معزز قارئین!۔ آج 26 اکتوبر ہے ۔ کل 27 اکتوبر ہوگا ، جب آزاد کشمیر ، مقبوضہ کشمیر اور پاکستان سمیت دُنیا بھر میں آباد کشمیری اور پاکستانی فرزندان و دُختران ، حسب ِروایت ’’مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر ‘‘پر بھارت کے قبضے کی یاد سوگ اور احتجاج کے طور پر یوم سیاہ منائیں گے ۔ اِس موضوع پر کل بات کریں گے، لیکن، آج مَیں پختہ عُمر کے پاکستانیوں کی یاددہانی اور نئی نسل کی آگاہی کے لئے 27 اکتوبر 1958ء کا تذکرہ کروں گا اور اُس سے پہلے 7اکتوبر 1958ء کا ۔ 7 اکتوبر 1958ء کو پاکستان کے پہلے منتخب صدر میجر جنرل (ر) سکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کر کے ، آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان کو، مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کردِیا تھااور مارشلائی کابینہ بھی تشکیل دِی تھی ، جس میں لاڑکانہ کے زمیندار ، نوجوان وکیل ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھے۔ تین چار دِن بعد ، بھٹو صاحب نے صدر سکندر مرزا کو خط لکھا کہ ’’جنابِ صدر !۔ آپ قائداعظمؒ سے بھی بڑے لیڈر ہیں ‘‘۔ 20 دِن بعد جنرل محمد ایوب خان نے ، صدر سکندر مرزا کو برطرف اور لندن جلا وطن کر کے ، صدارت کا منصب بھی سنبھال لِیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو ، صدر جنرل محمد ایوب خان کی مارشلائی کابینہ میں بھی شامل تھے؟۔ صدر محمد ایوب خان نے بھٹو صاحب کو اپنا "Blue-Eyed Boy" بنا لِیا تھا اور بھٹو صاحب نے اُنہیں اپنا "Daddy" ؟۔ جون 1966ء کو ، صدر ایوب خان کی حکومت چھوڑنے تک ، جنابِ بھٹو ، صدر ایوب خان کو ، غازی صلاح اُلدّین ایوبی ثاؔنی اور ’’ایشیا کا ڈیگال‘‘مشہور کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن، ناکام رہے۔ اِس سے پہلے کنونشن مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے ’’فیلڈ مارشل ‘‘ صدر محمد ایوب خان نے 2 جنوری 1965ء کو صدارتی انتخاب کرانے کا اعلان کِیا۔ لیکن، اُس انتخاب میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے ہر عاقل ، اور بالغ مرد اور عورت کو ’’ ووٹ‘‘ کے حق سے محروم کردِیا۔ صِرف بنیادی جمہوریت کے 80 ہزا ر منتخب ارکان کو ووٹ دینے کا حق دِیا گیا تھا۔ صدارتی انتخاب میں قائداعظمؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ کونسل مسلم لیگ کی امیدوار تھیں، پھر متحدہ اپوزیشن نے اُنہیں اپنا امیدوا ر بنا لِیا۔ ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی نے محترمہ فاطمہ جناحؒ کو ’’ مادرِ ملّت ‘‘ کا خطاب دِیا۔ جس سے ناراض ہو کر صدارتی انتخاب سے پہلے 3 اکتوبر 1964ء کو (اِن دِنوں ) آزادی مارچ کے علمبردار فضل اُلرحمن صاحب کے والدِ مرحوم مفتی محمود صاحب نے ’’ جمعیت عُلماء اسلام ‘‘ کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے فتویٰ دِیا تھا کہ’’ شریعت کے مطابق کوئی عورت اسلامی مملکت کی سربراہ نہیں بن سکتی‘‘۔ دراصل اِس سے پہلے مفتی صاحب پاکستانیوں کی آگاہی کے لئے یہ بھی اعلان کر چکے تھے کہ’’ خُدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گُناہ میں شامل نہیں تھے ‘‘۔ عام انتخابات سے قبل صدر محمد ایوب خان کو خوف تھا کہ’’ کہیں پاکستان الیکشن کمیشن اُنہیں ’’سرکاری ملازم ‘‘ ( فیلڈ مارشل ) کی حیثیت سے ، انتخاب کے لئے نااہل نہ قرار دے دے۔ چنانچہ اُنہوں نے اپنے دو چہیتے وزراء ذوالفقار علی بھٹو اور محمد شعیب کو اپنا "Covering Candidate" نامزد کردِیا تھا۔ جب صدر محمد ایوب خان کنونشن مسلم لیگ کے صدر تھے تو، بھٹو صاحب اُس کے جنرل سیکرٹری ۔ یہ بات "On Record" ہے کہ’’ سیکرٹری جنرل جناب بھٹو نے ، صدر کنونشن مسلم لیگ ، کو یہ تجویز بھجوائی تھی کہ’’ کیوں نہ ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو ،ضلعی کنونشن مسلم لیگ کا صدر اور سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو سیکرٹری جنرل نامزد کردِیا جائے؟‘‘ لیکن، صدر محمد ایوب خان نے جنابِ بھٹو کی یہ تجویز مسترد کردِی تھی۔ معزز قارئین!۔ اِس سے پہلے27 اور 28 اکتوبر 1962ء کو کونسل مسلم لیگ کے انتخابات میں سابق وزیراعظم خواجہ ناظم اُلدّین کو صدر اور سردار بہادر خان کو سیکرٹری جنرل منتخب کِیا گیا تھا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’’ سردار بہادر خان فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے سگّے چھوٹے بھائی تھے اور تحریک ِ پاکستان میں اُنہوں نے نمایاں خدمات انجام دِی تھیں۔ سردار بہادر خان ، پاکستان کے مختلف وزرائے اعظم ، لیاقت علی خان ، خواجہ ناظم اُلدّین اور محمد علی بوگرہ کی کابینہ میں شامل رہے۔ 1962ء کے عام انتخابات میں سردار بہادر خان قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہُوئے اور وہ قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے قائد بھی تھے ۔ ایک دِن اچانک سردار صاحب نے سپیکر قومی اسمبلی مولوی تمیز اُلدّین خان سے مخاطب ہو کر اپنے بڑے بھائی کی حکومت ( گلستان ) کا مضحکہ اُڑاتے ہُوئے یہ شعر پڑھا کہ … … یہ راز تو کوئی ، راز نہیں ، سب اہلِ گلستاں جانتے ہیں! ہر شاخ پہ اُلّو ،بیٹھا ہے ، انجامِ گلستاں کیا ہوگا؟ اِس پر ایوان میں کھلبلی مچ گئی اور میڈیا پر بھی، بلکہ سارے پاکستان اور بیرون ملک بھی ۔ کئی مجلسوں میں صدر محمد ایوب خان سے ہمدردی ؔ کا بھی اظہار کِیا گیا، پھر خبر آئی کہ’’ صدر محمد ایوب خان نے اپنے گائوں ریحانہ (Rehana) جا کر اپنی والدۂ محترمہ سے چھوٹے بھائی (سردار بہادر خان ) کی شکایت کی اورپھر ’’ کونسل مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل سردار بہادر خان نے سیاست سے کنارہ کشی کرلی ہے ‘‘لیکن… ’’ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے، انجامِ گلستاں کیا ہوگا؟‘‘ کی کہانی ختم نہیں ہُوئی۔ معزز قارئین!۔اُلّو ایک شب خیز پرندہ ہے جو، ویرانوں میں رہتا ہے اور رات کو نکلتا ہے’’ہُو ہُو‘‘ کر کے بولتا ہے۔ لوگ اُسے بہت منحوس خیال کرتے ہیں ۔ مشہور ہے کہ یہ جس جگہ آ کر صدا لگاتا ہے وہ اُجڑ جاتی ہے ، اِسی مناسبت سے، اُ س جگہ کے لئے جو اُجڑ جاتی ہے یہ محاورہ مستعمل ہے کہ ’’ وہاں تو اُلّو بول گیا ہے‘‘۔ اُلّو کے برعکس ’’ہُما ‘‘ایک ایسا پرندہ ہے جس سے متعلق یہ خیال کِیا جاتا ہے کہ ’’ وہ جس کے سر پر گُزر جائے اُسے بادشاہت مِل جاتی ہے‘‘۔ کہا جاتا ہے کہ ’’ ہُما صِرف ہڈیاں کھاتا ہے اور کسی کو نہیں ستاتا‘‘۔ حضرت امیر میناؔئی نے نہ جانے اپنے کِس دوست سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ … ’’ہُما ، یوں استخواں ، سوختاں پر میرے گرتا ہے‘‘ صُوفی شاعر شیخ سعدی شیرازیؔ (1210ئ۔ 1292ئ) نے ’’بُوم ‘‘ ( اُلّو ) اور ’’ ہُما‘‘ کے بارے بارے میں کہا تھا / ہے کہ … کس نیامد ، بزیر سایۂ بُوم! در ہمای از جہان شد ، معدوم ! یعنی ۔’’ اگر ہُما دُنیا سے ختم بھی ہو جائے تو، کوئی بھی اِنسان ، اُلّو کے سائے کے نیچے نہیں آئے گا ۔ علاّمہ اقبالؒ نے ہر مسلمان سے مخاطب ہو کر کہا تھا / ہے کہ … ’’تُو ہُما کا ہے شکاری، ابھی ابتداء ہے تیری!‘‘ معزز قارئین!۔ سردار بہادر خان، علم و فضل کے لحاظ سے اپنے بڑے بھائی صدر محمد ایوب خان سے بہت آگے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اُنہوں نے علاّمہ اقبالؒ کا بہت سا کلام پڑھ کر اُس پر غور بھی کِیا ہوگا؟۔ موصوف 1942ء میں صوبہ سرحد کی اسمبلی کے سپیکر رہے اور 1946ء کے انتخابات میں بھی اُنہوں نے کامیابی حاصل کی تھی۔ علاّمہ اقبالؒ نے اپنی ایک نظم ’’ خوشامد‘‘ میں کہا تھا کہ … مَیں کار جہاں سے نہیں آگاہ، و لیکن! ارباب نظر سے نہیں پوشیدہ کوئی راز! …O… کر تو بھی حکومت کے وزیروں کی خوشامد! دستور نیا اور نئے دور کا آغاز! …O… معلوم نہیں ہے یہ خوشامد کہ حقیقت! کہہ دے کوئی اُلّو کو اگر ’’ رات کا شہباز‘‘! علاّمہ اقبالؒ نے یہ نظم 1935ء میں لکھی تھی ، جب دستور منظور ہو چکا تھا ، جسے ہمارے ہاں صوبائی خود مختاری کا دستور کہا گیا ۔ اِس نظم کا تیسرا شعر بہت ہی اہم ہے ۔ علاّمہ صاحب نے کہا کہ ’’ مجھے نہیں معلوم کہ اگر کوئی شخص اُلّو کو ’’رات کا شہباز‘‘ قرار دے دے تو، یہ خوشامد ہوگی یا حقیقت؟‘‘۔ مرحوم صدر محمد ایوب خان کے بعد ہر فوجی آمر اور منتخب صدر یا وزیراعظم کے دَور میں وہی نظام رہا ، ہے یا خُدا نخواستہ ہوگا؟ کہ … ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے ، انجامِ گلستاں کیا ہوگا؟