وطن عزیز شدید بارشوں اور سیلاب کی زد میں ہے۔ہزاروں انسانی جانیں لقمہ اجل بن چکی ہیں‘ دیہات اور بستیاں سیلاب برد ہو چکے ہیں۔مرنے والے مویشیوں کی تعداد لاکھوں میں بتائی جاتی ہے۔ سندھ‘ بلوچستان‘ جنوبی پنجاب اور شمالی علاقہ جات خاص طور پر بارش اور سیلاب کی زد میں ہیں۔بلوچستان سے پورے ملک کا زمینی راستہ کٹ چکا ہے۔120سالہ برطانوی دور میں بنایا گیا بولان کا پل پانی میں بہہ چکا ہے۔ بیسیوں چھوڑے بڑے ڈیم ٹوٹ چکے ہیں۔پل اور سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔سیلاب زدہ علاقوں میں خوراک اور پینے کا پانی مفقود ہے۔ خدا کر شکر ہے پچھلے ایک دو دن سے پاکستان کے میڈیا کو احساس ہوا ہے کہ سیلاب کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ اسے سیاسی خبروں پر فوقیت دینے کی ضرورت ہے اور اس خوابیدہ قوم کو جگانے کی ضرورت ہے۔یہ بھی خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم نے اپنا لندن کا مجوزہ دورہ ملتوی کر دیا ہے اور سیلاب زدگان کی مدد کی طرف توجہ مبذول کی ہے۔جب وہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ تھے تو وہ ایسے مواقع پر ہمیشہ پیش پیش نظر آتے تھے اور انتظامی مشینری کو بھی خوب حرکت میں لاتے تھے۔ پنجاب حکومت اس معیار پر پورا اترتی نظر نہیں آ رہی۔ عمران خاں کو بھی بڑی دیر سے خیال آیا ہے کہ انہیں سیاست کو چھوڑ کر سیلاب زدگان کی خبر لینی چاہیے۔قومی ایمرجنسی کا نفاذ ایک احسن اقدام ہے۔پاکستان آرمی نے ہمیشہ کی طرح اپنے تمام وسائل سیلاب زدہ علاقوں کے لئے وقف کر دیے ہیں اور آرمی چیف نے ہر متاثرہ شخص تک پہنچنے کی ہدایت جاری کی ہے۔پانی کے قدرتی راستے مسدود کرنے میں ہمیں ملکہ حاصل ہے۔یہ ہمارے لئے سبق ہے کہ ہم پانی کے قدرتی راستے روکیں گے تو وہ ہمارے مکانوں اور عمارتوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔ سندھ کی حکومت کے لئے خاص طور پر لمحہ فکریہ ہے کہ جس طرح بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے شہر بھر کے نالے اور ندیاں عمارات کی نظر کی ہیں اور پورا شہر ندی نالوں اور گندگی کے ڈھیر میں بدل گیا ہے۔ہمیں اپنے متعلقہ اداروں کو مکمل طور پر فعال بنانے کی ضرورت ہے اور ذمہ دار لوگوں کو سزا دینے کی ضرورت ہے، جن کی کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے روشنیوں کا شہر کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا ہے۔اگر ہم نے اب بھی اپنی روش نہ بدلی تو عوام قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو جائیں گے۔کراچی میں پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر کو عوام نے گھیرا اور اس کی خوب درگت بنائی۔اگر رینجرز اس کی مدد کو نہ آتے تو خدانخواستہ اس کی جان بھی جا سکتی تھی۔یہ واقعہ باقی سیاسی رہنمائوں کے لئے بھی چشم کشائی کا موجب ہونا چاہیے۔پاکستان کا جتنا رقبہ سیلاب سے متاثر ہوا ہے، وہ اس قدر زیادہ ہے کہ قحط سالی کا خطرہ ہمارے سر پر منڈلا رہا ہے۔کسانوں کی کھڑی فصلیں برباد ہو گئی ہیں اور اپنے خاندان کے لئے ذخیرہ کیا ہوا غلہ بھی سیلاب کی نظر ہو گیا ہے۔بلوچستان میں پھلوں کے باغات اور بے شمار مویشی پانی میں بہہ گئے ہیں۔جن غریب لوگوں کا روزگار ہی مویشی پالنے سے وابستہ تھا وہ اب غربت کی نہایت نیچی سطح پر آ گئے ہیں۔سندھ اور جنوبی پنجاب میں کپاس کی فصل مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہے۔کپاس کی پیداوار پہلے ہی ہمارے لئے ناکافی تھی اس لئے اب کپاس تقریباً دوگنی مقدار میں درآمد کرنی پڑے گی اور اس کا اثر ہماری کپڑے کی صنعت اور برآمدات پر بھی پڑے گا۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری قوم کو آنے والے حالات کے لئے تیار کیا جائے اور ہنگامی بنیادوں پر عوام کے لئے خوراک کا بندوبست کیا جائے۔ سیاسی جماعتوںکو فوری طور پر اپنی سیاسی سرگرمیاں ترک کر کے امدادی کیمپ لگانے چاہئیں اور عوامی خدمت میں مشغول ہو جانا چاہیے۔سابق کرکٹر محمد یوسف نے پوری قوم کو ایک صائب مشورہ دیا ہے کہ پوری قوم کو اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔یہ بالکل درست مشورہ ہے لیکن اس کا زیادہ اطلاق ہمارے قومی رہنمائوں پر ہوتا ہے جو قوم کو اس نہج پر لے کر آئے ہیں اور کرپشن کے اصل ذمہ دار ہیں۔اس کے برعکس سندھ اسمبلی کے سپیکر جناب سراج درانی کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں وہ کسی دیہات میں سیلاب سے متاثرہ غریب لوگوں کی خوب ڈانٹ ڈپٹ کر رہے ہیں کہ یہ سیلاب ان کے گناہوں کا نتیجہ ہے اور وہ خدا سے توبہ کریں اور اپنے کرتوت درست کریں۔یہ ویڈیو ان لوگوں کے لئے خاصی مضحکہ خیز ہے جو سراج درانی صاحب کی دولت مندی اور ان کی روز و شب کی مصروفیات سے واقف ہیں۔ جناب آصف علی زرداری نے بھی فرمایا ہے: ایک شخص فوج‘ پولیس اور عدلیہ کو دھمکیاں دے رہا ہے اور حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی رٹ قائم کرے۔وہ شاید بھول چکے ہیں کہ خود انہوں نے قومی اداروں کو اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی تھی اور پھر انہیں فورًاملک سے بھاگنا پڑا تھا۔انہیں بلاول بھٹو کو بھی مشورہ دینا چاہیے کہ وہ بیرونی دورے کرنے سے فی الحال پرہیز کریں اور سندھ کے سیلاب زدگان سے یکجہتی کے لئے سندھ کے دورے شروع کریں۔ وزیر اطلاعات و نشریات محترمہ مریم اورنگزیب نے بھی فرمایا ہے کہ عمران خاں کی امانت اور دیانت کا جنازہ نکل گیا ہے۔وہ تماشوں‘ ڈراموں اور نوٹنکی اور جھوٹ پر مبنی بیانیوں کا عادی ہے۔ جبکہ موجودہ حکومت ان کی چار سالہ حکومت کی تباہ کاریوں‘ مہنگائی اور معیشت کی تباہی سے ملک کو نکالنے میں مشغول ہے۔کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ وزیر اطلاعات چند ہفتے کے لئے عمران خاں کے سنڈروم سے باہر نکل آئیں اور عوام کو سیلاب کی صحیح صورتحال سے آگاہ کریں اور پوری قوم کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے نبردآزما ہونے کے لئے تیار کریں۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور اس کے لئے پوری قوم کو اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ تقسیم کرنے کی۔ پی ڈی ایم کے تیسرے اور چوتھے درجے کے لیڈر بھی ایک تسلسل کے ساتھ عمران خاں کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں۔پیپلز پارٹی کے ایک لیڈر فرما رہے ہیں کہ عمران خاں ملک کو ڈیفالٹ کرانا چاہتا ہے ایک وزیر بے محکمہ فرما رہے ہیں کہ وہ کون سی قوت ہے جو عمران خاں کو گرفتار ہونے سے بچا رہی ہے۔ان کا اشارہ شاید فوج کی طرف ہے۔ان کو ایسی باتیں کرنے سے پہلے شہباز شریف صاحب سے ضرور مشورہ کرنا چاہیے اور بلا وجہ فوج کو سیاسی معاملات میں نہیں گھسیٹنا چاہیے۔شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری عموماً نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔جناب وزیر اعظم سے درخواست ہے کہ وہ اپنے تمام وزراء کو وقتی طور پر سیاسی بیانات دینے سے گریز کرنے کا حکم جاری کریں اور وزراء کی اس فوجِ ظفر موج کو بیرونی دورے ختم کر کے سیلاب زدگان کی مدد کا فریضہ سونپیں۔شاید اس عمر سے عوام میں ان کی پذیرائی میں بھی کچھ اضافہ ہو سکے۔آخر میں صاحب طرز شاعر سردار محمد شمیم کے چند اشعار: لے گیا سیلِ بلا خیز یکایک سب کچھ اب کہ باقی کوئی ملتا ہے مکیں اور مکان سانحہ وہ ہے کہ پتھر بھی لرز جاتے ہیں اور تم مستیٔ مسند میں ہو گم رقص کناں اب بھی ہے وقت لہٰذا کہ بنامِ نیکی کچھ کرو فکرِ مداوائے غم و دردِ گراں