تونسہ کے سرائیکی مشاعرہ بارے ڈی پی اور ڈیرہ غازیخان کا عجیب و غریب موقف سامنے آیا ہے۔ ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کے مطابق ڈی پی او کا کہنا ہے کہ سرائیکی مشاعرے میں محبوب تابش پر مشتعل لوگ حملہ آور ہو رہے تھے، تحفظ کیلئے سرائیکی شاعر کو پولیس نے اپنی حراست میں لیا۔ ڈی پی او کے موقف پر حیرانی ہوئی ہے کہ محبوب تابش کی تقریر اور سٹیج پر ان کے ساتھ ہونیوالا ہتک آمیز سلوک وائرل ہو چکا ہے اور ویسے بھی یہ رات کے اندھیرے میں ہونیوالی چوری کی واردات نہیں کہ اصل حقیقت کا علم نہ ہو سکے، بھرے جلسے کی بات ہے، جہاں سینکڑوں لوگ موجود تھے، پولیس اپنا جرم چھپانے کیلئے ایسی بات کر رہی ہے جو کہ ’’عذر گناہ بدتر از گناہ‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ پروفیسر محبوب تابش نے کہا کہ اشتعال والی بات غلط ہے۔ مجھ سے مائیک چھینا میرا گریبان پکڑا اور پولیس نے مجھے گھسیٹتے ہوئے گرفتار کیا، میں بار بار کہتا رہا کہ میرا جرم بتائو، مجھے وارنٹ گرفتاری دکھائو، تھانیدار کہتا رہا کہ کوئی وارنٹ گرفتاری نہیں، اوپر سے حکم ہے۔ محبوب تابش نے کہا اتنا ظلم کسی شاعر کے ساتھ ضیاء دور میں بھی نہیں ہوا۔ محبوب تابش کی بات سے مجھے یاد آیا کہ جنرل ضیاء کا دور تھا اظہار اذادی پر پابندی تھی اخبارات پر سنسر تھا، آئین معطل تھا اسی دوران عاشق بزدار کی کتاب ’’قیدی تخت لہور دے‘‘ شائع ہوئی، کتاب پر پابندی عائد کر دی گئی مگر عاشق بزدار ہر سرائیکی مشاعرے میںاپنی کتاب ’’قیدی تخت لہور دے‘‘ کی شاعری پڑھتے رہے مگر ان پر کسی نے ہاتھ نہ اٹھایا اور نہ کسی جگہ پولیس گردی کا مظاہرہ ہوا، اسی بناء پر محبوب تابش کا یہ کہنا غلط نہیں کہ میرے ساتھ جو ہتک آمیز سلوک ہوا وہ کسی شاعر کے ساتھ ضیاء کے مارشل کے دوران میں نہیں ہوا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سرائیکی شاعر جناب عزیز شاہد کی مشہور زمانہ نظم ’’کھورہ چہرہ‘‘ ضیاء دور میں لکھی گئی اور ہر مشاعرے میں پڑھی گئی کسی حکومتی کارندے کی طرف سے نہ تو ان کو روکا گیا اور نہ ہی وہ گرفتار ہوئے، ایک اور بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ تونسہ کے معروف شاعر بشیر غمخوار نے ’’صدر فاروق لغاری‘‘ کے نام لکھی یہ نظم نہ صرف پاکستان بلکہ انٹرنیشنل سطح پر بھی بہت مقبول ہوئی ، نظم اس طرح تھی کہ ’’ویندا چوٹی دا چٹ چئی ونج خان کوں آکھیں اوکھے ہیں‘‘ اسی تمام کے قافیہ ’’ردیف دربان کوں آکھیں اوکھے ہیں، بیمان کوں آکھیں اوکھے ہیں، شیطان کوں آکھیں اوکھے ہیں‘‘ عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وقت کے بادشاہ کے خلاف ایک سرائیکی شاعر کی جرأت کو بھی سلام ہے، اس کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ حاکم وقت صدر فاروق خان لغاری کی برداشت بھی لائق تحسین ہے۔ اس کے مقابلے میں تونسہ کے سرائیکی مشاعرے میں جو واقعہ پیش آیا اس پر وسیب کے لوگ شرمندگی محسوس کر رہے ہیں، اگر تونسہ کا شاعر بھورل ملنگ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے حق میں نظم لکھتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’میڈا تونسہ تخت لہور اے‘‘ تو وزیر اعلیٰ سن کر خوش ہوتے ہیں وزیر اعلیٰ خود داد دے رہے ہوتے ہیں اور ڈیوٹی پر موجود پولیس افسر اور اہلکار بھی سرمار رہے ہوتے ہیں، وزیر اعلیٰ اور ان کے مصاحبین کو تعریف کے ساتھ تنقید بھی برداشت کرنی چاہئے۔ محبوب تابش کہتے ہیں کہ میرے استاد اقبال سوکڑی صاحب کی جس کتاب کی تقریب رونمائی تھی اسے میں نے لاہور کے ایک پبلشر سے شائع کرایا۔ میں ایک لحاظ سے تقریب کا میزبان بھی تھا، میں وسیب کا شاعر ہوں وسیب کی آواز ہوں، میں نے کوئی جرم نہیں کیا، میری تقریر ریکارڈ پر موجود ہے، میں نے وسیب کی بات کی، وسیب کی محرومی کی بات کی، وسیب کی شناخت کی بات کی، لفظ جنوبی پنجاب پر اعتراض کیا اور کہا کہ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر تونسہ میں 3 روزہ جنوبی پنجاب ثقافتی میلہ کے نام سے 26تا 28 نومبر سرکاری پروگرام رکھا گیا ہے ، اس کا نام وسیب ثقافتی میلہ ہونا چاہئے، محبوب تابش کہتے ہیں کہ میں نے وسیب کو محروم رکھنے والے جاگیرداروں، سرداروں، وڈیروں اور تمنداروں کے خلاف بات کی، مجھ پر جو پولیس گردی کرائی گئی یہ غیر قانونی، غیر اخلاقی اور درندگی کی بد ترین مثال ہے، انصاف کے اداروں کو اس کا نوٹس لینا ہو گا۔ محبوب تابش کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ پر پورے وسیب میں تشویش اور غم غصے کی لہر دوڑ گئی ہے، سرائیکی جماعتوں اور سرائیکی تنظیموں کی طرف سے واقعہ کی مذمت کی جا رہی ہے، اپنے بیٹے اور بہو کے علاج کے سلسلے میں کراچی میں ہوں، واقعے کے خلاف کراچی میں آل سرائیکی جماعتوں کا اجلاس ہوا، سرائیکی قومی اتحاد کے مرکزی سینئر نائب صدر حاجی رب نواز ملک کے گھر سرائیکی ہائوس میں منعقد ہونے والے اجلاس میں سرائیکی رہنما کرنل (ر) عبدالجبار خان عباسی، نذیر لغاری، ملک رحمت اللہ، علامہ محمد اعظم سعیدی، مخدوم اکبر ہاشمی اور دیگر نے شرکت کی۔ اجلاس میں محبوب تابش کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی مذمت کی گئی اور واقعہ میں ملوث پولیس افسر اور اہلکاروں کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔ اس موقع پر سرائیکی رہنمائوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کے نام سے احتجاجی تحریک شروع کی اور اسلام آباد میں دھرنا دیا، اس موقع پر تقریروں کے دوران سخت الفاظ کے ساتھ ساتھ یہاں تک کہا گیا کہ ہم وزیر اعظم عمران خان کو وزیر اعظم ہائوس سے گرفتار کر لیں گے ، سوال یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے خلاف تو کوئی پولیس ایکشن نہیں ہوا جبکہ سرائیکی وسیب کو اتنا بے بس اور مجبور سمجھ لیا گیا ہے کہ اُن کو بات کرنے کی بھی اجازت نہیں اور ان کی ادبی تقریبات پر بھی دھاوے بولنے کی رسم شروع کر دی گئی ہے جس کے خلاف وسیب کے کروڑوں لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ اس موقع پر سرائیکی رہنمائوں نے اعلان کیا کہ بزرگ شاعر اقبال سوکڑی کے ساتھ 6 دسمبر 2019ء کراچی آرٹس کونسل میں شام منائی جائے گی اور آئندہ سال کے آغاز میں کراچی میں عالمی سرائیکی کانفرنس منعقد کی جائے گی۔ تحریک انصاف کی حکومت جو تبدیلی کے نعرے پر برسراقتدار آئی ہے جو ادب و ثقافت کی پرموشن کی دعویدار ہے جس کا نعرہ دو نہیں ایک پاکستان ہے نہ صرف محبوب تابش بلکہ پاکستان کے 22 کروڑ خصوصاً وسیب کے کروڑوں افراد کو ان کی شناخت اور صوبہ مہیا کرے کہ وہ اسی نعرے پر برسراقتدار آئی ہے۔
وسیب کی آواز!
بدھ 27 نومبر 2019ء
تونسہ کے سرائیکی مشاعرہ بارے ڈی پی اور ڈیرہ غازیخان کا عجیب و غریب موقف سامنے آیا ہے۔ ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کے مطابق ڈی پی او کا کہنا ہے کہ سرائیکی مشاعرے میں محبوب تابش پر مشتعل لوگ حملہ آور ہو رہے تھے، تحفظ کیلئے سرائیکی شاعر کو پولیس نے اپنی حراست میں لیا۔ ڈی پی او کے موقف پر حیرانی ہوئی ہے کہ محبوب تابش کی تقریر اور سٹیج پر ان کے ساتھ ہونیوالا ہتک آمیز سلوک وائرل ہو چکا ہے اور ویسے بھی یہ رات کے اندھیرے میں ہونیوالی چوری کی واردات نہیں کہ اصل حقیقت کا علم نہ ہو سکے، بھرے جلسے کی بات ہے، جہاں سینکڑوں لوگ موجود تھے، پولیس اپنا جرم چھپانے کیلئے ایسی بات کر رہی ہے جو کہ ’’عذر گناہ بدتر از گناہ‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ پروفیسر محبوب تابش نے کہا کہ اشتعال والی بات غلط ہے۔ مجھ سے مائیک چھینا میرا گریبان پکڑا اور پولیس نے مجھے گھسیٹتے ہوئے گرفتار کیا، میں بار بار کہتا رہا کہ میرا جرم بتائو، مجھے وارنٹ گرفتاری دکھائو، تھانیدار کہتا رہا کہ کوئی وارنٹ گرفتاری نہیں، اوپر سے حکم ہے۔ محبوب تابش نے کہا اتنا ظلم کسی شاعر کے ساتھ ضیاء دور میں بھی نہیں ہوا۔ محبوب تابش کی بات سے مجھے یاد آیا کہ جنرل ضیاء کا دور تھا اظہار اذادی پر پابندی تھی اخبارات پر سنسر تھا، آئین معطل تھا اسی دوران عاشق بزدار کی کتاب ’’قیدی تخت لہور دے‘‘ شائع ہوئی، کتاب پر پابندی عائد کر دی گئی مگر عاشق بزدار ہر سرائیکی مشاعرے میںاپنی کتاب ’’قیدی تخت لہور دے‘‘ کی شاعری پڑھتے رہے مگر ان پر کسی نے ہاتھ نہ اٹھایا اور نہ کسی جگہ پولیس گردی کا مظاہرہ ہوا، اسی بناء پر محبوب تابش کا یہ کہنا غلط نہیں کہ میرے ساتھ جو ہتک آمیز سلوک ہوا وہ کسی شاعر کے ساتھ ضیاء کے مارشل کے دوران میں نہیں ہوا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سرائیکی شاعر جناب عزیز شاہد کی مشہور زمانہ نظم ’’کھورہ چہرہ‘‘ ضیاء دور میں لکھی گئی اور ہر مشاعرے میں پڑھی گئی کسی حکومتی کارندے کی طرف سے نہ تو ان کو روکا گیا اور نہ ہی وہ گرفتار ہوئے، ایک اور بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ تونسہ کے معروف شاعر بشیر غمخوار نے ’’صدر فاروق لغاری‘‘ کے نام لکھی یہ نظم نہ صرف پاکستان بلکہ انٹرنیشنل سطح پر بھی بہت مقبول ہوئی ، نظم اس طرح تھی کہ ’’ویندا چوٹی دا چٹ چئی ونج خان کوں آکھیں اوکھے ہیں‘‘ اسی تمام کے قافیہ ’’ردیف دربان کوں آکھیں اوکھے ہیں، بیمان کوں آکھیں اوکھے ہیں، شیطان کوں آکھیں اوکھے ہیں‘‘ عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وقت کے بادشاہ کے خلاف ایک سرائیکی شاعر کی جرأت کو بھی سلام ہے، اس کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ حاکم وقت صدر فاروق خان لغاری کی برداشت بھی لائق تحسین ہے۔ اس کے مقابلے میں تونسہ کے سرائیکی مشاعرے میں جو واقعہ پیش آیا اس پر وسیب کے لوگ شرمندگی محسوس کر رہے ہیں، اگر تونسہ کا شاعر بھورل ملنگ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے حق میں نظم لکھتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’میڈا تونسہ تخت لہور اے‘‘ تو وزیر اعلیٰ سن کر خوش ہوتے ہیں وزیر اعلیٰ خود داد دے رہے ہوتے ہیں اور ڈیوٹی پر موجود پولیس افسر اور اہلکار بھی سرمار رہے ہوتے ہیں، وزیر اعلیٰ اور ان کے مصاحبین کو تعریف کے ساتھ تنقید بھی برداشت کرنی چاہئے۔ محبوب تابش کہتے ہیں کہ میرے استاد اقبال سوکڑی صاحب کی جس کتاب کی تقریب رونمائی تھی اسے میں نے لاہور کے ایک پبلشر سے شائع کرایا۔ میں ایک لحاظ سے تقریب کا میزبان بھی تھا، میں وسیب کا شاعر ہوں وسیب کی آواز ہوں، میں نے کوئی جرم نہیں کیا، میری تقریر ریکارڈ پر موجود ہے، میں نے وسیب کی بات کی، وسیب کی محرومی کی بات کی، وسیب کی شناخت کی بات کی، لفظ جنوبی پنجاب پر اعتراض کیا اور کہا کہ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر تونسہ میں 3 روزہ جنوبی پنجاب ثقافتی میلہ کے نام سے 26تا 28 نومبر سرکاری پروگرام رکھا گیا ہے ، اس کا نام وسیب ثقافتی میلہ ہونا چاہئے، محبوب تابش کہتے ہیں کہ میں نے وسیب کو محروم رکھنے والے جاگیرداروں، سرداروں، وڈیروں اور تمنداروں کے خلاف بات کی، مجھ پر جو پولیس گردی کرائی گئی یہ غیر قانونی، غیر اخلاقی اور درندگی کی بد ترین مثال ہے، انصاف کے اداروں کو اس کا نوٹس لینا ہو گا۔ محبوب تابش کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ پر پورے وسیب میں تشویش اور غم غصے کی لہر دوڑ گئی ہے، سرائیکی جماعتوں اور سرائیکی تنظیموں کی طرف سے واقعہ کی مذمت کی جا رہی ہے، اپنے بیٹے اور بہو کے علاج کے سلسلے میں کراچی میں ہوں، واقعے کے خلاف کراچی میں آل سرائیکی جماعتوں کا اجلاس ہوا، سرائیکی قومی اتحاد کے مرکزی سینئر نائب صدر حاجی رب نواز ملک کے گھر سرائیکی ہائوس میں منعقد ہونے والے اجلاس میں سرائیکی رہنما کرنل (ر) عبدالجبار خان عباسی، نذیر لغاری، ملک رحمت اللہ، علامہ محمد اعظم سعیدی، مخدوم اکبر ہاشمی اور دیگر نے شرکت کی۔ اجلاس میں محبوب تابش کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی مذمت کی گئی اور واقعہ میں ملوث پولیس افسر اور اہلکاروں کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔ اس موقع پر سرائیکی رہنمائوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کے نام سے احتجاجی تحریک شروع کی اور اسلام آباد میں دھرنا دیا، اس موقع پر تقریروں کے دوران سخت الفاظ کے ساتھ ساتھ یہاں تک کہا گیا کہ ہم وزیر اعظم عمران خان کو وزیر اعظم ہائوس سے گرفتار کر لیں گے ، سوال یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے خلاف تو کوئی پولیس ایکشن نہیں ہوا جبکہ سرائیکی وسیب کو اتنا بے بس اور مجبور سمجھ لیا گیا ہے کہ اُن کو بات کرنے کی بھی اجازت نہیں اور ان کی ادبی تقریبات پر بھی دھاوے بولنے کی رسم شروع کر دی گئی ہے جس کے خلاف وسیب کے کروڑوں لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ اس موقع پر سرائیکی رہنمائوں نے اعلان کیا کہ بزرگ شاعر اقبال سوکڑی کے ساتھ 6 دسمبر 2019ء کراچی آرٹس کونسل میں شام منائی جائے گی اور آئندہ سال کے آغاز میں کراچی میں عالمی سرائیکی کانفرنس منعقد کی جائے گی۔ تحریک انصاف کی حکومت جو تبدیلی کے نعرے پر برسراقتدار آئی ہے جو ادب و ثقافت کی پرموشن کی دعویدار ہے جس کا نعرہ دو نہیں ایک پاکستان ہے نہ صرف محبوب تابش بلکہ پاکستان کے 22 کروڑ خصوصاً وسیب کے کروڑوں افراد کو ان کی شناخت اور صوبہ مہیا کرے کہ وہ اسی نعرے پر برسراقتدار آئی ہے۔
آج کے کالم
یہ کالم روزنامہ ٩٢نیوز میں بدھ 27 نومبر 2019ء کو شایع کیا گیا
آج کا اخبار
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
منگل 19 دسمبر 2023ء
-
پیر 06 نومبر 2023ء
-
اتوار 05 نومبر 2023ء
اہم خبریں