پارلیمانی سے صدارتی اور صدارتی سے پارلیمانی نظام پر گفتگو کس قدر آسانی اور سہولت سے ہر چند سالوں کے وقفے سے اس ملک میں شروع ہوجاتی ہے، بلکہ عموما ان بحثوں کے نتیجے میں یہ نظام نافذ بھی ہوتے رہے ہیں، انکی بساط لپیٹی بھی جاتی رہی ہے اور انکے ڈھانچوں میں بے پناہ تبدیلیاں کرکے انکا حلیہ بھی بگاڑا جاتا رہا ہے۔ ان ساری مسلسل کوششوں کا تحفہ 1973ء کا آئین ہے جس میں لاتعداد ایسے آرٹیکل آج بھی موجود ہیں جنہیں فرد واحد یعنی ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے بغیر کسی جمہوری طریقہ کار اپنائے، آئین میں شامل کیاتھا۔ دونوں نے اپنے ادوار میں ایسے الیکشن کروائے اور اسمبلیاں منتخب کیں جنہیں آج تک متنازعہ قرار دیا جاتا ہے، لیکن ان دونوں متنازعہ اسمبلیوں نے ان دونوں مارشل لاء ڈکٹیٹروں کی "عطا کردہ" ترامیم کو کمال جمہوری طریقے سے بسر و چشم آئین میں شامل کرلیا۔ ایسی کسی بھی آئینی پیشرفت پر اگر متنازعہ جمہوری اسمبلی کی مہر تصدیق لگ جائے تو پھر کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ آج بھی اگر کوئی طالع آزما ڈکٹیٹر ملک میں موجود بحران کا بہانہ کر کے اقتدار پر قابض ہو جائے، ایل ایف او کے تحت عدلیہ کے ججوں سے حلف اٹھوائے، میڈیا ہاوس کے مالکان کو طلب کرے اور پھر چشم زدن میں اظہار رائے کی آزادی کو مالکان کے مفادات کی قربان گاہ پر ذبح کردے، سپریم کورٹ سے یہ اختیار حاصل کر لے کہ اس ملک کی بنیادی خرابیوں کی جڑ جوتیوں میں دال بٹنے والا پارلیمانی نظام ہی ہے، اسلئے عدالت آمر کو موجودہ آئین میں ترمیم کا ویسا ہی اختیار دیتی ہے جیسا کہ معزز عدالت نے ضیاء الحق اور پرویز مشرف کو دیا تھا۔ ایسا کرنے کے بعد وہ آٹھویں اور سترہویں ترمیم کی طرح ایک بار پھر آئین کا حلیہ بگاڑ ے، اس نئے عبوری آئین کے تحت الیکشن کروائے، اپنی مرضی کے اراکین منتخب کرانے کی پوری کوشش کرے، اگر مطلوبہ تعداد میسر نہ آسکے تو پیپلزپارٹی کے پٹریاٹ کی طرح ممبران اسمبلی توڑے اور پارلیمنٹ سے اپنی "فرد واحد" کی بنائی گئی تمام ترامیم منظور کروا لے تو "جمہوری بانسری" بجانے والے دانشور اور سیاستدان اسے عین جمہوری تسلسل کا حصہ قرار دیں گے اوراگر ممکن ہو سکا تو اسکو تبدیل کرنے کے لیے کسی دو تہائی اکثریت والی نواز شریف کی 1997 ء کی اسمبلی کا انتظار کریں گے یا پھر رضا ربانی والی اٹھارہویں ترمیم کی مشترکہ کاوش کا۔ لیکن جتنے سال بھی یہ آئین نافذ رہیگا کوئی اسکے جائز اور ناجائز ہونے پر سوال نہیں اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ آئین میں اس فرد واحد کی تبدیلیوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی نہیں کیا جاسکے گا، اس لیے کہ اسکے اقدامات پر منتخب جمہوری اسمبلی نے مہر تصدیق ثبت کردی تھی۔ پرویز مشرف کو اگر اتنی مہلت مل جاتی کہ وہ اپنی 3 نومبر 2007ء کو لگائی گئی ایمرجنسی کی پارلیمنٹ سے تصدیق کروا لیتا تو آج غداری کے مقدمے نہ بھگتتا۔ دنیا کے لاتعداد ممالک میں ،آئین میں اکھاڑ پچھاڑ، نظام کی تبدیلی، اور جمہوریت کا ہر روز نیا ملبوس تیار ہوتا رہتا ہے اور کوئی سوال تک نہیں اٹھاتا کہ یہ کیسے ممکن ہوا، کیسے ممکن ہو گیا۔ لیکن اگر غلطی سے کہیں اس صدارتی اور پارلیمانی نظام کی بحث کے دوران کوئی دیوانہ یہ نعرہ بلند کردے کہ ہم نے صدارتی اور پارلیمانی نظام دونوں آزما لئے، اب خلافت کے نظام کو بھی آزما کر دیکھتے ہیں تو ایک دم چاروں طرف سے آوازیں بلند ہونا شروع ہو جائیں گی کہ یہ کیسے نافذ ہو سکتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں آجکل نظام کی تبدیلی کی بحث چل رہی ہے اسلیئے یہ ضروری ہے کہ نظامِ خلافت کے نفاذ کے طریقِ کار پر گفتگو کر لی جائے ۔ جس طرح باقی تمام نظام اپنے طریقَ کار اور نفاذ کے معاملے میں مضبوط دلائل رکھتے ہیں ویسے ہی جدید دور میں نظام خلافت کے نفاذ کی اساس اور طریقِ کار کے بھی قوی دلائل ہیں جن پر بحث ضروری ہے۔ اس لیے ان مجوزہ دلائل کو سامنے رکھ رہا ہوں تا کہ ارباب عقل و دانش اس پر بحث کا آغاز کرکے اسے نافذالعمل بنانے کا راستہ متعین کرسکیں۔ 1۔ پہلا بنیادی تصور جس پر جمہوریت کی عمارت کھڑی ہے وہ" ایک آدمی ایک ووٹ" (One man one vote)کا تصور ہے۔ یعنی کاروبار سلطنت چلانے کے لئے جن "ذہین اور عالی دماغ" افراد کی ضرورت ہے انہیں منتخب کرنے کے لیے ملک بھر کے ہر "بالغ" شخص کو برابر کا حق حاصل ہے۔ کاروبارِ سلطنت چلانے کا فیصلہ شائد وہ واحد فیصلہ ہے جس میں صرف اور صرف بالغ ہونے کی شرط ہے ،بلکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس میں "عاقل" ہونے کی شرط بھی موجود نہیں یعنی ایک فاترالعقل، ذہنی مریض یا ذہنی پسماندہ (Retarded) بلکہ نشے کی وجہ سے ذہنی بیماری (Toxic Psychosis) کے شکار شخص کی رائے اور ووٹ بھی اتنا ہی محترم اور معزز ہے اور اتنا ہی وزن رکھتا ہے جتنا ایک نوبل انعام یافتہ ادیب کا ووٹ ہے۔اگر پاکستان میں موجود چالیس لاکھ کے قریب نشے کے عادی افراد کا ووٹ ایک منصوبے کے تحت مختلف حلقوں میں تقسیم کر دیا جائے تو یہ فاترالعقل افراد کم از کم اپنی چالیس سیٹیں اسمبلی میں منتخب کرا سکتے ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جنہیں دنیا کی ہر میڈیکل سائنس اور نفسیاتی علم کی ہر کتاب اس قابل نہیں سمجھتی کہ وہ کسی بھی معاملے میں اپنی رائے دے سکیں۔ لیکن جمہوری نظام میں کوئی بھی ملک انکو رائے دہندگی سے باہر (Exclude) نہیں کرتا۔ "ایک آدمی ایک ووٹ" ایک ایسا تصور ہے جو انسانی زندگی کے کسی دوسرے معاملے یا شعبے میں کبھی بھی نہیں اپنایا جاتا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ایک آدمی ایک ووٹ کا تصور بالکل غیر فطری ہے۔ مکان بنانا ہو، فیکٹری لگانی ہو، یونیورسٹی میں مضمون کا انتخاب کرنا ہو، بیٹے یا بیٹی کی شادی کرنا ہو، یہاں تک کہ کہیں سے اگر کوئی سوٹ یا جوتا بھی خریدنا ہو تو ان لوگوں سے رائے لی جاتی ہے جو اس معاملے میں کسی نہ کسی قسم کا تجربہ یا علم رکھتے ہوں۔ معمولی سے معمولی فیصلے اور بڑے سے بڑے کام کے لیے رائے دینے والے کی اہلیت کو سب سے پہلے ذہن میں رکھا جاتا ہے، ہر کسی کی رائے کو برابر وزن نہیں دیا جاتا۔ اسلام بنیادی طور پر اپنے تمام قوانین کے اطلاق کے لئے صرف بالغ کی شرط نہیں لگاتا بلکہ اسکے ساتھ ساتھ "عاقل" کی شرط بھی عائد کرتا ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد صرف "بالغ" پر فرض نہیں بلکہ اسکے لیے "عاقل" یعنی ہوش مند ہونا بھی ضروری ہے۔ اسلام میں رائے یا ووٹ کے بارے میں دو واضح تفریقیں(Clauses) ہیں۔ ایک اہل یعنی رائے دہندگی میں شامل افرادکی تفریق (Inclusion clause) اور دوسرا رائے دہندگی سے باہر یعنی (Exclusion clause)۔ اور یہ ہر جمہوری نظام میں بھی ہوتی ہیں۔ مثلاً پاکستان میں 18 سال سے کم عمر فرد جو Exclusion clause میں ہے یعنی رائے دہندگی سے باہر ،خواہ ملالہ یوسفزئی کی طرح نوبل انعام بھی لے آئے وہ اس قابل نہیں ہے کہ اسکی رائے کو ووٹ میں بدلا جاسکے۔ لیکن پاگل خانوں میں مقیم فاترالعقل بالغ افراد اور منشیات کے اڈوں پر اپنے ہوش و حواس سے بیگانہ تمام بالغ ووٹ دینے کے مستحق ہیں یعنی وہInclusion clause میں شامل ہیں۔ یہی بنیادی خرابی ہے اس لیے کہ دنیا کا ہر جمہوری نظام ووٹر کو کاروبار حکومت میں صرف اور صرف ایک دن کے لئے شریک کرتا ہے اور وہ دن ووٹنگ کا دن ہوتا ہے۔ اسکے بعد کے پانچ سال اسمبلیوں کے منتخب افراد ان تمام طاقتوں کے غلام ہوتے ہیں جن کے سرمائے سے وہ الیکشن لڑتے ہیں یا جن کے مفادات کے تحفظ کے لیے وہ سیاست میں آتے ہیں۔ جبکہ دنیا کا ایک بہترین نظام سلطنت وہ ہوسکتا ہے جس میں رائے دینے کے اہل افراد ہر بڑے فیصلے میں برابر کے شریک ہوں اور مسلسل حکومتی عمل کا حصہ بنتے رہیں۔ اسلام ایسے رائے دینے والے اہل افراد کی شرکت کے عمل کو اجماع امت کا نام دیتا ہے ۔ (جاری ہے)