کتنی ہی خامیاںہوں اور کتنی ہی غلطیاں اس نے کی ہوں ،حکمت یار مردِ آزاد ہے ۔ رحمتہ اللعالمینؐ کی امت کو وہ آزاد دیکھنا چاہتا ہے۔ یہی اس کا جرم ہے ۔ اسی لیے مغرب اور مغرب سے متاثر دانشوروں کا ہدف رہتا ہے ۔ خلوت میسر آئی تو پہلا سوال یہ کیا: آپ کی صحت اچھی ہے ؟ جواب ملا : ہاں ، الحمد للہ ۔ پھر وہ میری طرف مڑے اور کہا : آپ کی صحت کیسی ہے ؟ عرض کیا: اللہ کا شکر ہے ، ٹھیک ہوں ۔ بشاشت سے حکمت یار میری طر ف دیکھتے رہے اور بولے : ہاں خوب اچھی لگ رہی ہے ۔ کچھ دیر پہلے امیرِ جماعت اسلامی سراج الحق، لیاقت بلوچ، امیر العظیم، پروفیسر ابراہیم اور جماعتِ اسلامی کے دوسرے زعما کے ساتھ ان کی دو گھنٹے پر پھیلی ملاقات ہوئی۔ اختتام پر آمنا سامنا ہوا تو گلے لگاتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ اتنے برس بعد ‘‘۔ لہجے میں ایک ہلکی سی اداسی تھی مگر رنج، ملال اور شکست نہیں ۔ وقت کم تھا ۔ ربع صدی بیت گئی تھی ۔ کم کم ، کبھی کبھی نام و پیام ہوتا رہا ۔ افغانستان کے جنگلوں ، پہاڑوں یا شہروں میں جب کبھی میرا نام لے کر کسی نے ان سے ملنا چاہا، انہوں نے اس کا خیر مقدم کیا۔ جتنی تیزی سے ممکن ہو سکا ، بیتے برسوں کے اہم واقعات کے بارے میں انہیں بتایا ، جو ان سے متعلق تھے ۔ عمران خاں سمیت مختلف اہم پاکستانی شخصیات سے ان کے بارے میں جو ضروری گفتگو ہوتی رہی ، اس سے آگاہ کیا ۔ کیا فلاں لوگوں نے ان سے رابطہ کیا تھا ؟ انجینئر صاحب سے پوچھا : 71سالہ آدمی کی آنکھوں میں چمک کچھ اور بڑھ گئی اورا س نے اثبات میں سر ہلایا اور ایک اہم آدمی کا نام لیا ۔ جماعتِ اسلامی کے رہنما میاں اسلم نے بتایا کہ پارٹی کی قیادت سے گلبدین حکمت یار کی ملاقات میں اخبار نویس مدعو نہیں ۔ ’’میں اخبار نویس نہیں ہوں ‘‘ ان سے عرض کیا ،حکمت یار کے ساتھ 39برس کے ذاتی مراسم ہیں ۔ ان کے نائب اور عزیز ڈاکٹر غیرت بہیر نے مجھے دعوت دی ہے ۔ احتیاطاً رابطہ کار عطاء الرحمٰن اور سیکرٹری جنرل امیر العظیم سے بھی بات کی ۔ امیر العظیم کھلے ذہن کے خوش باش آدمی ہیں ۔ ’’ضرور، ضرور ‘‘ انہوں نے کہا ’’وہیں آپ سے ملاقات ہو گی ‘‘ اس سویر میاں اسلم کی رہائش گاہ پر زیرِ زمین وسیع و عریض ہال میں ، جو تقریبات کے لیے تعمیر ہوا ہے ، گلبدین نے چونکا دینے والا ایک انکشاف کیا ۔ یہ کہ ایرانی حکومت ان کے قتل کی آرزومند تھی ، انکل سام کے ہاتھوں ۔ اس سلسلے میں انہوں نے طالبان کے ایک لیڈر کا نام لیا ، جسے ایک ماہ میں ایران چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ راستے میں ڈرون حملے میں وہ مارا گیا ۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد حکمت یار کو صرف دو دن کی مہلت دی گئی ۔ ’’سورج ڈوبنے کے بعد میں نے سفر کا آغاز کیا اور پو پھٹنے سے پہلے افغانستان جا پہنچا ‘‘۔ اپنی جان بچانے کے لیے حریف کو الجھانے میں حکمت یار کا ثانی دنیا میں کم ہوگا ۔ روس اور امریکہ سمیت بہت سے لوگ ان کی جان کے درپے رہے لیکن ان تک وہ کبھی پہنچ نہ سکے ۔ ان کے مزاج کا غیر معمولی شک اور حیران کن رازداری ہمیشہ ان کی مددگار رہی ۔اللہ جب بندے کی مدد کرنا چاہے تو اسے ہنر اور توفیق بخش دیتا ہے ۔ ایران اور امریکہ آج ایک دوسرے کے دشمن ہیں ۔ افغانستان اور عرا ق میں لیکن ان کے باہم رابطے رہے اور مشترکہ مفادات بھی۔ سیاست میں اصول نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ، عالمی سیاست میں تو بالکل ہی نہیں ۔ ملکوں اور قوموں کے مفادات ہوتے ہیں اور بس ۔ کل کلاں اگر امریکہ اور ایران میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو کم از کم اس ناچیز کو ہرگز کوئی تعجب نہیں ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ تہران میں حکومتی تبدیلی پر تلا ہے ۔ اس ناچیز کی رائے مختلف ہے ۔ مشرقِ وسطیٰ میں ایرانی پالیسی کی نکیل اسرائیل کے ہاتھ میں ہے ۔ جس طرح کہ ہمارے خطے میں عنان دہلی کے پاس ۔ ایٹمی پروگرام پر ایران کچھ مزید رعایتیں دینے پر آمادہ ہو تو واشنگٹن مطمئن ہی نہیں ، خورسند بھی ہوگا ۔ ممکن ہے ، پھر دونوں میں خوشگوار مراسم استوار ہو جائیں ۔ یہ الگ بات کہ استعمار ایران ، عرب کشمکش کو بڑھاتا اور اس سے فائدہ اٹھاتا رہے گا ۔ آخر کار ایک دن اسرائیل کو اپنی حدود سے باہر نکلنا اور مدینہ منورہ کا رخ کرنا ہے ۔ پورے مشرقِ وسطیٰ پہ حکمرانی صیہونیوں کا دیرینہ خواب ہے۔ اس سے کبھی وہ دستبردار نہیں ہوئے ۔ رسولِ اکرم ؐ کے اقوالِ مبارک میں بالکل واضح اشارے اس طرف پائے جاتے ہیں ۔مسلمان حکمرانوں کا المیہ یہ ہے کہ اپنے محدود قومی مفادات ترجیح ہیں ، امت کا اتحاد نہیں ۔نجات کا دروازہ جس کے بغیر نہیں کھل سکتا۔ ایران کے بارے میں بہرحال ہم نے کوئی بات نہ کی ۔ میں نے پوچھا کہ کیا حزبِ اسلامی اب متحد ہے ؟ حکمت یار کے طویل غیاب ، ایران میں قیام اور پھر افغانستان میں روپوشی کے دوران ان کی پارٹی کئی دھڑوں میں بٹی رہی ۔ تفصیل سے انجینئر صاحب نے گریز کیا اور یہ کہا : روسیوں نے کوشش کی اور امریکیوں نے بھی لیکن وہ حزب کو بانٹ نہ سکے ۔ عدم موجودگی کی بات دوسری ہے ۔ باپ سر پہ نہ رہے تو خاندان میں کچھ بھی ہو سکتاہے لیکن حزبِ اسلامی میں حکمت یار کی حیثیت وہی ہے ، جو لندن سے واپسی کے بعد مسلم لیگ میں قائدِ اعظم کی تھی ۔ وہی اس کے بانی ، وہی اس کے نظریہ ساز اور وہی اس کے رہبر ہیں ۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ افغان پارلیمنٹ میں حزب کے ارکان کی تعداد 48ہے ۔ قیامِ پاکستان کی دوسری سالگرہ، 14اگست 1948ء کو پیدا ہونے والے حکمت یارمحض رسمی طور پر پاکستان کو اپنا دوسرا گھر نہیں کہتے ۔ یہ واقعی ان کا گھر ہے ۔ جتنے پاکستانیوں سے ان کے مراسم ہیں ، شاید اتنے افغانیوں سے نہ ہوں ۔ ان کے جتنے ذاتی دوست اور مدّاح پاکستان میں پائے جاتے ہیں ، افغانستان میں اس سے کچھ ہی زیادہ ہوں گے ۔ وہ واحد افغان لیڈر ہیں ، جو بھارت کے بارے میں اسی طرح سوچتے ہیں ، جس طرح ایک عام پاکستانی ۔ وہ پاکستان کے ساتھ مثالی تعلقات کے حامی ہیں ۔ ایک بار تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ کابل اور اسلام آباد کو ایک کنفیڈریشن پر غور کرنا چاہئیے ۔ وہ انڈیا، برما، فلپائن اور یورپ کی مسلم اقلیتوں کے بارے میں سوچتے ہیں ۔ کشمیر کی جدوجہدِ آزادی میں حکمت یار کا حصہ کسی سے کم نہیں ۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں جنگ کا آغاز روس نے کیا تھا ، جس کی جگہ بعد میں امریکی استعمار نے لے لی۔ روس نواز کیمونسٹ حکومت ختم ہونے پر اگر افغان عوام کی نمائندہ حکومت نہ بن سکی تو اس لیے کہ مغرب یہ طے کر چکا تھا۔ ایسا ہی ہو اتھا ۔ ضیاء الحق اسی لیے قتل کیے گئے تھے ۔ مغرب اسی لیے بھارت کی پشت پہ آن کھڑا ہوا ۔گلبدین یہ بھی کہتے ہیں کہ افغان پاکستان کشمکش مصنوعی ہے ۔ مغربی میڈیا جس کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور اس سے متاثر افغانستان اور پاکستان کے بعض اخبار نویس بھی ۔ کتنی ہی خامیاںہوں اور کتنی ہی غلطیاں اس نے کی ہوں ،حکمت یار مردِ آزاد ہے ۔ رحمتہ اللعالمینؐ کی امت کو وہ آزاد دیکھنا چاہتا ہے ۔ یہی اس کا جرم ہے ۔ اسی لیے مغرب اور مغرب سے متاثر دانشوروں کا ہدف رہتا ہے ۔