کہ اقتدار میں آنے کے لئے سب جماعتیں کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہیں۔ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے بھی اپنے موقف کو یکسر تبدیل کر چکے ہیں اور ایک صفحے پر ہونے کا دعویٰ کرنے والے بھی اقتدار سے فارغ ہونے کے بعد کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔عوام کسی کی ترجیح اول نہیں ہیں۔عوام کو کفایت شعاری کا درس دینے والے حکومت کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹ رہے ہیں۔وزارتوں کی بندر بانٹ پرانے ریکارڈ توڑ چکی ہے۔ابھی کل ہی تین معاونین خصوصی کا اضافہ کیا ہے جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کی پارلیمنٹ میں ایک سیٹ بھی نہیں ہے۔ان معاونین کو وفاقی وزراء کا درجہ دیا گیا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے پاس وزارت بھی کوئی نہیں ہے ان وزیروں اور مشیروں کی کل تعداد 56ہے اور ہر وزیر حکومت کو تقریباً ایک کروڑ روپیہ ماہانہ میں پڑتا ہے۔اگر یہی ہماری کفایت شعاری ہے تو پھر ہمارا خدا ہی حافظ ہے۔ اگرچہ یہ ضروری ہے کہ نئے الیکشن کے ذریعے ملک میں ایک دیرپا حکومت قائم کی جائے تاکہ وہ دور رس فیصلے لے سکے اور پوری ذمہ داری کے ساتھ حکومت چلائے۔لیکن اس کے لئے ضروری ہے ہے کہ الیکشن سے پہلے حکومت اور اپوزیشن میں سنجیدہ مذاکرات ہوں اور بہت سی چیزوں پر غیر مشروط معاہدہ کیا جائے غیر جانبدار الیکشن کمشن بنایا جائے اور یہ عہد کیا جائے کہ الیکشن کے نتائج کو ہر پارٹی صدق دل سے قبول کرے گی اور حکومت یا اپوزیشن کے رول کو سنجیدگی سے نبھائے گی۔ایک Truth & Reconciliation Commissionکی بنیاد بھی رکھی جا سکتی ہے کہ تمام جماعتیں اپنے پرانے گناہوں کو قبول کریں اور ان کا ازالہ کرنے کے بعد ایک نئی اور اصلی جمہوریت کی بنیاد رکھی جائے اس کے لئے سیاسی جماعتیں خود بخود کبھی بھی تیار نہیں ہوں گی اور اس کے لئے ہمارے ملک کے طاقتور اداروں کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا پڑے گا جب تک فوج اور عدالت مل کر ایسا لائحہ عمل ترتیب نہیں دیں گے یہ ممکن نہیں ہو گا یہ ملک ہم سب کا ہے اس لئے ہر ادارے کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا اس کے بعد جو حکومت بھی اقتدار میں آئے اسے سب کا تعاون حاصل ہو اور وہ ملک کو مستحکم بنیادوں پر آگے لے کر چلے پانی اور بجلی ہمارے بڑے مسائل ہیں۔اس کے لئے طویل المدتی منصوبے بنائے جائیں انڈسٹری کو ٹھوس بنیاد فراہم کی جائے اور ایکسپورٹ کے بلندہدف مقرر کئے جائیں۔صرف ٹیکس لگانے سے کام نہیں چلے گا۔ٹیکس کو ایک قابل قبول حد میں رکھا جائے لیکن ٹیکس نیٹ کو ملک کے ہر فرد تک بڑھایا جائے۔ایف بی آر کی تنظیم نو کی جائے اور چور دروازوں کو بند کیا جائے۔بالواسطہ ٹیکس نہ بڑھائے جائیں بلکہ امیر لوگوں سے بلاواسطہ ٹیکس لئے جائیں ٹیکس کے یہ ماڈل پوری دنیا میں موجود ہیں اور اس کے لئے کسی نئی ایجاد کی ضرورت نہیں ہے۔صرف قوانین بنانے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ایک زرعی ملک ہیں۔ہمیں اپنی پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے ریسرچ کے ادارے موجود ہیں لیکن ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ان کی تنظیم نو کی ضرورت ہے ہمارے ملک کو گندم ،چینی ،دالوں اور خوردنی تیل میں خودکفیل ہونا چاہیے۔جعلی کھاد اور جعلی ادویات ہمارے زراعت کے لئے زہر قاتل ہیں۔اس کا قلع قمع نہایت ضروری ہے۔ تیل اور گیس کے نئے ذخائر دریافت کئے جائیں اور عوام کو سستی انرجی مہیا کی جائے۔متبادل انرجی کی حوصلہ افزائی کی جائے۔اگر ہم ایٹم بم اور میزائل بنا سکتے ہیں تو ہم کار‘موٹر سائیکل ‘ کمپیوٹر اور موبائل ٹیلی فون کیوں نہیں بنا سکتے۔اب ہمارے پاس ضائع کرنے کے لئے وقت نہیں ہے۔