جان کی امان پائوں توعرض کروں کہ زندگی کی حقیقت کچھ نہیں ‘اقتدار کی ناپائیداری اور سیاست کی بے رحمی واضح ہو چکی ہے۔ محض ’’ خواب ‘‘ کے زور اور طفل تسلیوں سے دل کو حوصلہ کیا دیا جا سکتا ہے ؟جس کے بارے اب خلق خدا امیدیں باندھ چکی ہے ۔چودہ صدیاں پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو منظر دگر نظر آتاہے۔تب اسلام اس کرئہ ارض کا مقدر بن کرابھرا تھا۔ عرب میں اس کی روشنی چہار سو پھیلی تو قبائل جوق در جوق اسلام کی آغوش میں آنے لگے ،چھوٹی بڑی ریاستیں تسخیر ہونے لگیں۔تب اﷲ نے اپنے نبی ﷺ کو بشارت دی ۔ آپ نے حج کا ارادہ فرمایا تو اطراف عرب سے مسلمانوں کا جم غفیر امڈ پڑا۔ آپﷺ کی زندگی کا یہ پہلا اور آخری حج تھا جس میں آپ نے انسانوں اور ریاستوں کے لیے ایک منشور ارشاد فرمایااورقیامت تک کے لیے اس دین کی تکمیل کا اعلان کر دیا ۔ریاست مدینہ کا منشور!!عرفات کا میدان ہے اور کم وبیش ایک لاکھ بیس ہزار صحابہ کرام۔آپ ﷺ نے انہیں مخاطب کیا۔ ’’سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہم اسی کی حمد کرتے ہیں۔ اسی سے مدد چاہتے ہیں۔ اس سے معافی مانگتے ہیں۔ اسی کے ہاں توبہ کرتے ہیں اور ہم اللہ ہی کے ہاں اپنے نفس کی برائیوں اور اپنے اعمال کی خرابیوں سے پناہ مانگتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے تو پھر کوئی اسے بھٹکا نہیں سکتا اورجسے اللہ گمراہ کر دے اس کو کوئی راہ ہدایت نہیں دکھا سکتا۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد ﷺاس کا بندہ اور رسولﷺ ہے۔ اللہ کے بندو! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی تاکید اور اس کی اطاعت پر زور طور پر آمادہ کرتا ہوں اور میں اسی سے ابتدا کرتا ہوں جو بھلائی ہے۔لوگو! میری باتیں سن لو مجھے کچھ خبر نہیں کہ میں تم سے اس جگہ پر اس سال کے بعد پھر کبھی ملاقات کر سکوں۔ہاں جاہلیت کے تمام دستور آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر ، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں ‘ مگر تقویٰ کے باعث، خدا سے ڈرنے والا انسان مومن ہوتا ہے اور اس کا نافرمان شقی۔ تم سب کے سب آدم کی اولاد ہو اور آدمی مٹی سے بنے تھے۔ ’’لوگو! تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسی حرام ہیں جیسا کہ تم آج کے دن کی اس شہر کی اور اس مہینے کی حرمت کرتے ہو۔ دیکھو عنقریب تمہیں خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال فرمائے گا۔ خبردار میرے بعد گمراہ نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہو۔ جاہلیت کے قتلوں کے تمام جھگڑے میں ملیامیٹ کرتا ہوں۔ پہلا خون جو باطل کیا جاتا ہے وہ ربیعہ بن حارث عبدالمطلب کے بیٹے کا ہے۔ (ربیعہ بن حارث آپ کا عم زاد بھائی تھا جس کے بیٹے عامر کو بنو ہذیل نے قتل کر دیا تھا) اگر کسی کے پاس امانت ہو تو وہ اسے اس کے مالک کو ادا کر دے اور اگر سود ہو تو وہ موقوف کر دیا گیا ہے۔ ہاں تمہارا سرمایہ مل جائے گا۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ اللہ نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ سود ختم کر دیا گیا اور سب سے پہلے میں عباس بن عبدالمطلب کا سود باطل کرتا ہوں۔ ’’لوگو! تمہاری اس سرزمین میں شیطان اپنے پوجے جانے سے مایوس ہو گیا ہے لیکن دیگر چھوٹے گناہوں میں اپنی اطاعت کئے جانے پر خوش ہے اس لیے اپنا دین اس سے محفوظ رکھو۔اللہ کی کتاب میں مہینوں کی تعداد اسی دن سے بارہ ہے جب اللہ نے زمین و آسمان پیدا کئے تھے ان میں سے چار حرمت والے ہیں۔ تین (ذیقعد ذوالحجہ اور محرم) لگا تار ہیں اور رجب تنہا ہے۔‘‘’’لوگو! اپنی بیویوں کے متعلق اللہ سے ڈرتے رہو۔ خدا کے نام کی ذمہ داری سے تم نے ان کو بیوی بنایا اور خدا کے کلام سے تم نے ان کا جسم اپنے لیے حلال بنایا ہے۔ تمہارا حق عورتوں پر اتنا ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی غیر کو نہ آنے دیں لیکن اگر وہ ایسا کریں تو ان کو ایسی مار مارو جو نمودار نہ ہو اور عورتوں کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کو اچھی طرح کھلاؤ ، اچھی طرح پہناؤ۔‘‘ تمہارے غلام تمہارے ہیں جو خود کھاؤ ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ۔خدا نے وراثت میں ہر حقدار کو اس کا حق دیا ہے۔ اب کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں۔ لڑکا اس کا وارث جس کے بستر پر پیدا ہو، زناکار کے لیے پتھر اوران کا حساب خدا کے ذمہ ہے۔عورت کو اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر لینا جائز نہیں۔ قرض ادا کیا جائے۔ عاریت واپس کی جائے۔ عطیہ لوٹا دیا جائے۔ ضامن تاوان کا ذمہ دار ہے۔مجرم اپنے جرم کا آپ ذمہ دار ہے۔ باپ کے جرم کا بیٹا ذمہ دار نہیں اور بیٹے کے جرم کا باپ ذمہ دار نہیں۔اگر کٹی ہوئی ناک کا کوئی حبشی بھی تمہارا امیر ہو اور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو۔لوگو! نہ تو میرے بعد کوئی نبی ہے اور نہ کوئی نئی امت پیدا ہونے والی ہے۔ خوب سن لو کہ اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور پنجگانہ نماز ادا کرو۔ سال بھر میں ایک مہینہ رمضان کے روزے رکھو۔ خانہ خدا کا حج بجا لاؤ۔’’میں تم میں ایک چیز چھوڑتا ہوں۔ اگر تم نے اس کو مضبوط پکڑ لیا تو گمراہ نہ ہوگے وہ کیا چیز ہے؟ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ۔‘‘اس جامع خطبے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’لوگو! قیامت کے دن خدا میری نسبت تم سے پوچھے گا تو کیا جواب دو گے؟ صحابہ نے عرض کی کہ ہم کہیں گے کہ آپ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا اور اپنا فرض ادا کر دیا‘‘۔ آپ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور فرمایا۔’’اے خدا تو گواہ رہنا‘‘۔ ’’اے خدا تو گواہ رہنا‘‘ اے خدا تو گواہ رہنا اور اس کے بعد آپ نے ہدایت فرمائی کہ جو حاضر ہیں وہ ان لوگوں کو یہ باتیں پہنچا دیں جو حاضر نہیں ہیں۔ نئے زمانے میں پرانے منشور کا احیاء آج کے مسائل کا حل ہے۔ نجی زندگی وراثت ‘ معاشرت ‘ آج کی سسکتی انسانیت اور جبر تلے پستے مالو‘ ساجھے ‘ گامے اور پھیجے کے لیے یہی منشور چاہیے ۔جان کی امان پائوں تو عرض کروں کہ شرافت کی سیاست کا تقاضا ہے کہ اس منشور اعظم کی طرف لوٹ آئیں ۔ لوٹ آئیں اس سے قبل کہ ناپائیدار سیاست کے گھوڑے کی رکاب میں رکھے پائوں پھسل جائیں اور ہم رب کی طرف لوٹ جائیںکہ وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔۔یہ منشور ان کا ہے جو حقیقی ’’تبدیلی ‘‘ لانے کے خواہش مند ہیں۔