وزیراعظم عمران خان نے نیو یارک ٹائمز کو انٹرویو میں افغان صورتحال سے جنم لینے والے بنیادی سوالات پر پاکستان کا موقف واضح کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر افغانستان پر طالبان نے قبضہ کیا تو پاکستان کسی طاقت کے کہنے پران کے خلاف کوئی فوجی کارروائی نہیں کرے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے رواں سال 11 ستمبر تک افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی روشنی میں پاکستان کے آئندہ لائحہ عمل کے حوالے سے کہا کہ پاکستانی معاشرے کے تمام طبقات نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کوئی فوجی کارروائی نہیں کرے گا۔عمران خان کا افغان بارڈر کے حوالے سے کہنا تھا کہ ہم بارڈر کو سیل کر دیں گے کیونکہ اب پاکستان نے بارڈر پر باڑ لگا دی ہے، جو پہلے کھلا تھا،بارڈر سیل کرنے سے افغانستان سے غیر قانونی اور غیر مطلوبہ افراد کی آمد رک سکتی ہے۔ پاکستان کسی تنازع میں نہیں پڑنا چاہتا، دوسرا یہ کہ ہم مہاجرین کی آمد نہیں چاہتے ۔ اس سوال پر کہ کیا پاکستان طالبان کے افغانستان پر مکمل فوجی قبضے کی صورت میں اسے تسلیم کرے گا، عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان صرف ایک ایسی حکومت کو تسلیم کرے گا جس کا انتخاب افغانستان کے لوگوں نے کیا ہو، وہ جو بھی حکومت منتخب کریں۔وزیراعظم عمران خان کا پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے کہنا تھا کہ امریکی انخلا کے بعد ان کی خواہش ہے کہ امریکہ پاکستان سے اپنے ماضی کے ’عدم مساوات‘ پر مبنی تعلق کو ٹھیک کرے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم مستقبل کو اعتماد اور مشترکہ مقاصد پر مبنی ایک رشتہ پر استوار کرنا چاہتے ہیں۔ یہی حقیقت میں ہمارا امریکہ کے ساتھ رشتہ ہے۔ افغانستان کی صورتحال امریکہ اور اس کی اتحادی اشرف غنی حکومت کی گرفت سے نکلتی جا رہی ہے ۔امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعے کو وائٹ ہاوس میں افغان ہم منصب اشرف غنی اور افغانستان کی اعلیٰ مفاہمتی کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ ملاقات میں افغانستان کیلئے امریکی مدد پر تبادلہ خیال کیا گیا۔امریکی افواج جنگ کے بیس سال بعد افغانستان سے انخلا کر رہی ہیں جبکہ افغان سکیورٹی فورسز طالبان کی پیش قدمی روکنے میں ناکام نظر آتی ہیں ۔ جوبائیڈن نے افغان رہنماوں کو’ پرانے دوست‘ قرار دیا اور کہا کہ افغانستان کے لیے امریکی حمایت ختم نہیں ہو رہی، یہ امریکی انخلا کے باوجود برقرار رہے گی۔بائیڈن نے کہا کہ افغانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بے معنی تشدد کو اب رکنا چاہیے۔ امریکی صدر نے افغان قیادت سے وعدہ کیا کہ شراکت برقرار رہے گی تاہم انہوں نے اس کی تفصیل نہیں بتائی۔یاد رہے کہ اشرف غنی ایسے وقت امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں جب طالبان ملک کے مختلف حصوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ جو بائیڈن ستمبر تک افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کا اعلان کر چکے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے انخلا کے اعلان کے بعد سے اب تک طالبان کم از کم 30 اضلاع پر قبضہ کر چکے ہیں۔ امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے والے افغان مترجمین کو طالبان کی جانب سے حملوں کے خطرے کا سامنا ہے۔امریکی حکو مت کہہ چکی ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا مکمل ہونے سے پہلے غیر محفوظ افغان مترجمین کے گروپ کو ملک سے باہر محفوظ مقام پر پہنچا دیا جائے گا جہاں سے وہ امریکی ویزا لینے کا عمل مکمل کر سکیں گے۔ پاکستان افغانستان میں جہاد‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور امریکہ کے تازہ انخلا کے منصوبے سے براہ راست متاثر رہا ہے۔ ماضی کے تجربات نے پاکستان کو سکھایا ہے کہ اسے افغانستان میں کسی ناخوشگوار صورت حال سے خود کو بچائے رکھنا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ذمہ داری امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ہے کہ افغانستان سے انخلا سے پہلے طالبان‘ شمالی اتحاد‘ افغان حکومت اور دیگر فریقین کے مابین سیاسی نظام پر اتفاق رائے کا انتظام کیا جاتا۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جس طرح پاکستان کا استحصال کیا اس کے پیش نظر وزیر اعظم کا یہ فیصلہ درست ہے کہ پاکستان کو اگر افغانستان میں قیام امن اور تعمیر نو کے حوالے سے بطور مددگار کوئی ذمہ داری تفویض کی جاتی ہے تو وہ اس کے لئے تیار ہے‘ جنگ یا کسی خاص فریق کے خلاف کارروائیوں کے لئے پاکستان اپنی زمین و فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ طویل جنگ سے متاثرہ افغانستان میں امریکی انخلا کا عمل شروع ہے۔ اس دوران ایک طرف طالبان کی پیشقدمی جاری ہے‘ دوسری طرف اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ امریکی قیادت کے ساتھ نئے اشتراک عمل کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ ان حالات میں پاکستان اور طالبان کو امریکہ نے کلی طور پر نظرانداز کر رکھا ہے‘ بظاہر امریکہ یہی چاہتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں کسی ایک فریق کا ساتھ دے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ کھربوں ڈالر اور لاکھوں فوجیوں کی مدد کے باوجود جو جنگ وہ جیت نہ سکا وہ پاکستان اس کے لئے جیتے۔ ایسی رپورٹس موصول ہو رہی ہیں کہ امریکہ اور افغان حکومت انخلا کے بعد پاکستان میں ایسے حالات پیدا کرنے کے خواہشمند ہیں جو افغان خانہ جنگی کو پاکستان کے علاقوں تک کھینچ لائیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے امریکی انخلا کے بعد پاکستان کا کردار متنازع بننے سے روکنے کے لئے جن نکات کو اپنی پالیسی بیان کیا ان پر عمل نہ کرنے کی صورت میں بدامنی‘ مہاجرین کی نئی لہر اور خطے میں دہشت گردی دوبارہ سے ابھر سکتی ہے۔ پاکستان کو فوری طور پر چین،ایران اور روس کے ساتھ اس معاملے پر مشاورت کر کے آئندہ صورت حال سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کر لینا چاہیے۔