ولیم پرویز کا شکریہ جو میرے مضمون کا ترجمہ کر دیتے ہیں ،یوں میں اردو کے قارئین سے مخاطب ہو پاتا ہوں ۔اگست کا اختتام ہو رہا ہے اور پاکستان کے مسائل کی بحث طول پکڑ رہی ہے ۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق اس وقت پاکستان میں سیاسی بدعنوانی اعلیٰ ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ انتخابی عمل دولت اور اثر رسوخ حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ بن چکا ہے، اس کی وجہ سے ادارے کمزوراور غربت کے خاتمہ کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ آزادی کی پچھہترویں سالگرہ کے موقع پر یہ بات باور کرانا ضروری ہے کہ کوئی حملہ آور کسی دوسرے ملک پر ہمیشہ کے لیے قا بض نہیں رہ سکتا۔ صرف سو سال پہلے دنیا کی 85 فیصد آبادی اور ان کی زمینوں پر چھ ممالک کا مکمل کنٹرول تھا۔ 20ویں صدی کے وسط تک، ان کا براہ راست کنٹرول توختم ہو گیا، لیکن ان کا تسلط اور استحصال بدستور قائم رہا اور وہ کبھی جمہوریت اور کبھی انسانی حقوق کے نام پر دنیا پر حکومت کرتے رہے۔ سابق استعماری ریاستوں نے انسانی حقوق اور جمہوریت کے نام پر ہمارے تمام آمروں کی دھڑلے سے حمایت کی ہے۔ جب ہم جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے تووہ آمروں کا ساتھ دیتے رہے۔ جب سے مسٹر جوبائیڈن اقتدار میں آئے ہیں سرد جنگ کے احیاکی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے دور اندیش رہنما ایک بار پھر سرد جنگجو ئوں کی دھن پر ناچنے کو تیار دکھائی دیتے ہیں۔ کاش کہ یہ عمل دوبارہ سے نہ دہرایا جائے کیونکہ میں 70 سال کی عمر میں تاریخ کا پہیہ واپس گھومتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا۔اپنی 75ویں سالگرہ پر کیا پاکستان مکمل طور پر آزاد ملک ہے؟اگر ہاں، تو پھر اگلا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے شہری اپنی آزادانہ مرضی کا حق استعمال کرنے کے بعد بھی آزاد رہتے ہیں؟ میرے خیال میں اس کا دارومدار اس بات پر منحصر ہے کہ آزاد مرضی استعمال کرنے والا کون ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست کا تمام شہریوں کے ساتھ رویہ منصفانہ اورمساویانہ نہیں۔ 75ویں سالگرہ پر اس بات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ ملک کے ہر قانون کو بلا امتیاز نافذ کیا جا رہا ہے؟میری نظر میں ایسا بالکل نہیں۔ کیونکہ اگر آپ طاقتور ہیں تو درجنوں قتل سے بچ کر، سرکار کے اربوں روپے ہضم کرکے انہیںمتعدد ذرائع سے مکمل استثنیٰ کے ساتھ بیرون ملک بھی بھیجا جا سکتا ہے ، حتی ٰ کہ ایک دن وزیر اعظم یا وزیر اعلی بھی بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ غریب ہیں اور رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تو غالب امکان یہی ہے کہ آپ کو بپھرے ہوئے ہجوم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اگر آپ کو بچا کر پولیس کے حوالے کر دیا گیا تو آپ کو رشوت دینے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی 75 ویں سالگرہ پر آئین کی اْن شقوں پر شدومد سے عمل درآمد کیا جاتا ہے جو اشرافیہ کو غریبوں کا گلا دبانے میں مدد دیتی ، قانونی حیثیت فراہم کرتی اور انہیں مزید بااختیار بناتی ہیں۔ لیکن آئین کی جو شقیں عوامی مفادمیں ہیں ، ان پر عملدرآمد یکسر فراموش کیا جاتا ہے۔ ذرا غور کیجئے؛ اگر عام انتخابات قانون کے مطابق باقاعدگی سے ہوتے ہیں تو بلدیاتی انتخابات کیوں نہیں ؟ کیا یہ کہنا بر حق نہیں کہ اس ضمن میں ریاست نے مسلسل سماجی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے؟ گزشتہ پچاس برسوں میں کیا ایک بار بھی کسی صدر یا کسی صوبے کے گورنر نے آرٹیکل 29(3) کے تحت وفاقی یا صوبائی حکومت سے پالیسی کے اصولوں پر عمل درآمد کی پیش رفت پوچھی ہے ؟ مثال کے طور پر آرٹیکل 38 کے تحت’’ ریاست عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنائے گی، جنس، ذات پات، نسل یا نسل سے بالاتر ہو کر، ان کا معیار زندگی بلند کر کے، دولت اور ذرائع پیداوار کا ارتکاز چند لوگوں کے ہاتھ میں ہونے سے روکے گی۔ " لیکن افسوس کہ 1973 سے ملک میں اس کے برعکس ہورہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 33 خاندانوں کا ملک کے مالی و معاشی کاروبار پر کنٹرول حاصل ہے ، اور تقریباً 200 خاندان اسمبلیوں اور سینیٹ کی 90 فیصد نشستوں پر براجمان ہیں۔ یہ صورتحال ریاستی ناکامی کا نتیجہ اور آرٹیکل 38 سے رو گردانی ہے۔ عملی طور پر ریاست نے پاکستانی قوم کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ایک حصہ جس کے پاس سب کچھ ہے اور وہ آبادی کا ایک فیصد ہے ، دوسرا حصہ جس کے پاس کچھ نہیں ، اور وہ ننانوے فیصد لوگوں پر مشتمل ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ محروموں اور غریبوں کا یہ ننانوے فیصد حصہ اس گمان میں مبتلا ہے کہ وہ غربت کا شکار نہیں اور یہی حکمران اشرافیہ کی بڑی کامیابی ہے۔ لیکن 75ویں سالگرہ پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایسا کب تک چلے گا؟ اطالوی مارکسی فلسفی انٹونیو گرامچی نے سرمایہ داروں کی بالادستی کو بڑی خوبصورتی سے بے نقاب کیا ہے۔ سرمایہ دارانہ بالا دستی کے قیام او ر عوامی مقبولیت کے تصور کی گرامچی نے بہت اچھے انداز سے وضاحت کی ہے۔ گرامچی نے اینگلز کے اس تصور جسے ہم ’’پرفریب شعور (False Consciousness)‘‘کہہ سکتے ہیں ،کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ گرامچی کے نزدیک سرمایہ دارانہ ریاست دوستونوں پر کھڑی ہے ؛ ایک سیاسی سوسائٹی اور دوسری سول سوسائٹی۔ اسکے نزدیک سیاسی جماعتیں او ر سول سوسائٹی دونوں ہی سرمایہ دارانہ ریاست اور اسکے عقائد کی آبیاری میں مدد کرتی ہیں، میڈیا ، تعلیمی ادارے اور مذہبی حلقے ، سرمایہ دارانہ کلچر اور اسکی قبولیت کو قانونی اور اخلاقی بالا دستی کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ غور کریں ،ہر سال اگست میں جشن آزادی کے جوش و خروش کا مظاہرہ ہماری گاڑیوں اور سڑکوں پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں تمام اشکال اور سائز کے جھنڈوں، بیجز اور ملبوسات کی خریدو فروخت ایک دلچسپ رجحان اور کاروبار بن گیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 1960 اور 70 کی دہائیوں میں جشن آزادی کی یہ شکل بالکل موجود نہیں تھی۔ کوئی نہیں جانتا کہ اسکا آغاز کیوں اورکس نے کیا اور کس نے اسے اتنا مقبول بنایا۔ (جاری ہے)