سویا ہوا تھا شہر تو بیدار کون تھا سب دم بخود تھے ایسا خطار کون تھا باقی ہمیں بچے تھے سو نظروں میں آ گئے ہم جیسوں کا وگرنہ خریدار کون تھا بیداری سب کا مقدر نہیں ہوتی۔ اس کا تعلق نہ نیند کے ساتھ ہے اور نہ خواب کے ساتھ۔یہ فکر مندی ہے اور انداز زندگی کہ سونے والوں کو برے ہیں یہ جگانے وائے۔ میں کچھ اور تحریر کرنے بیٹھا تھا کہ ڈاکٹر کاشف رفیق کی ایک پوسٹ نے مجھے متوجہ کیا تو میں نے اپنا اولین فرض جانا کہ اس پر فوراً اپنا ردعمل دوں اور وزیر اعظم تک اگر بات پہنچ سکے تو لکھ دوں۔اس نے اپنی تحریر کا عنوان رکھا ہے ’’میرا قاتل کون‘‘ ظاہر ہے میرے لئے یہ چونکا دینے والی بات تھی کہ اس ہونہار ڈاکٹر کو میں اچھی طرح جانتا ہوں وہ نہایت ذہین فطین اور وضعدار نوجوان ہے اس پر مستزاد ایک حساس شاعر بھی۔ وہ تب سے میرے پاس آتا جب مظفر آباد میں ایم بی بی ایس کر رہا تھا اس کے والد گرامی پرنسپل تھے اس کی پوسٹ کا خلاصہ مجھے محسن احسان کا شعر یاد کروا گیا: امیر شہر نے کاغذ کی کشتیاں دے کر سمندروں کے سفر پر کیا روانہ ہمیں وہ بھی دوسرے ڈاکٹروں کی طرح ہسپتال میں کرونا کے مریضوں کے علاج پر مامور ہے اور فطری بات ہے کہ اسے اس مقصد کے لئے حفاظتی سازو سامان کی ضرورت ہے مگر وہاں کی بے سروسامانی نے اسے پریشان کر دیا ہے۔ وہ پہلا ڈاکٹر ہرگز نہیں جس نے اپنے سے انداز میں اپنا رونا رویا ہے یا بپتا بیان کی ہے۔ اس سے پہلے معروف ای این ٹی سرجن ڈاکٹر ناصر قریشی نے مجھے بتایا تھا کہ وہ کرونا کے خلاف بے تیغ ہی جنگ میں جھونکے جا رہے ہیں مقصد یہ تھا کہ میں ارباب اختیار تک بات پہنچائوں مگر ایک روز بعد ہی انہوں نے بتایا کہ حکومت نے سب کچھ مہیا کرنے کا وعدہ کر لیا ہے۔ میں نے لکھنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔ یا پھر غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا۔ اب کاشف رفیق کی پوسٹ پڑھی تو تشویش لاحق ہوئی ظاہر ہے ڈاکٹر کاشف رفیق کی ساری پوسٹ تو میں نقل نہیں کر سکتا وہ لکھتا ہے۔ میں ڈاکٹر ہوں جو حالات پیدا ہوئے ہیں ان میں اس بات کا 99فیصد امکان ہے کہ ڈاکٹر اسامہ کی طرح میں بھی مارا جائوں اور سوال یہ پیدا ہوتا کہ میرے قتل کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی میرے ورثاء کس پر ایف آئی آر کٹوائیں گے!ایک تو وہ لوگ ہیں جو حکومت کی ہدایات نظر انداز کر کے کرونا کے پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔حکومت وقت جس نے ماہرین کے پرزور مطالبے کے باوجود تاخیر سے حفاظتی اقدام کئے۔ ارباب اختیار جنہوں نے حفاظتی کٹ کے بغیر مجھے اس کام پر مامور کیا۔ سب سے اولین بات تو دعا ہے کاشف رفیق اور ان تمام ڈاکٹروں کے لئے جو قوم کے افراد کو کرونا سے بچانے کے لئے اپنی زندگیاں دائو پر لگائے ہوئے ہیں۔ دوسرا ہماری پر زور درخواست ہے وزیر اعظم سے کہ فی الفور کٹس اور دوسرے حفاظتی انتظامات یقینی بنائیں کہ ڈاکٹرز ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں۔ خان صاحب اپنی ترجیحات بدلیں۔سپاہیوں کو پہلے اسلحہ فراہم کریں۔ خاص طور پر وہ لوگ خدا کا خوف کریں جو ڈاکٹرز کی ان جائز اور ضروری مطالبات پر ان کے خلاف باتیں کرتے ہیں یہ ڈاکٹرز کے حوصلے پست کرنے والی باتیں قوم سے بھی دشمنی ہے۔ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ میں نے ڈاکٹر اسامہ کی آخری گفتگو خود سنی ہے وہ بھی یہی تلقین کر رہا تھا کہ لوگ کرونا کو ہرگز مذاق نہ سمجھیں۔لوگ استغفار اور توبہ تائب ہوں۔ اس کی باتوں میں بہت کرب اور تشویش تھی کہ لوگ ہنسی مذاق میں وقت کھو رہے ہیں۔اب بھی وقت ہے کہ اپنے آپ کو علیحدہ کر لیں دوسروں کو محفوظ کرنا آپ کے ہاتھ میں ہے۔ پوٹن نے درست کہا تھا کہ پندرہ دن گھر میں یا پھر پانچ سال جیل میں۔ حقیقت سے آنکھیں ہرگز نہیں چرانی چاہئیں اپنی تدبیر تو کریں اور پھر اللہ پر توکل کریں کہ وہ سب کچھ پلٹا دے۔ مسکراتے اورہنستے ہوئے موسم پھر پلٹ آئیں۔ بہرحال آدھی جنگ تو اعتماد اور صحیح فیصلوں سے جیتی جاتی ہے اگر کچھ غلط ہو گیا جیسا کہ زلفی بخاری کے حوالے سے کہا جا رہا ہے اسے فرقہ واریت کی طرف لے کر نہیں جانا چاہیے کہ اصل مسئلے سے توجہ ہٹ جائے۔ اب پھیلتی وبا کو روکنا ہے جس کے لئے ہمارا سمٹ جانا ازبس ضروری ہے کہ ہر کوئی کرونا کا ’’پوسٹ‘‘یعنی میزبان ہونے سے بچے۔ ہمارے بہت پیارے کالم نگار اور اینکرز بھی سوچیں کہ وہ خان صاحب کو زچ کرنے کی بجائے اچھے مشورے دیں۔ میں نے گفتگو خود سنی۔ اللہ جانتا ہے کہ اس میں اصلاح یا مشورہ کم تھا تنقید اور چھیڑ چھاڑ زیادہ تھی۔ وقت اس چیز کی اجازت نہیں دیتا۔ پھر سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے نوجوان بھی گالیوں سے پرہیز کریں اللہ کی طرف یکسو ہوں کہ وہی بلائوں اور وبائوں کو ٹالنے والا ہے۔ نوجوان بہت زیادہ مددگار ثابت ہو سکتے ہیں جیسا کہ خان صاحب کہہ رہے تھے کہ ان کے ٹائیگرز غریبوں کے گھروں تک اسباب پہنچائیں گے خواتین بھی پیچھے نہیں ہیں کہ گھر کا نظام تو انہوں نے چلانا ہے وہ عبادت گزار بھی ہیں۔ابھی میں ہماری سابقہ ایم پی اے بشریٰ حزیں کا شعر دیکھ رہا تھا: اس قدر توفیق توبہ کی ملی ہے باوضو رہنے کی عادت ہو گئی ہے ہماری آسناتھ کنول نے بھی خوب شعر کہا ہے: اب گفتگو بھی فاصلوں کی زد میں آ گئی یہ دوریاں ضروری ہیں جینے کے واسطے آخر میں مجھے ڈاکٹر افتخار بخاری کی زبردست کاوش کو خراج تحسین پیش کرنا ہے اور ان کا یہ عمل ہم جیسوں کے لئے رول ماڈل ہے۔ انہوں نے اپنے گائوں کو کورنٹائن کیا ہے۔ گائوں کی 6ہزار آبادی ہے۔ اس گائوں میں جو آئے گا اسے پہلے کورنٹائن میں رکھا جائے گا وہاں تین ڈاکٹرز ہیں چھوٹی سی لیب بھی بنائی ہے۔ انفرادی سطح پر یہ ایک اچھی کاوش ہے۔ڈاکٹر افتخار بخاری شاعر اور دانشور ہیں انہوں نے ایک اچھا شہری اور ذمہ دار پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ ہمارے لوگ بہت اچھے ہیں۔ بس ذرا سی انہیں یاد دہانی کی ضرورت ہے۔ اقبال کے بقول: نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی