میں اپنے زمانہ طالب علمی سے پانچ دہائیاں گزریںسعودی معاشرے کو نت نئی انگڑائیاں لیتا دیکھ رہا ہوں ۔شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے جب سعودی عرب کو واقعتاً تیل کی دولت کو اپنی سب سے منفعت بخش انڈسٹری بنایا بلکہ اسے بڑی ہوشیاری اور ذہانت سے ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔اس تبدیلی کے ساتھ خوشحالی اور حیرت انگیز ترقی کا دور شروع ہوا۔اس کے نتیجے میں سعودی عرب میں ارب پتیوں کی ایک نئی کلاس نے جنم لیا۔میں نے شاہ فیصل شہید کے دور میں وزیر پٹرولیم احمد ذکی یمانی جیسے جینئس کی زندگی کے متعلق ایک کتاب پڑھی۔جس میں اس بات کو دہرا تے ہیں کہ جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ کے کرم کی طالب ہوتی ہے تو وہ اس کو نوازنے کا فیصلہ کر لیتا ہے اور پھر معجزات ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ذکی یمانی کے یہ الفاظ مجھے ہمیشہ یہ سوچنے پر مجبور کرتے۔ کہ شاید ہم نے صدق دل سے اللہ تعالیٰ نے اس کی کرم نواز کے لئے دعا نہیں مانگی۔ یا پھر ہمارے منافقانہ اعمال بارگاہ الٰہی میں قبولیت کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ بنے رہے۔سعودی عرب میں ترقی کے چھ دہائیوں پر مشتمل اس سفر میں ان کی چار نسلیں جوان ہو گئیں یہ بزرگوں کے مقابلے میں لبرل اور روشن خیال نسل ہے۔لہٰذا جب سعودی عرب کے ہمسایوں نے چند میل کے فاصلے پر گُڑ دیکھا تو ان ریاستوں نے معاشی مکھیاں بننے کا فیصلہ کر لیا۔دبئی نے پہلا قدم اٹھایا اور پھر کیا تھا دبئی نے سعودی عرب کے سمایہ کاروں پر اپنے دروازے کھول دیے چنانچہ سعودی عرب کی دولت دبئی کے دروازے پر دستک دینے لگی۔ سعودی عرب میں اب ترقی خوشحالی اور آگہی کی ایک نئی تبدیلی انگڑائی لے رہی ہے۔سعودی عرب بین الاقوامی اعتبار سے ایک اہم کھلاڑی کے طور پر خود کو منوا رہا ہے عالمی منظر نامے میں نئی تبدیلیاں‘ صف بندیاں طاقت اور اقتصادی اعتبار سے ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی دوڑ نے امریکہ جیسی واحد سپر پاور کے لئے مختلف شعبوں میں متعدد چیلنج پیدا کر دیے ہیں۔سرپٹ اپنے اہداف کو پانے کی کوششوں میں چین‘ روس اور یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ بھارت اور دیگر ممالک نے بھی اپنے اپنے دائو پیج کھیلنے شروع کر دیے ہیں دوسری طرف پاکستان ہے جو اقتصادی اور معاشی اعتبار سے اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے۔اس کی کرنسی ریکارڈ رفتار سے تنزلی کا شکار ہے ۔ قرضوں کے بوجھ نے اس کے پورے اقتصادی ڈھانچے کو توڑ مروڑ کر رکھ دیا ہے۔بے روزگاری اور غیر یقینی کے بڑھتے ہوئے عذاب نے پاکستان کی 50فیصد آبادی کو غربت کے مہیب اندھیرے میں دھکیل دیا ہے۔پورا معاشرہ تقسیم در تقسیم کے بھیانک عمل سے نفرت کا تنور بن گیا ہے۔سیاسی پولرائزیشن اس درجے بڑھ گئی ہے کہ کوئی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کا روادار نہیں ہے آپ جس سے بات کریں وہ بددلی کا شکار نظر آتا ہے۔اپنے حالات سے حوصلہ ہارتے عوام ملک کے مستقبل کے حوالے سے مایوس دکھائی دے رہے ہیں کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم اپنے اندر سے ایک پاکستانی کی حیثیت سے فخر اور عزت کے احساس کو کھوتے جا رہے ہیں ۔جب بھی ملک سیاسی بحران کا شکار ہوا ہے حکومتیں بدانتظامی کا شکار ہو ئیں ۔ 9مئی کے واقعات نے منظر کو یکدم یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ہر کوئی گزرے ان پندرہ سولہ دنوں کے واقعات کو اپنے طور پر بیان کر رہا ہے لیکن یہ تو ہر کوئی مان رہا ہے کہ یہ شرمناک اور قابل مذمت واقعات کسی قیمت پر نہیں ہونے چاہیے تھے اور یہ کہ ان کے ذمہ داروں کو سزا ملنی چاہیے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ آگے بڑھنے کے لئے حالات خواہ جو بھی ہوں کوئی نہ کوئی راستہ ضرور تلاش کیا جائے۔9مئی سے قبل تحریک انصاف ایک ناقابل تسخیر پارٹی دکھائی دے رہی تھی لیکن حرارت کے ایک جھٹکے نے اسے بکھیر کر رکھ دیا ہے ۔ اپنے اندازوں کی غلطی پر عمران خان شاید پچھتا بھی رہے ہوں لیکن اس کا اقرار نہیں کر رہے معلومات اور تجربات کی روشنی میں انہیں یہ احساس بھی ضرور ہو گا کہ جن کی مدد سے وہ یہاں تک پہنچے ان سے زیادہ دہین بننے کی کوشش انہیں مہنگی پڑی ہے۔درحقیقت مجھے اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ عمران خان کے قومی اسمبلی سے باہر آنے اور صوبائی اسمبلیوں کو توڑنے کے فیصلوں کے پیچھے ان کی کیا حکمت تھی۔وہ شاید یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے اس فیصلے کے بعد اگر حکومت نے الیکشن نہ کرائے تو سپریم کورٹ کے ہاتھوں شہباز شریف بھی تنویر الیاس جیسے انجام سے دوچار ہو جائیں گے اور دو تہائی اکثریت سے اقتدار میں لوٹنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا ۔دوسری طرف پی ڈی ایم ہے جو بغیر تیاری کے میدان میں کود پڑی تھی پھر اس نے ایسی خوفناک حماقتیں کیں سب سے بڑی غلطی شہباز شریف کو وزیر اعظم بنایا تھا جو سچ مچ ن لیگ کا اثاثہ تھے اگر وہ پنجاب میں چلے جاتے تو صورتحال مختلف ہوتی اس طرح مسلم لیگ ن نے اپنا سب سے قیمتی مہرہ ضائع کر دیا۔حمزہ کو وزیر اعلیٰ بنانا دوسری حماقت تھی اس سے مقتدرہ ناراض ہو گئی اور 17جولائی 2022ء کے انتخابات میں کسی غیبی امداد کے نہ آنے سے سملم لیگ یہ جنگ بھی ہار گئی پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بنے اور عمران نے پنجاب میں بیٹھ کر پی ڈی ایم کی چولیں بند دیں۔پھر معاشی میدان میں مفتاح اور ڈار کی چپقلش نے ملک کی اقتصادیات کا جنازہ نکال دیا۔ اس سے مسلم لیگ کا بھرکس نکل گیا مریم نواز میدان میں آئیں انہوں نے عمران کو ٹف ٹائم بھی دیا لیکن پھر وہ منظر سے پیچھے ہٹ گئیں دوسری طرف عمران خان نئے نئے بیانیے گڑھنے میں ملکہ رکھتے ہیں حکومت کے پاس ان کو جواب دینے کے لئے کوئی موثر ہتھیار نہیں تھا۔انہوں نے نہ صرف حکومت سے لکیریں نکلوا دیں بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے منظر تخلیق کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ بھی کیا لیکن پھر 9مئی کو ان کے ساتھیوں نے پہلے سے طے شدہ محتاط منصوبے پر عمل کر کے اسے اپنے مرشد اور خود اپنے لئے نائن الیون بنا دیا۔لیکن ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عمران کتنی برق رفتاری سے پیچھے ہٹتے ہیں اپنی ساکھ پارٹی اور مقبولیت کو بچانے کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں اپنی غلطی کا اعتراف کر کے این آر او کے طالب ہوتے ہیں لیکن اس سارے قضیے میں آپ تمام اخبارات چھان ڈالیں ٹی وی چینلر کے تمام نیوز بلیٹن اور ٹاک شوز سن لیں۔سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر آنکھیں چھپکائے بغیر تصادم‘خبروں اور تبصروں کی بھر مار دیکھ لیں آپ کو کہیں بھی عام پاکستانی کی آنکھوں کی محرومیوں اور ہونٹوں پر مہنگائی کے شکوے نظر نہیں آتے کوئی نہیں بتا رہا کہ بے روزگاری نے نوجوانوں کی چمک کو ویرانی میں بدل دیا ہے اب ان میں حالات سے لڑنے کا حوصلہ نہیں رہا یہی وجہ ہے کہ اب دیوار پر لکھی تحریر پڑھنے کا وقت ہے اور دیوار پر لکھا ہے دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم ہیں کہ وہیں کھڑے ہیں۔بحران اور محرومی ہمارا ٹریڈ مارک بن گیا ہے اور اچھے دنوں کی باتیں اور یادیں ہمارے لئے اب خواب ہیں۔