یہ منظر دل اداس کر دینے والا تھا۔ راجن پورشہر کے قریب ہی واقع ایک دیہاتی علاقے میں محمد حسین کا خاندان سیلاب میں بہہ جانے والا اپنا گھر چھوڑ کر بند کے اوپر آن بیٹھا تھا۔ ایمر جنسی میں ایک بوڑھی ماں ،ایک بیوی ، تین چھوٹے بچے ،دو بکرے، ایک بیمار بکری اور چند خرگوش باہر نکال لانے میں کامیاب ہوا تھا۔ پانی سے گزر کر دوبارہ گھر کو گیا تو تین چارپائیاں ، زمین پر بچھانے کے کچھ کپڑے اور چند برتن بھی باہر نکال لایا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ جلانے کو خشک لکڑی اور پکانے کو خشک راشن موجود نہ تھا۔ جانوروں کو کھلانے کا چارہ بھی نہ تھا اور بکری تو آخری سانسیں لے رہی تھی۔ بند کے ایک جانب بپھرا ہوا نالہ مسلسل اپنی سطح بلند کر رہا تھا اور دوسری جانب تا حد نگاہ دیہاتی علاقے میں بھر جانے والا سیلابی پانی ۔اگرچہ وہ پہلے بھی بہت خوشحال زندگی نہیں گزار رہا تھا مگر رات بھر میں محمد حسین کی زندگی کے چیلنجز بدل چکے تھے۔ اس کی ذہنی کیفیت کا اندازہ اسلام آباد میں بیٹھا کوئی شخص ہر گز نہیں لگا سکتا۔ محمد حسین سے میرا پہلا سوال یہ تھا کہ جب کوہ سلیمان پر معمول سے زیادہ بارشیں ہو رہی تھیں اور رودکوہیوں میں اپنی سطح بلند کرنے والا بپھرا پانی پچاس کلو میٹر دور اس گائوں کا رخ کرنے پر آمادہ تھا تو وہ کیوں نہ محفوظ جگہ پر منتقل ہوا۔ جواب میں اس نے کہا کہ اس سیلاب کا رات دو بجے اسے تب پتہ چلا جب پانی اس کی چارپائی سے بلند ہوا ۔ رات کے اندھیرے میں کمر تک چڑھ آنے والے پانی سے گذر کر وہ بمشکل اپنے بچے اور چند جانور نکالنے میں کامیاب ہوا۔ میرا سوال تھا کہ کیا انہیں رودکوہیوں میں چڑھنے والے پانی کے خطرے سے خبردار نہیں کیا گیا تھا ۔ جواب ملا کہ ایسی کوئی اطلاع کسی جانب سے نہیں آئی تھی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جوں جوں دنیا ترقی کر رہی ہے ویسے ویسے پاکستان کا نظام پہلے سے بھی خراب ہوتا جا رہا ہے ۔دنیا آگے بڑھ رہی ہے ہم پیچھے کی جانب لوٹ رہے ہیں۔ ایک زمانے میں رودکوہیوں کا تحصیل دار اور داروغہ ہوا کرتا تھا۔ رودکوہیوں پر مانیٹرنگ کا ایک موثر نظام موجود تھا جو کوہ سلیمان سے اترنے والے معمول سے زیادہ پانی کی موجودگی پر ہنگامی حالت کا اعلان کرتا۔ رودکوہیوں کے ایک سرے سے یہ پیغام متعلقہ اضلاع کی انتظامیہ کو پہنچایا جاتا۔ انتظامیہ ہنگامی انتظامات کرتی، مساجد سے اعلان کراتی ، کمزور پشتوں کو مضبوط بناتی، لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے میں مدد کرتی اور یوں سیلاب کی تباہ کاریوں سے عوام کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتی۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ نظام کمزور ہوتا چلا گیا اور اب ان تمام علاقوں کے لوگ قدرتی آفات کے رحم و کرم پر ہیں ۔ اب حالت یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے مدد تو کیا کرنی ہے الٹا متاثرین پر پرچے کاٹ دیے جاتے ہیں۔فاضل پور میں چڑھتے سیلاب کے پیش نظر لوگ اکٹھے ہو گئے انہیں معلوم تھا کہ ایک جگہ سے بند کمزور ہے ، انہیں ڈر تھا کہ اگر یہاں سے بند ٹوٹا تو گھروں میں داخل ہو جائے گا، کھیت تو تباہ ہو ہی گئے ہیں گھر بھی بہہ جائیں گے۔ مقامی لوگوں نے کمزور پشتے کے مقام کا دورہ کرنے والے اسسٹنٹ کمشنر سے مطالبہ کیا کہ ایک کرین مہیا کی جائے اور اس بند کو مضبوط بنایا جائے ۔ اسسٹنٹ کمشنر نے مطالبہ نہ مانا تو لوگوں نے احتجاج کرنا شروع کر دیا۔ اے سی صاحب نے مطالبہ تو احتجاج کے بعد بھی نہ مانا الٹا مظاہر ین پر کار سرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج کرا دیا۔ ٹھیک ایک دن کے بعد بند ٹوٹ گیا اور سیلابی پانی گھروں میں داخل ہو گیا۔جب میں وہاں گیا تو پوری آبادی کا زمینی رابطہ منقطع ہو چکا تھا اور بند کے دوسری جانب کی فصلیں بھی تباہ ہو چکی تھیں۔ یعنی سیلاب میں گھر لٹا دینے والے متاثرین اب اے سی صاحب کا پرچہ بھی بھگت رہے ہیں۔ 1950 سے2020 تک پاکستان میں اٹھائیس بڑے سیلاب آئے ۔ان میں دریائوں میں آنے والے سیلاب بھی شامل ہیں اور بارشوں سے آنے والے سیلاب بھی۔ ان 28 سیلابوں میں تیرہ ہزار دو سو باسٹھ افراد جاں بحق ہوئے۔ فیڈرل فلڈ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ان سیلابوں سے پاکستان کو 38ارب ڈالر کا براہ راست نقصان ہواجبکہ ضائع ہونے والے پانی کی قیمت اس کے سوا ہے۔ اس میں سے آدھا نقصان 2010سے 2015 کے درمیان ہوا جو تقریبا 19 ارب ڈالر کا تھا۔ 1950 سے 2020 تک ایک لاکھ ستانوے ہزار دو سو تہتر گائوں سیلاب سے متاثر ہو چکے ہیں۔2022 میں آنے والا حالیہ سیلاب 2010 اور 2015 کے درمیان آنے والے سیلابوں سے تین گنا بڑا ہے۔سوال یہ ہے کہ ہم نے اس سے کیا سیکھا۔ میں تین ہفتے پہلے جنوبی پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گیا تھا جب بارش کا پہلا ہی سپیل آیا تھا۔تونسہ، جام پور، فاضل پور، راجن پور اور روجھان کے علاقوں کی تباہی دیکھ کر لوگوں کی حالت زار پر ترس آتا تھا۔جانور بہہ گئے ، گھر ٹوٹ گئے ، کھانے پینے کا سامان سیلاب کے پانی میں ڈوب گیا۔ لوگ بے گھر ہو کر سڑک پر آن بیٹھے تھے جن میں سے زیادہ تر کے پاس کوئی امداد نہ پہنچی تھی۔ چھوٹے کاشتکار کپاس کی تیار فصل برباد ہو جانے پر رو رہے تھے۔ اب اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ بارشوں کے مزید دواسپیل تباہ کن ثابت ہوئے ہیں ۔ تین ہفتے پہلے تو حالات پھر بہتر تھے اب تو ہر طرف تباہی ہی تباہی ہے ۔ ایسے میں طاقت ور لوگ اور ظلم ڈھاتے ہیں ، اپنی زمینیں اور فصلیں بچانے کی خاطرمن چاہی جگہ سے بند توڑ کر سیلاب کا رخ موڑ دیتے ہیں ۔ غریب کا کیا ہے وہ تو پیدا ہی تباہ ہونے کے لیے ہوا ہے۔ اس مرتبہ پاکستان میں سیلاب ایک ایسے موقع پر آیا ہے جب سیاسی افرا تفری اپنے عروج پر ہے ۔ جلسے ، ریلیاں، گرفتاریاں ، مقدمے ،بیان بازیاں اور الزامات۔ سبھی کی توجہ اسی جانب لگی ہے۔ نہ حکومت پوری طرح حرکت میں آئی ہے نہ عوام کا جذبہ خدمت خلق جاگا ہے ۔ بے گھر لوگوں کو خوراک کی ضرورت ہے، خیموں کی ضرورت ہے، اناج کی ضرورت ہے، جلدی بیماری سے بچائو کی ادویات بھی درکار ہیں۔ سیاسی جماعتیں تو انقلاب لانے میں مصروف ہیں ، عوام ہی جذبہ دکھائیں تو متاثرین کی کچھ داد رسی ہو سکتی ہے۔