مولانا فضل الرحمن نے مسلم لیگ کی سنی نہ پیپلز پارٹی کی مانی اور 27 اکتوبر کو آزادی مارچ کا اعلان کر دیا۔27اکتوبر کو کشمیری عوام یوم سیاہ طور کے پر مناتے ہیں یہ وہ منحوس دن ہے جب جموں و کشمیر کے راجہ ہری سنگھ نے اپنے عوام سے غداری کی‘ الحاق کی جعلی دستاویز پر دستخط کئے اور بھارت نے فوجیں بھیج کر مسلم اکثریتی ریاست پر قبضہ کیا‘ کشمیری عوام اسی باعث گزشتہ بہتر سال سے دنیا بھر میں 27اکتوبر کو یوم سیاہ مناتے ہیں‘ آج کل کشمیری عوام 1947ء کی طرح بھارتی فوج کے محاصرے میں ہیں‘ دو ماہ سے اسی لاکھ انسان وسیع و عریض جیل میں بند کھانے پینے‘ علاج معالجے اور اپنے پیاروں کے ساتھ رابطوں کو ترس رہے ہیں مولانا نے عمران خان کی حکومت کے خلاف آزادی مارچ اور اسلام آباد کے محاصرے کا اعلان کیا ہے اور دن بھی وہی مقرر کیا ہے جو بھارتی حکومت نے سرینگر کے محاصرے اور جموں و کشمیر پر قبضے کے لئے چُنا تھا۔ دعویٰ ان کا یہ ہے کہ 15لاکھ افراد وفاقی دارالحکومت کا محاصرہ کریں گے اور عمران خان کو ایوان اقتدار سے نکال کر دکھائیں گے۔ پیپلز پارٹی مولانا فضل الرحمن کے منصوبے پر معترض تھی‘ وہ 2014ء میں جس اصول کے تحت عمران خان کے دھرنے کی مخالف تھی یعنی عوامی لشکر کشی کے ذریعے منتخب حکومت کا خاتمہ‘ اسی اصول کی بنا پر مولانا کے لانگ مارچ کے حق میں نہیں‘ بلاول بھٹو اتمام حجت کے لئے مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور لانگ مارچ کی تاریخ آگے لے جانے پر اصرار کیا‘ یہی درخواست میاں شہباز شریف ایک روز قبل کر چکے تھے مگر مولانا نے دونوں کو حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کا فرستادہ اور پیادہ سمجھ کر صاف جواب دیدیا‘ یہ بھی کہا کہ آپ کو نومبر اتنا ہی عزیز ہے تو ہمارے ساتھ چنددن بعد شامل ہو جانا مگر 27اکتوبر کی تاریخ اٹل ہے۔ کیوں اٹل ہے؟ اپنی پریس کانفرنس میں انہوں نے بتایا نہیں‘ سولو فلائٹ کا شوق یا جموں و کشمیر پر بھارتی قبضے کی تاریخ سے خاصی دلچسپی؟ مولانا کے بعض ازلی ناقدین تو ان کی سرگرمیوں کے ڈانڈے جمعیت علماء ہند کے قائدین کی سوچ سے ملاتے ہیںجو 5اگست کے بعد مسلسل برملا کہہ رہے ہیں کہ مودی کا اقدام سو فیصد درست ہے‘ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ اور کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی سراسر بغاوت ہے ۔میں مولانا سے اس حد تک بدگمان نہ تھا مگر 5اگست کے بعد سے اب تک مولانا کا طرز عمل ان کے نیاز مندوں کے حسن ظن کو سوئے ظن میں بدل رہا ہے مولانا اور ان کے مصاحبین و مداحین کو معلوم نہیں کیوںاتنی دلچسپی جموں و کشمیر میں کرفیو کے خاتمے سے نہیں‘ جتنی جلدی عمران خان کی حکومت کا تیا پانچہ کرنے سے ہے‘ ایک ایسا پاکستانی حکمران جس نے کشمیریوں‘کی آزادی کا علم استقامت سے اٹھا رکھا ہے‘ جو جنرل اسمبلی میں کھڑے ہو کر اسلام‘ مسلمانوں ‘پاکستان اور کشمیری عوام کا دفاع اور امریکہ و یورپ کو سرور کائنات حضرت محمد ﷺ کی عزت و ناموس کے احترام کی تلقین کرتا ہے اور مہاتیر محمد و طیب اردوان سے مل کر ایک ایسا بین الاقوامی ٹی وی چینل قائم کرنے کا خواہش مند ہے جو اسلامو فوبیا کا مقابلہ کر سکے۔ میاں شہباز شریف کے بارے میں یہ اطلاع اگر درست ہے کہ انہوں نے مولانا کے مارچ میں شرکت یا قیادت سے انکار کر دیا ہے تو یہ ان کا دانشمندانہ فیصلہ ہے‘ پہلی بار میاں شہباز شریف نے برادر بزرگ کی بچگانہ ضد اور خلاف مصلحت فیصلے کے آگے ہتھیار ڈالنے کے بجائے جماعت اور خاندان کو معقولیت کی راہ دکھائی ورنہ ان کے بارے میں ہر سطح پر یہ تاثر پختہ سے پختہ تر ہو گیا تھا کہ مسلم لیگ میں ان کی حیثیت قائد یا صدر کی نہیں تابع مہمل کی ہے میاں نواز شریف کو مریم نواز‘ پرویز رشید وغیرہ جو پٹی پڑھا دیں‘ وہی جماعت کی پالیسی قرار پاتی ہے اور میاں شہباز شریف نجی محفلوں میں جو بھی کہیں برادر بزرگ کے روبرو ’’یس سر‘‘ کے سوا کچھ نہیں کہہ پاتے۔ چودھری نثار علی خاں اور وہ کسی سے جو بھی عہد و پیمان کریں‘ کبھی ایفا نہیں کرپاتے‘ عام انتخابات سے پہلے ان کی ساکھ مقتدر حلقوںمیں خراب ہوئی‘الیکشن کے بعد خاندان اور جماعت کے اندر بھی مشکوک ہو گئے و شبہات نے جنم لیا‘ اپنے خاندان کو ابتلا سے بچانے کے لئے‘ انہوں نے جو جدوجہد کی وہ اس بنا پر غارت گئی کہ برادر بزرگ کو اعتبار تھا نہ ان قوتوں کو جو ریلیف دینے یا دلوانے کی پوزیشن میں تھیں۔ مولانا فضل الرحمن نے یکطرفہ طور پر آزادی مارچ کی تاریخ دیکر دونوں جماعتوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے‘ عام لوگ مہنگائی اور دونوں سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنے لیڈروں کی گرفتاریوں سے برہم ہیں دونوں سیاسی جماعتوں نے دوران اقتدار اپنے کارکنوں کو سرکاری وسائل پر عیش کرائی ‘ تھانے کچہری میں من مانی کا موقع دیا اور گلی محلے میں چودھراہٹ کا نشہ لگایا‘ وہ بھولنا آسان ہے نہ احتجاجی تحریک کا بگل بجنے کے بعد کسی پرجوش سیاسی کارکن کا گھر میں بیٹھے رہنا سہل۔ کہتے ہیں کہ جس طرح حضرت بلھے شاہ اور شاہ بھٹائی کے ملنگ ڈھول کی تھاپ سن کر اپنے آپ کو رقص سے روک نہیں سکتے ‘بالکل اسی طرح پرجوش سیاسی کارکن جلوس دیکھ کر بے قابو نہ ہو تو وہ حقیقی سیاسی کارکن نہیں نوسر باز ہے۔ لیکن ان جماعتوں نے اپنی صفوں میں حقیقی سیاسی کارکن رہنے کتنے دیے؟ تاریخ مقرر ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ان لیڈروں کی قلعی بھی کھلنے والی ہے۔ مولانا اور طاقتور حلقوں کو الگ الگ اپنے تعاون اور وفاداری کا یقین دلاتے رہے‘ درون خانہ ملاقاتوں میں آزادی مارچ سے لاتعلق ظاہر کرکے اور مولانا کو کم’’چک کے ‘‘رکھو کا پیغام دیتے ہیں۔ باغباں بھی خوش رہے ‘ راضی رہے صیاد بھی۔سولو فلائٹ کا سب سے زیادہ نقصان مولانا کو ہو گا کہ موجودہ علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں ریاست ‘اسلام آباد کی سڑکوں پر دینی مدارس کے طلبہ اور باریش‘ عمامہ پوش مذہبی کارکنوں کی موجودگی کا رسک نہیں لے سکتی جبکہ مولانا اور ان کے بیشتر ساتھی عمران خان اور ان کے ’’ساتھیوں‘‘ کے بارے میں کم و بیش وہی زبان استعمال کر رہے ہیں جو علامہ خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری نے کی اور عزت سادات گنوائی۔ ریاست اور حکومت اس وقت امریکہ‘بھارت ‘ افغانستان کے دبائو کا مقابلہ کر رہی ہے مسئلہ کشمیر نے ملکی قیادت کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں‘ اسلام آباد میں امریکہ طالبان مذاکرات کا احیا ہو رہا ہے اور کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کی شرارتیں بڑھ گئی ہیں۔ مگر مولانا اسلام آباد کا سکون برباد کرنے پر مُصر ہیں‘ عمران خان کا دور حکومت سب سے زیادہ شریف خاندان اور زرداری خاندان کے لئے ابتلا کا باعث بنا میاں صاحب صاحبزادی اور آصف علی زرداری صاحب ہمشیرہ سمیت جیل میں ہیںمگر حکومت کے خاتمے کی جلدی مولانا کو ہے‘ جو بات میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو کو سمجھ آ رہی ہے وہ مولانا کو کیوں نہیں؟ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا‘ مولانا کی استقامت کے پیچھے کون ہے؟ یہ اہم سوال ہے‘ عمران خان اور ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کرکھڑے اسٹیبلشمنٹ کے سرخیل اپنی صفوں کا سنجیدگی اور باریک بینی سے جائزہ لیں یا کسی بیرونی عنصر کی مداخلت کے امکان پر غور کریں وہ عنصر جو عمران خان سے خوش ہے نہ فوجی قیادت سے۔ افغانستان سے امریکہ کا انخلا بھارت کی پسپائی ‘عالمی فورم پر رسول اللہ ﷺ کی حرمت و ناموس ‘مسلمانوں اور کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ اور اسلامو فوبیا کے خلاف جہاد کا علم بلند کرنے والی قیادت کس کس کے لئے ناقابل برداشت ہے؟ یہ کوئی سربستہ راز نہیں۔ عیاں راچہ بیاں27اکتوبر دور ہے نہ سیاسی و مذہبی تحریک کے مقاصد زیادہ دیر تک مخفی رہ سکتے ہیں۔ مولانا بلف کھیل رہے ہیں یا واقعی انہیں کسی نے یقین دہانی کرائی ہے؟ چند روز میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ عمران خان کو بھی 27اکتوبر سے پہلے اپنے نااہل مشیروں سے چھٹکارا پانا ہو گا کہ ان کی نالائقی دیکھ کر مخالفین کے منہ میں پانی بھر آتاہے۔