بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی۔یہ مصرع کالم کی پہلی سطر میں لکھ دیا ہے تاکہ خبر ہو کہ ہم کس ماحول میں کیا بات کر رہے ہیں۔تحریک انصاف سے بات شروع کر لیتے ہیں۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز سے اسٹیبلشمنٹ کو شکایات رہیں۔کبھی ایک کو دوسرے کے خلاف استعمال کیا‘ کبھی دوسری نے پہلی کے خلاف محاذ کھولا۔کبھی بی بی بری بنی‘ کبھی بابو پر لعن طعن ہوئی۔ 2006ء میں میثاق جمہوریت ہوا۔یہ دونوں لڑنے والوں کے مابین معاہدہ تھا۔پابندی بہرحال ایک نے یہ کہہ کر نہ کی کہ معاہدہ کوئی حدیث تو نہیں‘ دوسرے نے کالا کوٹ پہنا اور عدالت میں گیلانی حکومت کے خلاف دخواست عدالت میں دائر کر دی۔ میثاق جمہوریت کا دائرہ باقی جماعتوں تک پھیلتا اور پھر دونوں بڑی عمر کی جماعتیں اس کا پاس رکھتیں تو جمہوریت نشو و نما پاتی۔جمہوریت اس کے بعد کئی بار منہ کے بل گری تو ذمہ دار یہی دو جماعتیں ہیں۔ عام آدمی کی جگہ دو خاندان خوشحال ہوئے تو یہی جماعتیں ذمہ دار۔ تحریک انصاف کی اٹھان میں اس طبقے نے بنیادی کردار ادا کیا جو تبدیلی لایا کرتا ہے‘ متوسط اور سیلف میڈ لوگوں نے عمران خان کو مضبوط کیا۔عمران خان کو بے پناہ مقبولیت ملی۔یہ مقبولیت اب بھی برقرار ہے جب ان کے لوگ پریس کانفرنس کر کے سیاست چھوڑنے کا اعلان کر رہے ہیں۔تبدیلی کی امید مایوسی میں بدل گئی ہے جس پر 13ستارے جشن منا رہے ہیں۔پی ڈی ایم کی مراد بر آئی ہے کہ تحریک انصاف کی شکل میں متوسط طبقے نے جو حکمران ایلیٹ کو چیلنج کیا تھا وہ معدوم ہو رہا ہے۔اس میں غلطی کس کی تھی؟ پہلی ذمہ داری عمران خان پر آتی ہے۔انہوں نے ہمیشہ اپنی جماعت کی تنظیم سازی سے اغماض برتا۔ ایک بار پارٹی الیکشن کرائے‘ کسی کا مشورہ نہ مانا اور یہ الیکشن پارٹی میں اختلاف اور دھڑے بندی کا باعث بن گئے۔ پارٹی فنڈز کے حسابات صاف نہ رکھے گئے۔ممکن ہے بدعنوانی نہ ہوئی ہو لیکن کچھ ضابطوں کو نظر انداز کرنا انہیں الیکشن کمیشن میں طویل مقدمے میں پھنسا گیا۔عمران خان کو کچھ خیر خواہوں نے متعدد بار مشورہ دیا کہ احتساب کے متنازع معاملے کو چھوڑ کر وہ اپنی توجہ ملکی مسائل کے حل پر صرف کریں۔انہیں بتایا جاتا رہا کہ پی ٹی آئی کے حامیوں کی تعداد بھلے 80فیصد ووٹروں تک پہنچ چکی ہے لیکن پارٹی کی نچلی سطح پر تنظیم نہ ہونے کے باعث اسے دقت کا سامنا ہے۔عمران خان نے یہ مشورے نہ مانے۔ ان کے قریبی احباب میں چند آسودہ حال خاندانوں کے نوجوان تھے‘ کوئی شاعر‘ ادیب اور ثقافتی شخصیت ان کے دور میں اعلیٰ حکومتی منصب پر نہ آ سکی۔ انہوں نے کھیلوں کی حالت بہتر بنانے پر توجہ نہ دی۔ان کے پورے دور میں صحت کارڈ‘ احساس کفالت پروگرام‘ پناہ گاہوں اور اقوام متحدہ میں کی گئی تقاریر کے سوا کچھ نہیں تھا۔ لوگ پھر بھی ان کو چاہتے ہیں۔لیکن کیا پی ٹی آئی کو مستقبل قریب میں دوسرا موقع ملے گا ؟ اس بات کی کیا ضمانت کہ وہ جیت گئے تو پنجاب ایک بار پھر کسی عثمان بزدار کے حوالے نہیں کریں گے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ عمران خان اپنے کارکنوں کو سیاست اور ریاست سے ٹکرائو کے درمیان فرق نہ سمجھا سکے۔ ایسے وقت میں جب تحریک انصاف اور اس کے سربراہ مشکل میں ہیں۔ یہ باتیں یاد کرانا مجھے اچھا نہیں لگ رہا لیکن امکانات زندہ رہتے ہیں اس لئے مشکل وقت میں غلطیوں کا رجسٹر ضرور لکھنا چاہیے تاکہ آئندہ کی اصلاح ہو سکے۔ نو مئی کے واقعات کو صرف ایک پہلو سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ پاکستان میں ایم کیو ایم کے بعد تحریک انصاف نے مڈل کلاس کو مضبوط کیا۔ایم کیو ایم کے بعد پی ٹی آئی کا حال بھی افسوسناک ہے۔اس معاملے کو سماجی سائنس سے متعلق لوگوں کی توجہ ملنی چاہیے۔ نوآبادیاتی ہندوستان میں مسلم متوسط طبقہ زیادہ تر ان خاندانوں پر مشتمل تھا جو برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے ملازم تھے۔ یہ لوگ نوآبادیاتی ہندوستان میں نوآبادیاتی آقاؤں اور عام ہندوستانیوں کے درمیان کڑی تھے۔اگست 1947 میں برطانوی ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ۔ بھارت اور پاکستان۔ آزاد پاکستان کے ابتدائی دنوں میں، ریاستی اداروں میں تنخواہ داروں کو ایک اہم مقام حاصل تھا کیونکہ وہ نئی ریاست کی تعمیر کے ذمہ دار تھے۔ متوسط طبقے نے بیوروکریٹک رابطوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے طبقے کو نئی ریاست کی تعمیر کے لیے کام کرنے کی ترغیب دی۔ کمیونٹی کے مختلف گروپوں کو کامیابی کے ساتھ متحرک کیا تاکہ اس کے مقصد میں شامل ہوں۔ایوب خان کی آمریت کے دوران متوسط طبقے نے کردار ادا کیا۔ جمہوریت 1958 میں منہدم ہو گئی تھی، ایوب نے پاکستانی معاشرے کو بڑے پیمانے پر متحرک ہونے سے پہلے ہی غیر سیاسی کر دیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی مساوات، انصاف اور جمہوری طرز حکمرانی کے لیے ان کے عزم نے انہیں ابھرتے ہوئے متوسط طبقے کی حمایت فراہم کی، خاص طور پر نچلے متوسط یا متوسط طبقے کی جو عالمی سوشلسٹ تحریکوں سے متاثر تھے۔ اس گروپ نے ان کے ترقی پسند آئین، تعلیمی اداروں کی تعمیر اور پاکستان کی سماجی اور اقتصادی ترقی کی بنیاد فراہم کرنے والے ایجنڈے کی حمایت کی۔ نئے متوسط طبقے کے کچھ حصے اپنی زیادہ مسلم شناخت ظاہر کرتے ہیں ۔یہ لوگ زیادہ حقوق مانگ رہے ہیں۔نیا متوسط طبقہ ترقی کر رہا ہے کیونکہ یہ باہر کی دنیا کے ساتھ بات چیت کے لیے سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کرتا ہے۔ یہ احتجاج کو ڈیجیٹل طور پرنمایاں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ،اس صلاحیت نے اسے حکومتوں کو گرانے کی طاقت فراہم کی ہے۔پی ڈی ایم کا مقابلہ اس مڈل کلاس سے ہے جو اب نہتی نہیں رہی ۔حکومت اس لڑائی کو بے شک پی ٹی آئی سے لڑائی کی شکل دے کر جیتنے کا تاثر دے رہی ہے، مڈل کلاس کسی دوسرے چہرے کے ساتھ ابھر آئے گی،وہ عشروں میں حاصل کی گئی طاقت سے دست بردار نہیں ہو گی۔