اداکاری کے فن میں جن اداکاروں نے مجھے متاثر کیا ان میں ایک اہم نام عابد علی بھی تھا۔ میںنے انہیں اتنے ڈراموں میں کام کرتے دیکھا ہے کہ اب یاد بھی نہیں۔ لیکن ان کے بارے میں جب بھی سوچتا ہوں، کسی نہ کسی ڈرامے میں ان کی اداکاری، ان کے چہرے کے تاثرات، ان کی بھاری اور گمبھیر آواز اور ادا و انداز ذہن کی سطح پر ابھر آتے ہیں۔ اب چونکہ ڈراموں کے فن پر زوال آ گیا ہے اور ویسے ڈرامے ٹیلی ویژن چینلوں پر نہیں آتے جس کی روایت پی ٹی وی نے قائم کی تھی، اس لئے دوسروں کی طرح میں نے بھی ڈرامہ دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ البتہ ٹی وی سیٹ کے سامنے سے گزرتے ہوئے کبھی کبھار کسی ڈرامے کی کسی جھلک پر نظر پڑ جاتی ہے، چنانچہ ایک آدھ بار کسی ڈرامے میں عابد علی پر بھی نظر پڑ گئی جس سے پتہ چلا کہ وہ اب بھی ڈراموں میں کام کر رہے ہیں لیکن ڈرامے کے فن سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ اداکار تو ہدایت کار اور ڈرامہ نگار کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی ہوتا ہے۔ ہدایات، کہانی اور کردار اچھا نہ ہو تو بے چارہ اداکار بھی کیا کرے۔ تو عابد علی کو سکرین پہ دیکھ کر میں ٹھٹھک کر رک جاتا تھا اور پھر اداکاری میں اور مکالموں میں جان نہ پا کر آگے بڑھ جاتا۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ نہ نکالنا چاہیے کہ عابد علی کے فن پر زوال آ گیا تھا۔ وہ بھی مجبور تھے۔ آج بھی پی ٹی وی کے بہت سے ایسے اداکار جنہوں نے پی ٹی وی کے ڈراموں میں اپنے فن کا چراغ جلایا اور مقبولیت کے بلندیوں پر پہچ گئے محض اس لئے کہ انہیں اشفاق احمد ‘امجد اسلام امجد ‘ حمید کاشمیری‘ حسینہ معین اور فاطمہ ثریا بجیا جیسے ڈرامہ نگار کے لکھے ہوئے ڈراموں میں کام کرنے کا موقع ملا اور محسن علی‘ شہزاد خلیل‘ قاسم جلالی ‘ نصرت ٹھاکر اوران جیسے بڑے ہدایت کاروں کی ہدایات میسر آئیں۔ اب نہ ویسے ڈرامہ نگار ہیں اور نہ ویسے پروڈیوسر ،تو اداکاروں کو اپنے فن اور اپنی صلاحیت کے امکانات کو ظاہر کرنے کا موقع بھی نہیں مل پاتا۔ہمارے بہت سے ڈرامہ نگاروں نے تو ڈرامہ لکھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں ہم کس کے لئے لکھیں۔ شاید ہمارے لکھنے کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ ڈرامہ نگاری پرڈائجسٹ میں کہانیاں لکھنے والی خواتین افسانہ نگاروں کا قبضہ ہو گیا ہے۔ ان ڈراموں کے موضوعات بھی خاندانی سازشیں‘ شادی اور محبت کے روایتی موضوعات اور جانے کیا کیا الابلا ہیں۔ تخلیقی ڈرامہ کیا ہوتا ہے ؟ ان کی پیشکش کیسے ہوتی ہے؟ اداکاری اور منظر نگاری کا فن کسے کہتے ہیں؟ اس سے آج کے ٹیلی ویژن چینل اور انکے پروڈیوسر و ہدایت کار ناواقف ہیں۔ ڈرامہ بینوں کا طبقہ بھی اس گھریلو خواتین تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ جن کی مجبوری ہے کہ یہ ڈرامے نہ دیکھیں تو کیا دیکھیں۔ لیکن اب بھی جن چینلوں پر پی ٹی وی کے پرانے ڈرامے دکھائے جاتے ہیں‘ انہیں دیکھنے والے شوق سے دیکھتے ہیں اور پرانے زمانے کو The old golden daysکو یاد کرتے اور سرد آہیں بھرتے ہیں۔ آہ ہمارا ڈرامہ۔ چند رو زپہلے عابد علی کے انتقال کی خبر اخبار میں پڑھی تو بے ساختہ زبان سے نکلا آہ عابد علی! ایسا لگا عابد علی دنیا سے رخصت نہ ہوئے‘ ٹی وی ڈرامہ دنیا سے رخصت ہو گیا۔ کیا شبہ ہے کہ اب ویسا اداکاردنیا میں نہ آئے گا۔ جو دنیا سے جاتا ہے وہ کب واپس آتا ہے ہاں اس کا فن‘ اس کی خدمات اور اس کے کام باقی رہ جاتے ہیں جو اس کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ اخباروں میں آیا ہے کہ عابد علی نے ’جھوک سیال‘سے اپنی اداکاری کا آغاز کیا اور انہیں پہلی بار ملک گیر شہرت ’’وارث‘‘ سے ملی جس نے پی ٹی وی کے ڈراموں کا رخ ہی بدل دیا۔ وارث میں ہمیں عابد علی‘ فردوس جمال کی اداکاری خوب یاد ہے۔ ویسے تو وارث کی شہرت چودھری حشمت کے کردار کی وجہ سے زیادہ ہوئی لیکن مذکورہ دونوں اداکاروں نے بھی اپنے فن کا خوب مظاہرہ کیا۔ وارث کے بعد امجد اسلام امجد کا ڈرامہ سمندر پیش کیا گیا تو اس میں بھی عابد علی تھے اور انہوں نے اپنے فن کا بہت خوب مظاہرہ کیا۔ جنرل ضیاء کے دور میں نیف ڈیک نے نسیم حجازی کے ناول خاک اور خون پر فلم بنائی کہ یہ ناول قیام پاکستان کے موضوع پر تھا اور اس میں ہجرت کے بڑے خونچکاں مناظردکھائے گئے تھے۔ میں نے یہ فلم خصوصی اہتمام سے دیکھی اور اس میں بھی عابد علی کے کام کو دیکھ کر متاثر ہوا۔ یہ ہماری فلم انڈسٹری کی بدقسمتی ہے کہ ایسی متاثر کن ومفید فلم باکس آفس پر کامیاب نہ ہوئی۔ دیکھنے والوں کا تاثر یہ تھا کہ یہ بھی ایک ٹیلی ویژن ڈرامہ ہی تھا جسے بڑے پردے پر پیش کر دیا گیا تھا۔ اس میں فلم والی کوئی بات نہ تھی تو کیسے چلتی۔ بہرحال عابد علی ڈراموں ہی کے لئے وقف رہے اور ہمارے بہت سے اچھے اداکاروں کی طرح انہوں نے فلمی دنیا کا رخ نہ کیا یا وہاں بہت کامیاب نہ رہے۔ حالانکہ فلم انڈسٹری کے لئے ٹیلی ویژن ڈرامہ ایک نرسری تھی جہاں سے بہت اچھے اداکار‘ کہانی کارارو ہدایت کار مل سکتے تھے۔ لیکن جب فلم انڈسٹری غیر تعلیم یافتہ اور غیر تربیت یافتہ ہاتھوں میں ہو تو اس انڈسٹری کا حال معلوم نتیجہ یہ نکلا کہ فلم انڈسٹری کا بھٹہ بیٹھ گیا۔ اب سنا ہے ہماری فلم انڈسٹری دوبارہ اٹھ رہی ہے اوراچھی فلمیں بننے لگی ہیں۔ لیکن ایسے زمانے میں جب فلم انڈسٹری کی کامیابی کے امکانات روشن ہو رہے ہیں‘ عابد علی جیسے فن کار کا اٹھ جانا ایک سانحہ ہی تو ہے۔ ہمیں ان کی رحلت پر جو افسوس ہے وہ تو ایک فطری سی بات ہے لیکن اندیشہ اس کا بھی ہے کہ ان کے اٹھ جانے سے ان کے اہل خانہ‘ ان کی بیوی بچے کسی معاشی پریشانی اور تنگی و تنگ دستی کا شکار نہ ہوں۔ نئی حکومت جو اب کچھ ایسی نئی بھی نہ رہی‘ اسے ایسے فن کاروں کے مستقبل کے لئے بھی کچھ نہ کچھ سوچنا چاہیے۔ کیوں کہ کم سے کم ڈرامہ ہمارے اداکاروں کواتنا کچھ نہیں دیتا جس میں اداکار اوراس کے اہل خانہ آسودہ حالی کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ جو غربت اورمحرومی کا شکار ہیں‘ ان کے لئے ضرور سوچنا چاہیے اور کرنا چاہیے لیکن وہ لوگ جو عوام کے خادم ہوں جو اپنے فن سے اور اپنی خدمات سے عوام کو خوشیاں اور سکون و راحت بہم پہنچائیں۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی سرپرستی کرے۔ یہ بھی عوام ہی کی خدمت اورسرپرستی ہے۔ اخباروں نے لکھا ہے کہ عابد علی کے دونوں گردے فیل ہو گئے تھے اور ڈاکٹروں نے ان کی زندگی سے مایوسی کا اظہار کر دیا تھا۔ آخری سانسیں لیتے ہوئے‘ ان کے ہاتھ ان کی بیٹی نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھا تھا۔ یہ زندگی کا ڈرامہ ہے‘ جس کا اختتام بھی ایک المناک منظر پہ ہوتا ہے۔!