خبر یہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے’’مدینہ منورہ ‘‘شہرِ رسول ﷺ کو دنیا کا صحت مند ترین شہر قرار دیاہے۔نیوز اینکرکی گرم جوشی سے یوں لگا، جیسے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کسی بڑی فیاضی کا مظاہرہ کردیا،حالانکہ معاملہ تو اس کے برعکس ہے، ۔۔۔امرِ واقعہ تو یہ ہے کہ ڈبلیو ایچ او کو اس حقیقت تک پہنچنے میں بڑا وقت لگ گیا،اقبالؔ نے تقریباً ایک سو سال پہلے کہہ دیا تھا : خاکِ طیبہ از دو عالم خوشتر است وے خنک شہرے کہ آنجا دلبر است یعنی :مدینہ منورہ کی خاک دونوں جہانوں سے پیاری ہے، کیسا راحت پہنچانے والا ہے وہ شہر، جہاں محبوب آرام فرما رہے ہیں۔ آپؒ اسرارِ خودی میں اسی مقام پر مزید فرماتے ہیں: فرخا شہرے کہ تو بودی درآں خوشتراں خاکے کہ آسودی دراں اے پناہِ من حریم کوئے تو من بامیدم رسیدم سوئے تو اس شہر کا قدیم نام’’یثرب‘‘تھا،جس میں تکلیف،شدّت اور فساد کا مفہوم تھا۔یہاں کی آب وہوا مضرصحت،یہ بستی بخار اور متعدی بیماریوں کی آماجگاہ،وباؤں اور آفات کا مسکن۔۔۔نہ پانی خوش ذائقہ اورنہ فضا و ہواخوشگوار۔پھر یوں ہوا کہ رحمت کونین ﷺنے قدم رنجہ فرمایا اور اس بستی کا مقدر ہی سنور گیا۔۔۔اورپھر یہ قریہ۔۔۔ یثرب سے’’مدینۃ الرسولﷺ‘‘ کے معزز و مکرم نام سے موسوم ہوگیا،صرف نام ہی نہیں بدلا۔۔۔گویا آب و ہوا بھی رنگ ونور کے سانچوں میں ڈھل گئی،پھر نبی اکرم ﷺ نے اس شہر کو یثرب کے پرانے نام سے یاد کرنے کی ممانعت فرما دی،حضرت ابنِ عباس ؓ سے روایت ہے،کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: " لَا تَدْعُوْھَا یَثْرِبَ فَاِنَّھَا طَیْبَۃٌ" یعنی’’اس شہر کو یثرب نہ کہو،کیونکہ یہ تو’’طیبہ‘‘ہے‘‘۔ حضرت براء بن عازبؓ کے مطابق،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’جو شخص مدینہ کو یثرب کہے،وہ اپنی اس غلطی پر،اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے،یہ تو طابہ ہے، یہ تو طابہ ہے،یہ تو طابہ ہے‘‘طَابَۃٌ کا معنی’’پاکیزہ‘‘۔ علماء محققین نے اس شہرِ رسول ﷺ کے پچانویں نام تحریر کیے ہیں،جن میں حَرَمُ رَسُولِ اﷲ،طَیِّبۃٌ ،اَلْمدِیْنَۃُ طَیْبَۃٌ،اَلْمُبَارَکَۃُ،اَلْغَرَّأُ،اَلْمَعْبُوبَۃُ طَابَۃٌ۔ نبی اکرم ﷺ کو اس شہر سے بے پایاں محبت تھی،جب سفر سے واپس تشریف لاتے اور مدینہ کے درودیوار دکھائی دیتے، تو حضور ﷺ اپنی سواری کو تیز کر دیتے اور یوں دُعا مانگتے ہوئے اس میں داخل ہوتے:’’اے اللہ! اس شہر کو ہمارے لیے قرار گاہ بنا دے اور ہمیں خوبصورت رزق عطا فرما‘‘۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے یہ شہر مختلف وبائی امراض کی آماجگاہ تھی،اس کا پانی بدمزہ اور بدبودار ،جس سے صحابہ کرامؓ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو گئے۔ آپ فرماتی ہیں کہ میرے والد حضرت ابوبکر صدیقؓ ، عامر بن فہیرہ اورحضرت بلالؓ ایک ہی مکان میں رہتے تھے، تو انہیں بخار آنے لگا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے ان کی عیادت کے لیے اجازت طلب کی ، ابھی پردے کے احکام نازل نہ ہوئے تھے، اذنِ رسول ﷺ کے ساتھ، میں ان کی عیادت کے لیے ، ان کے پاس گئی، میں نے دیکھا کہ وہ شدید قسم کے بخار میں مبتلا ہیں۔ میں نے اپنے والدِ گرامی کی مزاج پرسی کی اور طبیعت دریافت کی۔ آپ ؓ نے فرمایا:’’ہر آدمی اپنے اہلِ خانہ کے پاس صبح کرتا ہے اور اس کے جوتی کے تسمہ سے زیادہ موت اس کے قریب ہوتی ہے‘‘۔ میں نے محسوس کیا کہ والدِ ماجد غشی کی حالت میں ہیں، میں نے عامر بن فہیرہ کو دیکھا تو وہ کہہ رہے تھے:’’میں نے موت چکھنے سے پہلے ہی موت کو پالیا، بزدل کی موت۔۔۔ اس کے اوپر سے آتی ہے ، ہر آدمی اپنی طاقت کے مطابق کوشش کرتا اور بیل اپنے سینگ سے اپنی جلد کی حفاظت کرتا ہے‘‘، میں جان گئی کہ وہ بھی بے ہوشی میں بول رہے ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت بلال کا بخار جب اُترتا ، تو وہ مکان کے صحن میں آ کر لیٹ جاتے پھر بلند آواز میں یہ شعر پڑھتے (ترجمہ): ’’اے کاش کبھی وہ وقت بھی آئے کہ میں وادی میں رات بسر کروں اور میرے اردگرد اذخر اور جلیل کے خوشبو دار گھاس ہوں، کیا کبھی ایسا ہوگا کہ میں مجنہ کے چشمے پر وارد ہوں گا؟ اور میں ایسی جگہ اتروں گا جہاں شامہ اور طفیل کی پہاڑیاں نظر آ رہی ہوں گی‘‘۔ حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے سارا ماجرا بارگاہِ رسالت ﷺ میں عرض کیا ، تو حضور ﷺ نے دعا فرمائی: (ترجمہ)’’اے اللہ ! مدینہ کو ہمارے لیے اسی طرح محبوب بنا دے ، جس طرح تو نے مکہ کو ہمارے لیے محبوب بنایا تھا ، بلکہ اس سے بھی زیادہ ، اور اس کی آب و ہوا کو صحت بخش بنا دے اور ہمیں اس کے پیمانوں اور وزنوں میں برکت عطا فرما، اور اس کی وبا کو جحفہ کی طرف منتقل کردے‘‘ (صحیحین) حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’میں نے ایک سیاہ رنگت والی عورت کو دیکھا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے، وہ مدینہ سے نکل کر معیھہ میں جا کر اُتری ۔ پھر فرمایا: میں نے اس خواب کی یہ تاویل کی کہ مدینہ کی وبا معیھہ میں منتقل ہو گئی ہے‘‘۔ امام بخاری ؒ اور مسلمؒ نے یہ روایت نقل کی کہ’’اے اللہ! جو برکت تو نے مکہ کو دی ، اس سے دُوگنی برکت مدینہ کو عطا فرما‘‘۔ ’’حرمِ نبوی‘‘کے حوالے سے یہ فرمان انتہائی اہم ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :’’ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم بنایا، میں مدینہ کو حرم بناتا ہوں‘‘۔ اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دُعا فرمائی : ’’اے اللہ تیرے بندے اور تیرے خلیل ابراہیم علیہ السلام نے اہلِ مکہ کے لیے برکت کی دعا کی تھی، اور میں تیرا بندہ اور تیرا رسول محمد ﷺ اہلِ مدینہ کے لیے دعا کرتا ہوں، تو ان کے پیمانوں اور وزنوں میں برکت عطا فرما ، جس قدر برکت تو نے اہل مکہ کو عطا فرمائی، اور اس برکت کے ساتھ دو مزید برکتوں کا اضافہ فرما‘‘۔ اہل مدینہ کا معمول تھا کہ جب ان کے باغوں میں پہلا پھل پکتا ، تو اسے لے کر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کرتے ، حضور ﷺ اس پھل کو لے کر اپنی مبارک آنکھوں پہ رکھتے اور پھر اس کے لے دُعا کرتے۔ یہ شہر نبی اکرم ﷺ کی دُعاؤں اور وجودِ سعید کے سبب دجال اور طاعون سے محفوظ کر دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مدینہ میں داخل ہونے والے راستوں پر اللہ تعالیٰ نے فرشتے مقرر کر دیئے ہیں ، جو ان کی نگہبانی کرتے ہیں، نہ اس میں طاعون داخل ہو گا ، اور نہ دجال‘‘۔ نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو مدینہ منورہ میں سکونت پذیر ہونے کی رغبت دلائی، حضور ﷺ نے متعدد ارشادات میں فرمایا یمن فتح ہوگا، عراق فتح ہوگا، دیگر ممالک فتح ہوں گے، لوگ بکثرت ان مفتوحہ علاقوں میں جا کر آباد ہوں گے، لیکن در حقیقت ان کا مدینہ منورہ میں قیام ان کے لیے بہتر ہوگا۔ ٭٭٭٭