مؤرخ قلم سنبھالے ہوئے دَم بخود ہے، پورا ملک ورطۂ حیرت میں ہے، یوں لگتا ہے ہر کوئی یہ محسوس کر رہا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کی کشمکش کا فیصلہ کن مرحلہ آن پہنچا ہے۔ جن لوگوں نے اس جنگ کا آغاز کیا تھا، انہیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ تنازعہ اسٹیبلشمنٹ اور عوام کے درمیان ایک معرکے میں بدل جائے گا۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ پاکستان کی سیاست و سیادت پر چھائی ہوئی اسٹیبلشمنٹ اپنی بقاء کی آخری جنگ لڑ رہی ہے۔ خان عبدالولی خان نے جب ذوالفقار علی بھٹو کی سول آمریت کے دوران لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسے میں اندھا دھند فائرنگ کے بعد لاشیں اُٹھائیں تو اسے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ہمیشہ کی طرح اسٹیبلشمنٹ، بھٹو اور اس کی پارٹی کو ریت کی بوری کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ لیکن اس کے فوراً بعد ہی جب عراق کے سفارت خانے سے اسلحہ کی برآمدگی، نواب اکبر بگٹی کا موچی دروازہ لاہور میں بلوچ رہنمائوں کے پاکستان سے علیحدگی والے لندن پلان کا انکشاف اور پھر بلوچستان میں آرمی ایکشن کے بعد جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی نیشنل عوامی پارٹی کو کالعدم قرار دے دیا اور اس سب کے باوجود پورے ملک میں سناّٹا چھایا رہا تو خان عبدالولی خان نے کہا تھا کہ ہم سب کمزور ہیں، کچھ نہیں کر پاتے، لیکن یاد رکھو اسٹیبلشمنٹ کی فیصلہ کن اور آخری لڑائی پنجاب میں ہو گی۔ خان عبدالولی خان تو ایک بہت بڑے سیاست دان تھے، ان کا تجزیہ مسلّم اور حقیقت کے قریب تھا مگر جس کسی نے بھی پاکستان کی سیاست میں کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو 1954ء میں یونیفارم میں وزیر دفاع بننے سے لے کر آج تک لمحہ بہ لمحہ بڑھتی ہوئی قوت اور سول اداروں کو پہلے براہِ راست اور پھر پسِ پردہ قابو میں رکھنے کی خواہش کا بغور مطالعہ کیا ہو، اس پر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اقتدار کی کشمکش کا آخری میدانِ جنگ پنجاب ہی ہو سکتا ہے۔ قوت اور طاقت ہمیشہ دو فاش غلطیاں کرواتی ہے۔ ایک یہ کہ ہم صرف وہی کچھ سننا اور جاننا چاہتے ہیں جو ہمیں اچھا لگتا ہے۔ یہ وہ خرابی ہے جس کی زد میں آیا ہوا حکمران اندھا اور بہرا ہو جاتا ہے۔ دوسری غلطی یہ ہوتی ہے کہ بار بار مختلف گروہوں پر قابو پانے اور انہیں کچلنے کے بعد غرور کی حد تک برسر اقتدار لوگوں میں ایک ایسا اعتماد پیدا ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں ریاستی طاقت کے بل بوتے پر سب کچھ کچل دینے کو ہر حکمران آسان سمجھنے لگتا ہے۔ پہلی غلطی اس وقت سرزد ہوئی جب پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے مقتدر اور پسِ چلمن قوتوں کی خواہشات کو دیکھتے ہوئے ایسی رپورٹیں بھجوانا شروع کیں کہ اگر عمران خان کو برطرف کیا گیا تو پاکستان تحریکِ انصاف تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گی اور عمران خان اپنی عدم مقبولیت کی وجہ سے منہ چھپاتا پھرے گا۔ ان رپورٹوں کے ساتھ ایک تجزیاتی فقرہ یہ بھی لکھ دیا جاتا تھا کہ لوگ اب نون لیگ خصوصاً شہباز شریف کی حکومت کو یاد کرتے ہیں۔ ایسی ہی رپورٹوں نے ان کارپردازانِ امورِ ریاست کو فروری کے آخر اور مارچ کے اوائل میں ہی عمران خان کو مکمل طور پر سیاست سے ’’آئوٹ‘‘ کرنے کا حوصلہ دیا اور نو اپریل کو یہ معرکہ سر کر دیا گیا۔ لیکن دس اپریل 2022ء نے بازی پلٹ کر رکھ دی۔ یہ پاکستان کے عوام کا ایک معجزاتی ردّعمل تھا۔ پورے ملک کی سڑکوں پر لوگ اُمڈ آئے۔ یہ ردّعمل ایک دو دن تک رہتا تو مقتدر حلقوں کی جان میں جان آ جاتی، مگر یہ تو دن بدن گریبانوں تک آ پہنچا۔ پہلی غلطی اس وجہ سے ہوئی تھی کہ حکمران نہ سچ سننا چاہتے ہیں اور نہ ہی سچ پڑھنا۔ خفیہ ایجنسیاں رپورٹیں دیتیں اور حکمرانوں کے پروردہ تجزیہ نگار اور کالم نگار اخبارات و رسائل میں دن بھر اس کا ڈھول پیٹتے۔ لیکن دوسری غلطی اس سے کہیں زیادہ بڑی اور تباہ کن ہے۔ ایسی غلطی اس سے پہلے صرف 1971ء کے مارچ کی 25 تاریخ کو ہوئی تھی، جب مقبول ترین سیاسی پارٹی عوامی لیگ جو انتخاب جیت کر پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ کے خواب دیکھ رہی تھی، اسے کالعدم قرار دے کر آرمی ایکشن کا آغاز کیا گیا۔ لیکن اس وقت مقتدر حلقوں کو مغربی پاکستان کی مقبول لیڈر شپ، ذوالفقار علی بھٹو کا ایک ایسا ساتھ ریت کی بوری کے طور پر میسر تھا، جس کے پیچھے چھپ کر آرمی ایکشن کا وار کیا گیا۔ بھٹو نے پوری قوم کو ذلت و رُسوائی اور شکست خوردگی کی دلدل سے اپنی مقبولیت کے بل بوتے پر نکالا اور اتنی بڑی شکست کے بعد بھی اسٹیبلشمنٹ کی عزت بحال کی۔ اس کے بعد بلوچستان، سوات اور قبائلی علاقہ جات کے آپریشنوں نے ان قوتوں کو ایک بار پھر اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیا ہے کہ شاید اب کی بار بھی ہم ملک کی مقبول ترین قیادت کو دیوار سے لگا سکتے ہیں۔ لیکن گزشتہ دس ماہ میں ہر وہ حربہ آزمایا گیا جو شاید اس سے پہلے کبھی نہیں آزمایا گیا تھا۔ 25 مئی 2022ء اس کا نکتہ آغاز تھا لیکن لوگوں کو اُٹھانے، ٹارچر کرنے، کریک ڈائون، آنسو گیس، لاٹھی چارج اور ربڑ بُلٹ وغیرہ نے قوم سے ان تمام حربوں کی جھجک دُور کر دی۔ اب لوگوں کو علم ہو چکا ہے کہ ٹارچر کیا ہوتا ہے، اور کس قدر ہوتا ہے، آنسو گیس، لاٹھی چارج اور دیگر ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے۔ دس ماہ نے یوں لگتا ہے ایک مرنجاں مرنج سیاسی پارٹی کے سیاسی کارکنان کو ایک سیسہ پلائی دیوار بنا دیا ہے۔ اب ایکشن بھی مشکل ہو چکا ہے اور قابو پانا تو اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ ایسے میں گزشتہ پچھہتر سال کی طرح آخری اُمید سپریم کورٹ تھی کہ 27 اکتوبر 1958ء کو پاکستان کے سب سے متنازعہ چیف جسٹس منیر نے طاقت کے بل بوتے پر اقتدار پر قبضہ کرنے کو جائز قرار دے کر ایک ایسی روایت کا آغاز کیا تھا جو مشرف کے 1999ء کے قبضے تک برقرار رہی۔ لیکن اس کے بعد جب مشرف کے 2009ء کے اس اقدام کو عدالت نے تحفظ فراہم نہ کیا تو یار لوگ ہنستے تھے کہ اس فیصلے کی حیثیت کیا ہے۔ لیکن اسی فیصلے کی وجہ تھی کہ اپنی تمام تر تدابیر اور تحفظ کے باوجود بھی مقتدر قوتیں مشرف کو پھانسی کے فیصلے سے نہ بچا سکیں اور اس نے دیارِ غیر میں جان دے دی۔ آج بھی شاید لوگ ہنستے ہوں گے کہ سپریم کورٹ کے ان تین ججوں کے فیصلے کی کیا اہمیت ہے۔ یہ تو کاغذ کے ٹکڑے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ صرف فیصلہ نہیں ہے بلکہ یہ پاکستانی قوم کا وہ فیصلہ کن مرحلہ ہے جو وقت کو بہت قریب لے آیا ہے اور اسی کی وجہ سے مقتدر قوتوں کے پائوں تلے سے قالین کھینچا جا چکا ہے۔ جس ملک میں رائے عامہ آپ کے خلاف ہو، اور عدالت کا فیصلہ بھی ہتھوڑے کی ضرب کی طرح برسے تو پھر کوئی قوت، کوئی طاقت ایسی نہیں رہتی جو اپنی خواہشات کے مطابق حالات کو قابو کر سکے۔ حالات ایسے بن جایا کرتے ہیں جس میں لوگ خود تاریخ بناتے ہیں اور مؤرخ تاریخ لکھتا ہے۔پاکستان آج ایک ایسے ہی موڑ پر آ پہنچا ہے جہاں کامیابی و کامرانی کی شاہراہ اور تباہی و بربادی کی کھائی ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ ایک ذرا سی لغزش اور ہم کھائی میں ایسا گریں گے کہ ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں یا پھر ہمارے قافلے کی رہبری ان ہاتھوں میں آ جائے گی جو ہمیں قعر مزلّت سے نکال لے جائیں گے۔ عوام کی آواز اور خلقِ خدا کا نقارہ پہلے ہی فیصلہ دے چکا ہے۔