محرم الحرام کے گداز لمحے رخصت ہو رہے ہیں، لیکن کربلا کے میدان میں حق اور حقانیت کے جو عنوان نواسۂ رسولؐنے آراستہ کردیئے ،و ہ تاریخ سے کبھی محونہ ہوسکیں گے ۔ علم و حکمت اور طریقت و معرفت کے سَوتے ان کے دَر سے کل بھی پھوٹتے تھے اور آئندہ بھی رواں دواں ہوں گے ۔ پیش آمدہ ایام--- مظہرِ العلوم الخفیہ و الجلیہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے تذکرہ سے مزین و مستنیر ہوں گے ۔جن کا قلم تذکارِ اہل ِ بیت میں ، محبت و عقیدت کے نئے دَر وَا کرتا جاتا اور صدق وصفا کے زاویے اور داعیئے عطا کرتا آگے بڑھتاہے۔ آپؒ اہلِ بیت نبوّت سے اپنے والھا نہ عشق اور محبت کا اظہار فرماتے ہوئے لکھتے ہیں ۔’’ رسول اللہ ؐ کے اہلِ بیت ؓ تقدس ا زلی میںمخصوص تھے، ہر ایک کو تصوّف میں کمال حاصل تھا اور سب اہل تصوّف کے سردار تھے ۔‘‘آپؒ اپنی تصنیف لطیف میں مزید فرماتے ہیں۔‘‘ ابو الحسن علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ برادرِ مصطفی ؐ، غواصِ بحر بلا ، سوختۂ آتش ولا اور تمام اولیأ و اصفیأ کے پیشوا ہیں، آپؒ کو تصوّف میں شان عظیم اور مرتبہ ٔ بلند حاصل تھا ، اصول حقیقت میں اس قدر باریک بیں اور نکتہ رس تھے کہ حضرت جنیدؒ نے ان کی نسبت کہا :’’اصول (علم تصوّف) اور بلا کشی (معاملت) میں ہمارے پیر علی المرتضی ؓ ہیں‘‘۔’’اہلِ تصوّف حقائق عبارات ، دقائق اشارات ، تجرید دنیا و آخرت اور نظارۂ تقدیر حق کے معاملے میں حضرت علی ؓ کی پیروی کرتے ہیں‘‘۔حضرت داتاگنج بخشؒ مزید آگے بڑھتے ہیں:’’ امام ِ حسن ؓ جگر بندِ مصطفیؐ، ریحانِ دل مرتضی ؓ اور نورِچشم زہر اؓ ہیں ، آپ ؒ طریقت میں گہری نظر رکھتے تھے ، اس موضوع پر آپؒ کے دقیق نکات بکثرت ہیں‘‘۔سلاسلِ طریقت میں خواجہ حسن بصری ؒ کا مرتبہ محتاج بیان نہیں، جب فرقہ قدریہ نے زورپکڑا اور مسئلہ تقدیر میں لوگ الجھنے لگے تو خواجہ حسن بصری ؒ نے اما م حسنؓ کی خدمت میں عریضہ لکھا ، اس مکتوب گرامی کو صرف یہ بات ظاہر کرنے کے لیے نقل کر رہے ہیں کہ قرونِ خیر میں بلند مرتب ہستیوں کی نگاہوں میں اہلِ بیت کا کیا مقام و مرتبہ تھا ؟اور اہل ِ علم کس طرح اپنی علمی اور روحانی پریشانیوں میں ائمہ اہل بیت ؒ سے مراجعت کرتے تھے ؟(اصل مکتوب عربی ہے ) ترجمہ --- بسم اللہ الرحمن الرحیم فرزندِرسول اللہ ! قرارنگاہ بتول ! ازاں بعد (اُمّت میں) آپ گروہِ بنی ہاشم کی وہی حیثیت ہے ،جو گہرے سمندر میں رواں کشتیوں اور گھٹا ٹوپ اندھیروں میں چراغوں کی ہوتی ہے، آ پ لوگ راہِ ہدایت کے نشانات ہیں اور ایسے رہنما ہیں کہ جو ان کی پیروی کرے ، نجات پا جائے ، آ پ لوگ کشتی نوؑح کی مانند ہیں ،جو اہلِِ ایمان کا ٹھکانہ ہے اور اس میں سوار ہونے والے نجات پاتے ہیں۔ فرزندِ رسول اللہ ! مسئلہ تقدیر کے بارے میں ہم حیران ہیں اور جبر و اختیار کے حوالے سے ہمارے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے، تو اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اپنی پختہ رائے سے ہمیں آگاہ فرمایئے ۔ آپ لوگ(آیت قرآنی)"ذریۃً بعضہا من بعض"(ذریت انبیأہے کہ ایک دوسرے کونسل سے ہے )کا مصداق ہیں، آپ کے پاس اللہ کا عطا فرمودہ علم ہے ، اللہ آپ(کی برگزیدگی اور پاکیزگی )کا گواہ ہے اور آپ لوگوں کے سامنے اللہ (کی عظمت و کبریائی) کے گواہ ہو --- والسلام علیک‘‘ ہمارے تمام سلاسلِ طریقت، آئمہ اہلِ بیت ہی سے فیض یافتہ ہیں، اسی طرح اہلِ السنتہ والجماعہ کے آئمہ اربعہ انہی پُرنور ہستیوں سے اکتساب کے حامل ہیں ، امام ِ اعظم ابو حنفیہؒ تو ایک مدت تک استفادہ کی غرض سے آئمہ اہلِ بیت کی سرتاج حضرت امام محمد الباقرؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے ، بلکہ آپ ؒکے گھرانے کو تو مشر ف بہ اسلام ہونے کا اعزاز ہی حضرت علی المرتضیٰؓ کی خاص صحبت سے حاصل ہو ا، امام صاحب کا اسمِ گرامی نعمان بن ثابت تھا ۔ آپؒ کی ولادت، عراق کے دارالحکومت کوفہ میں ، معتبر روایات کے مطابق 80ھ بمطابق699ء میں ہوئی ۔ آپ ؒ کا خاندان ابتداً کابل میں آباد تھا ، ان کے دادا، جن کا نام زُوطیٰ یا زَوْ طیٰ معروف ہے ، ایک جنگ میں گرفتار ہو کر کوفہ آئے ، اور پھر یہیں کے ہو کر رہ ہوگئے ،حضرت علی المرتضیٰؓ کی محبت نے انہیں ممتاز اور معتبر بنادیا ، بلکہ علامہ شبلی نعمانی نے لکھا کہ ـ:’’یہ حضرت علی ؓ کی خلافت کا زمانہ تھا اور شہر کوفہ دارالخلافہ ہونے کا شرف رکھتا تھا، اس تعلق سے زوطیؒ نے کوفہ کو پسند کیا اور وہیں سکونت اختیار کی ۔ کبھی کبھی جناب امیر ؓ کے دربار میں حاضر ہوتے اور خلاصِ عقیدت کے آداب بجا لاتے ۔ ایک بارنوروز کے دن ، جو کہ پارسیوں کی عید کا دن ہے ، فالودہ نذر کے طور پر بھیجا ، حضرتؓ نے ارشاد فرمایا ۔’’ نوروز ناکل یوم ‘‘ یعنی’’ ہمارے یہاں ہر روز نوروز ہے‘‘۔’ثابت‘امام ابو حنفیہؒ کے پدر بذرگوار کوفہ ہی میں پیدا ہوئے، زوطیؒ نے نیک فال لڑکے کو حضرت علی ؓ کی خدمت میں حاضر کیا ، آپؓ نے بزرگانہ شفقت فرمائی اور ان کے اور ان کی اولاد کے حق میں دُعائے خیر کی ۔ امام ابو حنفیہ ؒ کے پوتے حضرت اسماعیل ؒ فرماتے ہیں:’’ ہم لوگ نسل فارس سے ہیں اور کبھی کسی کی غلامی میں نہیں آئے،(ہمارے پردادا)ثابتؒ بچپن میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے،انہو ں نے ان کے خاندان کے حق میں دُعا ئے خیر کی تھی ، ہمیں اُمید ہے کہ وہ دُعا بے اثر نہیں رہی‘‘۔امام ابو حنفیہ ؒ ایک مدت تک استفادہ کی غرض سے امام باقرؓ کی خدمت میںحاضر رہے اور فقہ و حدیث کے متعلق بہت سی نادر باتیں حاصل کیں ۔ امام ابو حنفیہ ؒ کی معلومات کا بڑا ذخیرہ حضرت ممدوحؓ کا فیضِ صحبت تھا ۔ امام صاحب نے ان کے فرزندِ رشید اما م جعفر صادق ؓ کے فیض صحبت سے بھی بہت کچھ فائدہ اُٹھایا ، جس کا ذکر عموماً تاریخوں میں پایا جاتا ہے ۔ امام احمد بن حنبلؒ نے اپنے مسند میں اہل بیتؓ کے فضائل و مناقب کی روایات جس کثرت سے ذِکر کی ہیں، اس سے ان کی اہلِ بیت ؓ سے گہری عقیدت و محبت کا اندازہ ہوتا ہے ۔’’خطیب کا بیان ہے کہ اما م احمد بن حنبل ؒ کے پاس جب کوئی سیّد یا قریشی آتا ، بوڑھا ہوتا یا جوان ، امام ؒ ازراہ اکرام اس کے پیچھے پیچھے چلتے تھے ‘‘۔ فتنۂ رفض و نصب کے مقابلے میں امام شافعی ؒ اہل السنتہ والجماعۃ کے بے پاک ترجمان تھے ، فرماتے ہیں: "اذانحن فضّلنا علیاً فاننا روافض بالتفضیل عند ذوی الجھل وفضل ابی بکر اذا ماذکرتہ رمیت بنصب عند ذکری اللفضل فلازلت ذارفض و نصب کلا ہما بحبّھما حتی أ و سدی فی الرمل" ترجمہـ:" جب ہم علی ؓ کے فضائل بیان کریں تو اس بیان فضیلت کی وجہ سے جہلا کے یہاں ہم روافض قرار پاتے ہیں، جب میں ابو بکر ؓ کی فضیلت ذکر کرتا ہوں تو اس تذکرہ ٔ فضل کی وجہ سے مجھ پر ناصبی کی تہمت لگائی جاتی ہے، ان دونوں ؓ کی محبت میں ، مَیں اسی طرح راضی اور ناصبی رہوں گا، یہاں تک کہ ریتلی قبر میں رکھ دیا جائوں گاـ۔