آج 27 اکتوبر ہے۔آج ہی کے دن سرینگر میں بھارتی فوجیں اتریں اور قبضے کے بعد آج ہی کے دن مہاراجہ سے الحاق کی نا معتبر دستایز پر دستخط لیے گئے۔مسئلہ کشمیر کے قانونی مطالعے میں اس دن کی بنیادی اہمیت ہے۔ یہ دن یوم سیاہ بھی ہے اور بھارت کے خلاف فرد جرم کا عنوان بھی۔اس دن کی تاریخی اہمیت بھی ہے اور قانونی بھی۔ مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی قانون کے تناظر میں سمجھنا ہو تو اس واردات کو سمجھنا ہو گا جو اس روز ہوئی۔انٹر نیشنل لاء اس واردات کو باطل قرار دیتا ہے اور ۔ویانا کنونشن آن دی لاز آف ٹریٹیز کے آرٹیکل 49 کے مطابق الحاق کی اس دستاویز کی کوئی حیثیت نہیں۔ بھارت کا موقف یہ ہے کہ مہاراجہ نے کشمیر کا الحاق بھارت سے کیا اور اس الحاق کے بعد بھارت نے کشمیر میں اپنی فوجیں اتاریں۔بعض عناصر اس میں مزید گرہ یہ لگاتے ہیں کہ مہاراجہ نے تو سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ کر رکھا تھا،پاکستان سے قبائلی لشکر وادی میں اترا اور یوں مہاراجہ نے بھارت سے الحاق کر لیا۔ہم 27 اکتوبر کو ہونے والے بھارتی واردات کو سمجھ لیں تو ہمیں معلوم ہو یہ دونوں باتیں خلاف واقعہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی افواج پہلے اتریں،سری نگر پر قبضہ کیا ،اور الحاق کی نا معتبر دستاویز پر جب مہارجہ سے دستخط لیے گئے تو اس سے پہلے سری نگر پر بھارتی فوج قابض ہو چکی تھی۔ قانون کی دنیا میں یہ پہلو کبھی نظر انداز کیا ہی نہیں جا سکتا کہ سری نگر پر بھارت کا قبضہ پہلے ہوا ، اس کی افواج پہلے اتریں اور اس کے بعد الحاق کی نامعتبر دستاویز پر دستخط کرائے گئے۔ الحاق کی یہ نا معتبر دستاویز تیار ہونے سے ایک دن پہلے بھارت اپنی افواج کو تحریری طور پر کشمیر پر حملے کا حکم دے چکا تھا۔ یہ ایک ناقابل تردید دستاویزی ثبوت ہے کہ بھارت نے 26 اکتوبر کو کشمیر میں فوج کشی کا حکم دیا ۔جب بھارت کی افواج کو کشمیر پر حملے کا حکم دیا گیا اس وقت تک الحاق کی واردات کا تکلف بھی نہیں ہوا تھا۔ستائیس اکتوبر کی صبح 9 بجے اس کے دستے سری نگر ایر پورٹ پر اتر چکے تھے۔یہ وہ وقت تھا جب مہاراجہ کو یہ بھی علم نہیں تھا الحاق کی دستاویز میں لکھا کیا ہے، اس نے ابھی تک اس دستاویز کو دیکھا تک نہیں تھا اور سری نگر بھارت کے قبضے میں جا چکا تھا۔جو الحاق قبضے کے بعد ہو ، انٹر نیشنل لاء کی نظر میں اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس الحاق کو اقوام متحدہ نے قبول نہیں کیا اور یہ اصول آج بھی موجود ہے کہ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ الحاق کی اس نا معتبر دستاویز سے نہیں ہو گا ،یہ فیصلہ عوام کے حق خود ارادیت سے ہو گا۔ دفاعی کمیٹی کے اجلاس کے اگلے روز 25 اکتوبر کووی پی مینن سری نگر پہنچے اور ان کی یہ گواہی موجود ہے کہ مہاراجہ کسی بھی قیمت پر الحاق کرنے کو تیار تھا۔ایک روز سری نگر میں گزارنے کے بعد وہ کشمیر کے وزیر اعظم مہر چند مہاجن کے ساتھ دلی واپس چلے گئے۔مہاجن وہ ذات شریف تھے جنہیںچند روز قبل وزیر اعظم بنوایا گیا اور ریڈ کلف کمیشن میں کانگریس ( بھارت) کے نمائندہ تھے۔یاد رہے کہ کشمیر کے وزیر اعظم رام چندرا کاک کو کو کانگریس کے دبائو پر معزول کر کے نظر بند کیا جا چکا تھا۔رات آٹھ بجے یہ دلی پہنچے اور وزیر اعظم صاحب سیدھے نہرو کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔نہرو نے مہاجن سے کہا کہ آپ سری نگر جائیں اور مہاراجہ سے الحاق کی دستاویز پر دستخط لے آئیں۔ وزیر اعظم صاحب اتنے خوفزدہ تھے کہ انہوں نے کشمیر جانے سے انکار کر دیا۔کیوں ؟ کیوں کہ کشمیر میں ان کا اقتدار ختم ہو چکا تھا۔ وہ حق حکمرانی کھو چکے تھے۔ ان کے خلاف بغاوت ہو چکی تھی ۔ مہاراجہ پایہ تخت سے فرار ہو چکا تھا۔ ایک عرصے تک بھارت یہ جھوٹ بولتا رہا کہ الحاق کی دستاویز ایک دن پہلے تیار کی گئی اور فوج ایک دن بعد اتاری۔ وی پی مینن کا دعوی ہے وہ 26 اکتوبر کو مہاجن کے ساتھ جموں گئے تھے لیکن اب یہ دعوی جھوٹ ثابت ہو چکا ہے۔الیسٹر لیمب سمیت متعدد مبصرین شہادت دے چکے ہیں کہ وی پی مینن بھارت سے باہر نہیں گئے تھے۔ وی پی مینن کی 26 اکتوبر کے دن کی مصروفیات کا سارا شیڈول منظر عام پر آ چکا ہے۔چھبیس تاریخ کو صبح دس بجے وہ دفاعی کمیٹی کی میٹنگ میں شریک تھے۔دستیاب ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ تین بج کر پینتالیس منٹ پر وہ جموں جانے کے لیے ایئر پورٹ گئے لیکن ان کا طیارہ اڑان نہ بھر سکا۔وہ ایئر پورٹ سے واپس آ گئے۔چنانچہ پانچ بجے وہ دہلی ہی میں موجود تھے۔جہاں ان کی ملاقات برطانوی ہائی کمیشن کے الیگزینڈر سمن سے ہوئی اور انہوں نے سمن سے کہا اب وہ الحاق کی دستاویز پر دستخط کرانے کے لیے جموں اگلے روز جائیں گے ۔اس بات کا جواب بھارت آج تک نہیں دے سکا کہ تین بج کر پینتالیس منٹ پر جو شخص دلی ایر پورٹ سے جموں روانہ ہو وہ پانچ بجے دلی کے برطانوی ہائی کمیشن میں ملاقات کیسے فرما سکتا ہے؟ ستائیس اکتوبر کی صبح 9 بجے سری نگر ایئر پورٹ پر بھارت کے ڈکوٹا جہازوں میں فوجی دستے اتر چکے تھے۔میں اپنی کتاب ’’ کشمیر: انٹرنیشنل لاء کیا کہتا ہے‘‘ میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ ’’لندن ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق جب بھارت کی فوجین سری نگر اتر چکیں تب پینن اور مہاجن جموں کی طرف روانہ ہوئے تا کہ مہاراجہ سے دستخط کروا سکیں۔اس کا اعتراف برطانوی ہائی کمیشن کے گوپل سوامی نے بھی کیا ہے۔سٹینلے والپرٹ نے Tryst with Destiny میں نہرو کا یہ اعتراف شائع کیا ہے کہ جب بھارت نے فوج سری نگر میں اتاری اس وقت تک کشمیر کا بھارت سے الحاق نہیں ہوا تھا۔یہی بات مہر چند مہاجن نے بھی اپنی کتاب Looking back میں بین السطور تسلیم کی ہے‘‘۔ ویانا کنونشن آن دی لاز آف ٹریٹیز کے آرٹیکل 49 کے مطابق ایسا ہر معاہدہ باطل تصور ہو گا جو طاقت استعمال کر کے کیا گیا ہو یا جو طاقت استعمال کرنے کی دھمکی دے کر کیا گیا ہو۔بھارت کی فوج سری نگر میں پہلے اتری ، بھارت کا قبضہ پہلے ہو ا اور الحاق کا تماشا بعد میں رچایا گیا۔قابض قوت قبضے کے بعد الحاق کی دستاویز تیار کرا بھی لے تب بھی ویانا کنونشن اس کو الحاق نہیں مانتا۔یہ واردات تھی اور واردات ہی رہے گی۔کشمیر کے مستقبل کے فیصلے کی ایک ہی قانونی شکل ہے اور وہ ہے حق خود ارادیت۔