آنجہانی ہوگوشاویزوینزویلا کے دبنگ حکمران رہے ہیں ،تیل کی دولت سے مالاما ل یہ ملک امریکہ کاپڑوسی ہے۔ آنجہانی طویل عرصے تک ویزویلا کے صدر رہے ،وہ پہلی بار1999میں صدر منتخب ہوئے اور 2002تک اپنے عہدے پر فائز رہے۔ امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کو للکارنے کی پاداش میں ایک فوجی بغاوت نے انکا تختہ الٹ ،الگ بات ہے کہ یہ بغاوت عوامی طاقت نے کچل دی جس کے بعدوہ 2013تک امریکہ کے سینے پرمونگ دلتے رہے ۔یہاں تک کینسر نے انہیں سفر آخرت پر روانہ کرکے امریکہ کی جان چھڑا دی۔ ہوگو شاویز کی لیبیاکے صدرمرحوم معمر قذافی سے خوب بنتی تھی، کہتے ہیں خیمہ بدوش قذافی نے اپنے دوست کو ایک شاندار خیمہ تحفے میں دیاتھاجس کا استعمال شاویز نے وینزویلا میں شدید سیلاب کے دوران کیا اور خوب کیا ۔سیلاب سے آنے والی تباہی نے عوام کی بڑی تعداد کو بے گھر کردیاتھا ،ان کا مال اسباب سب پانی بہا لے گیا تھا،وہ سڑک کنارے ، درختوں کے نیچے بچاکھچا سامان رکھے حسرت و یاس کی تصویر بنے بیٹھے تھے ۔شاویز اپنے عوام کی دادرسی کے لئے متحرک ہوگئے انہوں نے اپنے سرکاری گھر کے سامنے اپنے عرب دوست کا بڑا سا خیمہ نصب کیا اور ایوان صدر سے وہاں شفٹ ہوگئے۔ انہوں نے اپنی رہائش گاہ میں پچیس خانماں برباد خاندانوں کو ٹھہرادیا،لوگ شاویز سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے اسے اپنا مسیحا گردانتے تھے۔ وہ کھڑا ہوتا تو جیسے وینزویلا میں وقت رک گیا ہو وہ چلتا تو جیسے زمانہ ساتھ چل پڑا ہو۔شاویز بے باک اور نڈر حکمران تھا 2007ء میں جب امریکی صدر بش کی پالیسیوں نے دنیا کو جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا یہ شاویز ہی تھا جس نے کہا کہ بش پاگل ہوگیا ہے اسے فوراپاگل خانے بھیج دیا جائے یہ وہی شاویز تھا جب2006ء میں امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے جھنجھلا کر وینزویلا کو خطے کی پریشانی قرار دیا تو ہوگوشاویز نے ردعمل میں امریکہ کو تیل کی سپلائی روک دینے کی دھمکی دے کر کہہ دیا کہ حد ادب ! آنجہانی شاویز کی اس جرأت اور بے باکی کے پیچھے ایٹم بم نہیںوینزویلا کی عوامی طاقت تھی ،یہ عوام ہی تھے جنہوں نے 2002ء میں امریکی سی آئی اے کی مدد سے شاویز کا تختہ الٹنے کی سازش اڑتالیس گھنٹوں میں ناکام بنادی ،عوام او رشاویز کے وفادار فوجیوں نے باغیوں کومشکیں کس دیں جس کے بعد شاویز کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہ ہوئی۔ یہ شخص ڈٹا رہا اور امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کھڑا رہا۔شاویز کے پیچھے عوام تھے شاویز کے عوام دوست اقدامات تھے شاویز نے صرف دو برسوں میں 350,000 گھر تعمیر کر کے مقامی کو نسلوں کے ذریعے سیلابوں، مٹی کے تودوں اور دیگر قدرتی آفات میں بے گھر ہو جانے والوں کودیئے علاج اور تعلیم مفت کردی۔ پسما ندہ علاقوں میں ڈسپنسریاں ہسپتال اور تعلیمی ادارے تعمیر کئے ، ہر شہری تک اعلیٰ تعلیم کی رسائی یقینی بنا نے کے لئے 22سرکاری یو نیورسٹیاں تعمیر کیں ،شاویز کے دور حکومت میں اساتذہ کی تعداد 65000 سے بڑھ کر 350000 تک جاپہنچی تھی،اشیاء خوردونوش تک ہر شہری کی دسترس کے لئے لفظی نہیں حقیقی پر سبسڈی کا آغاز کیا،ان سب سے بڑھ کر شاویز عوام کو دستیاب تھا وہ ان سے ہر ہفتے مخاطب ہوتا فیڈ بیک لیتا اس نے اپنی زندگی وینزویلینز کے لئے وقف کردی تھی وہ ان جیسا تھا اور ان جیسا رہا۔عوام میں رہنا اور عوام جیسا رہنا فلاحی رفاعی ریاست کااک پورا فلسفہ ہے ، حضور نبی کریم ﷺکے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد امت کی ذمہ داری آپﷺ کے یار غار حضرت صدیق اکبر کے کاندھوں پر آگئی ۔صدیق اکبر ؓ تاجر تھے کپڑے کی تجارت کرتے تھے دوسرے دن صبح اٹھے مال تجارت کے طور پر چند چادریں لیں کہ بازار جا کر فروخت کروں ،ابھی چلے ہی تھے کہ راستے میں مراد رسولﷺعمر فاروق ؓ سے ملاقات ہوگئی عمرفاروق ؓ نے پوچھا ،آپ کہاں تشریف لے جا رہے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے چادریں سنبھالتے ہوئے جواب دیا کہ بازار جا رہا ہوں کچھ سامان ہے بیچ کر گزراوقات کا سامان کروں گا۔عمر فاروق ؓ نے جواب میں کہاکہ یہ تو اب مناسب نہیں یہ کام چھوڑ دیجئے اب آپ خلیفہ ہیں۔تجار ت کریں گے تو خلافت کیسے ہوگی ۔حضرت ابوبکر ؓ نے سوال کیا کہ پھر کیا کروں ؟کام چھوڑدوں گا تو میرے بال بچے اہل وعیال کہاں سے کھائیں گے ؟ خلیفہ ء اول کی بات بھی درست تھی کہ اگر کام چھوڑدیتا ہوں تو گھرکیسے چلے گا،عمر فاروق ؓ نے کہا کہ ابو عبیدہؓ کے پاس چلتے ہیں وہاں طے کرتے ہیں ،دونوں دوست ابو عبیدہ بن جراحؓ کے پاس پہنچے اور وہاں مشورہ ہونے لگا۔عمر فاروقؓ نے فرمایا کہ خلیفہ اور انکے اہل وعیال کے لئے ایک اوسط درجے کے مہاجر کا لائف اسٹائل مناسب رہے گا۔انہوں نے ابوعبیدہ بن جراح ؓ سے کہاکہ ذرا حساب تو لگائیں کہ بھلا ایک اوسط درجے کے مہاجر خاندان کے کھانے پینے کا خرچ کیا ہوگا حساب کتاب کیا گیا اور یومیہ نصف بکری اور روٹی مقرر کردی گئی۔ اب معاملہ سترپوشی کا آیاتواس کے حوالے سے اصول یہ طے پایا کہ گرمیوں اور سردیوں کا الگ الگ لباس دیا جائے گاا ور طریقہ یہ ہوگا کہ پھٹ کر ناقابل استعمال ہونے والا لباس جمع کرایا جائے گا جس کے بعد خلیفہ نیا لباس لینے کا مجاز ہوگا ۔لکھنے کو بہت کچھ ہے جن کے لئے لکھ رہا ہوں وہ بھی جانتے ہیں اور مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔خلفائے راشدین جیسے نا م رکھنے والے حکمران اپنا جائزہ تولیں کہ وہ کہاں ہیںچلیں! یہ بہت کڑا امتحان ہوگا اسے رہنے دیں وہ’’ہوگوشاویز ‘‘ ہی ہوجائیں مجھے چڑھتے سورج کے ساتھ اجلے دن کا سا واثق یقین ہے کہ دنیا بھر کے پاکستانی ان کا ساتھ دیں گے۔ پٹرول پانچ سو روپے لٹر ڈلوالیں گے۔ اپنی بہن بیٹیوں کا جہیز بیچ دیں گے۔ سارا قرضہ اتر جائے گا ۔سارے دلدر دور ہوجائیں گے۔ لوگ انہیں کاندھوں سے اترنے نہیں دیںگے۔ انکی سانسیں ختم ہوئیں تو وہ دلوں کے مکین ہوں گے بس انہیں اعتبار اور اعتماد دے دیں اوروہ عوام کے بیچ رہنے سے آتا ہے !