113دن بیت گئے کہ مقبوضہ کشمیر خطرناک انسانی بحران کاشکارہے اورخزاں رسیدہ خاک افتادہ پتوں کی مانندمثلے جارہے ہیں۔وہ مسلسل اوربدستوردست ِ ستم کیش اوردست تظلم کے شکارہیں ۔80 لاکھ سے زائد انسانوں کے انفرادی، اجتماعی، معاشرتی، مذہبی اور سیاسی حقوق سلب کئے جاچکے ہیں۔کڑے محاصرے کے باعث پوری وادی کشمیر ایک پنجرے کے مانند ہے جہاں جانورنہیں بلکہ انسان بندہیں ۔دنیا میں ایسا کوئی شیردل سامنے نہیں آرہا جو کشمیریوں کے دردکادرماں ثابت ہو سکے۔ ایسا کوئی ہاتھ بلندنہیںہورہا جو اس ظلم کو روک سکے۔ لیکن ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کشمیریوں کی نفرت اور انتقام کی آگ سے بھارت کبھی نہیں بچ پائے گا۔ بالآخر مظلوم کشمیری سرخرو ہونگے اور بھارت کشمیر میں شکست سے دوچار ہوگا۔ بھارت نے اسلامیان کشمیر کے خلاف ظلم و بربریت اور جبر و قہر کی جو پالیسی اپنائی ہے یہ کھلی سفاکانہ ریاستی دہشت گردی ہے۔ بندوق کے زور پر نہتے کشمیریوں کو غلام بنائے رکھنے کے لئے مودی ،ہندو دہشت گرد حکومت جو وحشیانہ اقدامات کررہی ہے اس کی مثال مطلق العنان ڈوگرہ ہری سنگھ کے دورظلمت میں بھی نہیں ملتی۔5اگست2019 ء کوبھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی بھارتی آئین میں دی گئی خصوصی حیثیت ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کو (UNION TERRITORIES)میں تقسیم کردیا ۔ پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہے دونوں کو فوج کے کنٹرول میں رکھاجائے گااورپھرحکمران جماعت بی جے پی اپنے طوراوراپوزیشن اپنے طورپراسے اپنی سیاست کے لیے استعمال کرتے رہیں گی۔ یونین ٹیریٹری یادہلی کے زیرانتظام رکھنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ جہاں تک ممکن ہوکشمیرکی اسلامی شناخت ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس جبری اقدام کا مقصدخطے کے مسلمانوں کی کھلی توہین کرنا ہے جو ایک انتہائی شرمناک فعل ہے۔5اگست کواٹھائے گئے اقدام کے بعدلگاتارمقبوضہ کشمیرکی ہیت ترکیبی میں تبدیلیاں کی جارہی ہیں اورمقبوضہ وادی کی شاہرائوںاور محکموں کے نام تبدیل کرنا شروع کردیے گئے ہیں۔ سری نگرکوشیونگر کانام دیاجارہاہے،چنانی ناشری ٹنل کا نیا نام شیاما پرساد مکھرجی رکھ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سری نگرکے کرکٹ اسٹیڈیم کو اب سردار ولبھ بھائی پٹیل اسٹیڈیم کا نام دیاگیاہے جبکہ محکمہ پانی کا نام جل شکتی محکمہ کردیا گیاہے ۔ مقبوضہ جموںوکشمیرمیں مسلمانوں کی وقف جائیداد،کئی ٹرسٹی ادارے اورانجمن اوقاف جامع مسجدسمیت کئی اوقاف ہیں جسے کشمیری مسلمان بطور پرزیڈنٹ، متولی یا مجاورسرپرستی کررہے ہیں لیکن ان تمام مسلم ٹرسٹوں اوراوقافوںپربراہ راست دہلی کی گرفت ہوگی اوراس کے پرزیڈنٹ ، متولی اور مجاور اوربھارت کے اراکین پارلیمان میں سے ہوں گے۔خیال رہے کہ اس وقت کشمیرکے مسلم ٹرسٹوں اوراوقافوں کے پاس لاکھوں کنال اراضی، اربوں روپے مالیت کے شاپنگ مال، ہزاروںسکول ،کئی کالجزاور تقریباَ50کلو سونا بطورپراپرٹی موجودہے۔ کشمیریوں کی اس قومی امانت کے ساتھ کیساکھلواڑ ہوگا۔ٹریٹری یادہلی کے زیرانتظام رکھنے کے بعدمسلمانوں کے اس اثاثے کے ساتھ کیا ہو گا وہ محتاج وضاحت نہیں۔ بنظرغائردیکھاجائے توصاف دکھائی دے رہاہے کہ کشمیر سے متعلق بھارت کے ایسے مذموم فیصلوں کا سٹریٹیجک، ٹیکنیکل یا آئینی پہلوئوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ صرف اورصرف ایک نظریاتی پوزیشن ہے اوریہ ہندو راشٹر سے جڑی ہوئی ہے جس کا مقصدخطے میں جموں وکشمیر مسلم اکثریت کو بے اختیار کرنا ہے اور اسے ایک علامت کے طور پر پیش کرنا ہے۔ بھارت کشمیرمیں مسلسل جرائم کامرتکب ہورہاہے اوراس کی جارحیت کا سلسلہ بدستور جاری ہے ۔جھوٹے مقدمات بناکر قابض فوج نے حریت پسندان کشمیر کی جائیدادیں ضبط کرنے کاسلسلہ شروع کیا ہے۔ قابض بھارتی حکومت کے شٹ ڈائون سے مقبوضہ کشمیر میں تجارتی سرگرمیاں بدحالی کا شکار ہیں۔مقبوضہ کشمیر کی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری جومقبوضہ کشمیرکے تاجروں کی ایک اہم تجارتی تنظیم ہے کاکہناہے کہ5 اگست 2019ء سے جاری جبری پابندیوں کے باعث اب تک وادی میں 1ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے، اس وقت جب یہ سطوررقم کررہاہوں تومقبوضہ وادی کشمیرمیں لاک ڈائون برقرار ہے۔ 14نومبرکویوم اطفال تھااور16نومبرکو یوم صحافت ،اس حوالے سے عالمی سطح پر مختلف تقاریب اور ریلیوں کا اہتمام کیا گیا لیکن مقبوضہ کشمیر میں ان دونوں خاص دنوں پر کوئی تقریب منعقد نہیں کی گئی۔ 14نومبر کو عالمی سطح پر یوم اطفال منایا گیا اور حقوق اطفال سے متعلق مختلف پروگراموں، تقاریب، سیمیناروں اور ریلیوں کا اہتمام کیا گیا۔ لیکن جموں و کشمیر میں یوم اطفال پر نہ تو کوئی تقریب ہی منعقد ہو سکی اور نہ ہی کسی پروگرام کا اہتمام ہی کیا گیا۔ کربناک حالات کے سبب عام لوگوں کے ساتھ ساتھ کشمیر میں بچے بھی بہت زیادہ متاثر ہو چکے ہیں۔بچوں کی تعلیم کے علاوہ ان کی دیگر سرگرمیوں پر بھی برا اثر پڑا ہے ۔ کرفیو، بندش، ہڑتال اور مار دھاڑ کے واقعات رونما ہونے سے یہاں بچوں کے اذہان پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔وہیں غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر مالی مشکلات سے دوچار کنبوں میں زیر پرورش بچے اپنے والدین کو کے ساتھ ہاتھ بٹانے کے لئے مختلف کاموں میں بھی لگ گئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں کشمیر میں بچوں کی مزدوری کا رجحان کافی حد تک بڑھ چکا ہے اور ان حالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے یوم اطفال منانے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران قابض بھارتی فوج نے مسلسل جارحیت کاارتکاب کرتے ہوئے سینکڑوں بچوں کو شہید کیا جبکہ ایک لاکھ سے زائد یتیم ہوگئے۔پیلٹ گن کی فائرنگ سے اسکول جانے والے متعدد بچے زخمی ہوئے۔واضح رہے کہ بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہریوں کے قتل سے ایک لاکھ 7ہزار780بچے یتیم ہوئے۔جبکہ کشمیر میں راستوں کی بندش حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کوبھی شدید متاثر کر رہی ہے۔