پاکستان اور آئی ایم ایف(عالمی مالیاتی فنڈ) کے درمیان آنکھ مچولی جاری ہے۔حتمی نتیجہ کیا نکلتا ہے۔کچھ کہنا قبل از قیاس ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف کے سامنے چاروں شانے چت پڑا ہے۔شہ رگ پر ہاتھ ہے‘ چھری نہیں چلی کیونکہ پاکستان آسانی اور خاموشی کے ساتھ خودکشی قبول کرنے کے لئے مکمل طور پر تیار نہیں۔ بعض قائدین کا طائفہ پاکستان کو سری لنکا بننے کی نوید یا وعید کرتا رہتا ہے۔آئی ایم ایف کی تاریخ شاہد ہے کہ وہ سیاسی و تجارتی اہمیت کے حامل ملک کو ڈالرز میں قرض دیتا ہے بلکہ قرض کا عادی بناتا ہے، جس کے باعث اس ملک کی مقتدر اشرافیہ قرض کی مے پینے سے مدہوش بلکہ بے ہوش ہو جاتی ہے جبکہ ریاست اور عوام با الفاظ دیگر سٹیٹ اور سوسائٹی (State and Society)قرض کی زیارت سے محروم رہنے کے باوجود قرض کے جبری شکنجے میں دم توڑنے لگتی ہے۔آئی ایم ایف کی مالیاتی سرگرمیوں سے وہ ملک ریاستی آزادی سے محروم اور معاشی بدحالی یا بدمعاشی کا شکار ہو جاتا ہے، جس کے بعد آئی ایم ایف کو مقروض ملک کی سیاست ‘ تجارت ‘ حکومت‘ معیشت ‘ معاشرت کو اپنی مرضی سے ڈالنے میں مدد ملتی ہے۔آئی ایم ایف بظاہر عالمی مالیاتی ادارہ ہے مگر یہ زیر نظر ملکوں کی حکومت اور سیاست کے ساتھ سرکاری کارندوں کو آلہ کار بناتا ہے۔ اور قرض کی سود کے ساتھ ادائیگی کو یقینی بنانے کے لئے انتظامی امور پر اجارہ داری قائم کر لیتا ہے۔ جس کے بعد مقروض ملک اپنی داخلی و خارجی آزاد پالیسی سے محروم ہو جاتا ہے۔ سری لنکا نے اکھنڈ بھارت کے استعماری جبر کے خلاف پاکستان اور چین کے ساتھ ہمہ جہت باہمی تعاون بڑھا رکھا تھا۔سری لنکا نے بھارتی فوجی دہشت گردی کا تدارک بھی پاکستان کی مدد سے کیا اور پاکستان کے ذریعے کے ساتھ تجارتی اور معاشی روابط بڑھائے ۔آئی ایم ایف کو سری لنکا کو قرض کے چکر میں چال میں ڈال کر چینی دوستوں سے دور کیا اور بھارت کی بے رحم گود میں ڈال دیا اور آج سری لنکا کی قابض مقتدر اشرافیہ نے دفاعی اخراجات میں کمی کی پالیسی اپناتے ہوئے فوج میں کمی کا وعدہ کر لیا۔سری لنکا آئی ایم ایف کی بظاہر قرض کی ادائیگی پوری کرنے کے لئے سب کچھ کھو بیٹھا۔کیا پاکستان آئی ایم ایف کی حاکمانہ یا تحکمانہ پالیسی کا خاموش آلہ کار بن جائے گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے، جس کا جواب دانشمندانہ جرأت کا متقاضی ہے۔ اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان عالمی مرضی کے بر خلاف وجود میں آیا۔لہٰذا عالمی طاقتوں اور اداروں بشمول اقوام متحدہ ‘ عالمی بنک‘ ایشیائی ترقیاتی بنک(ADP) آئی ایم ایف(IMF) نے حیلے بہانے پاکستان کو اپنا بنانے کی پالیسی ترک نہیں کی۔عالمی طاقتوں اور اداروں کو پاکستان کی جوہری‘ جہادی اور نظریاتی صلاحیت اور اہلیت کھٹتی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان عالمی قرض اور نام نہاد امداد کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا؟ کیا پاکستان کی ترقی‘ خوشی اور خوشمالی ہمیشہ عالمی قرض پر منحصر رہے گی؟ کیا عالمی قرض اور سود کی ادائیگی صرف ریاستی اداروں کی نجکاری روز مرہ اشیاء کے نایابی ‘ مہنگائی اور ٹیکسز کی زیادتی سے ممکن ہے یا اس کے برعکس دانشمندانہ آزاد پالیسی بھی اپنائی جا سکتی ہے؟ کیا بجٹ کا خسارہ مظلوم بلکہ محروم عوام پر ٹیکسز کی بھر مار سے پورا ہو جائے گا؟ ہرگز نہیں عالمی قرض اور سود کی ادائیگی کے لئے مزید قرض کی پالیسی خودکشی سے کم نہیں۔اس سے نجات کے لئے انقلاب سے زیادہ دانشمندانہ جرأت اور پاکستان کی آزاد پالیسی‘ نظام اور انتظام پر منحصر ہے قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے پاس کچھ نہیں تھا مگر دانشمندانہ آزاد پالیسی نے سب کچھ فراہم کیا مگر اس سب کے لئے حوصلہ‘ ہمت اور جرأت چاہیے۔قائد اعظم نے پاکستان کے پہلے بجٹ کا خسارہ ٹیکسز لگانے کی بجائے مخیر مخلص اور بے لوث افراد کے مالی اور مالیاتی تعاون اور مدد سے پورا کیا تھا۔ پاکستان کی مالیاتی بدمعاشی کا حل مالیاتی معاشی آزادی کی بحالی میں مضمر ہے۔پاکستان کی مالیاتی تجوری پاکستان کا سٹیٹ بنک SBPہے جو پاکستان کے جملہ مالیاتی معاملات کا نگران نگہبان اور محافظ ہے۔اگر SBPکو پاکستان کا معاشی جی ایچ کیو (GHQ) کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔SBPپاکستان کی مالیاتی انتظامی ریگولیٹری اتھارٹی ہے یہ ریاست کی ملکیت ہے حکومتی یا پارلیمانی جائیداد نہیں جو رہن رکھی جائے۔آج مہنگائی کا جن اس لئے قابو نہیں آ رہا کہ پاکستان کی سابق حکومتی پارلیمان نے قرض کی نام نہاد شفاف ادائیگی کو یقینی بنانے کے لئے SBPکو آئی۔ SBPکی عالمی خود مختاری نے حکومت پاکستان کو قومی کرنسی روپیہ اور عالمی کرنسی ڈالر کی ریگولیٹری اختیار سے محروم کر رکھا ہے۔آج پاکستان کے پاس روپیہ ہے نہ ڈالر۔روپے کی بے قدری اور نایابی کے ساتھ ڈالر کی آزاد یعنی بے لگام پرواز پاکستانی تجارتی ‘ معیشت اور معاشرت کے ساتھ قانون اور آئین کو تہہ و بالا کر دے گی مزید طرفہ تماشا یہ ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ نے معاشی و صنعتی اور سیاسی خود انحصاری کی پالیسی ترک کر دی لہٰذا پاکستان کی فی الحال معاشی ساکھ کا انحصار درآمدات اور برآمدات(import expoart)پر ہے جس میں امریکہ اور اس کی اتحادی طاقتوں بشمول بھارت کی اجارہ داری ہے۔پاکستان کے جملہ مسائل کا حل نیشنلزم میں ہے‘انٹرنیشلزم میں نہیں‘ پاکستان کو اپنی قومی ضروری ترجیحات کے مطابق خود مختار قومی پالیسی درکار ہے۔جو ہو کر رہے گی۔انشاء اللہ۔