بات تو تب بنتی ہے جب میں اسے عمران خان کی غلطیاں کہہ کر پکاروں مگر میرا دماغ بھی ذرا ٹیڑھا ہے اس لیے میں شروع ہی میں عمران خان کی چند اچھی باتیں کہہ کر پکار رہا ہوں۔ کیا ہوا دنیا اسے دوسرے نام سے پکارتی ہے۔ ابھی کل کلاں ہی کو عمران نے اسامہ بن لادن کو شہید کہہ دیا تھا۔ دنیا پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ اس ملک میں ان لوگوں کی کمی نہیں جو اسامہ کو مجاہد سمجھتے ہیں اور امریکیوں کے ہاتھوں جس طرح اس کی موت واقع ہوئی اس کی مذمت کرتے ہیں۔ عمران کو اس پر پسپائی اختیار کرنا پڑی کیونکہ پاکستان نے سلامتی کونسل پر دستخط کر کے افغان طالبان اور القاعدہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ ادھر اہل ایمان پوچھتے ہیں کہ ذرا بتائیے تو سہی کہ طالبان کیسے دہشت گرد ہوئے۔ وہ ایک ملک کے قانونی حکمران تھے۔ وہاں انہوں نے غیر معمولی کام کئے۔ پورے ملک سے منشیات کی کاشت ختم کردی حالانکہ یہ ان کی معیشت تھی۔ ہتھیاروں کا خاتمہ کردیا حالانکہ اس ملک کا ہر شہری اپنے ساتھ ہتھیار رکھتا تھا۔ ملک میں اسلامی قوانین نافذ کردیئے‘ ان کے کابل پر قبضے سے پہلے ہر کوئی ان کا حامی تھا۔ اتنا حامی ہے کہ پاکستان‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات نے اس حکومت کو قانونی حکومت کے طور پر تسلیم کرلیا مگر امریکہ آخری لمحے میں ذرا بدک سا گیا۔ ان کی قانونی حکومت طاقت کے زور پر ان سے چھین لی گئی تھی۔ ان سے مطالبہ تھا کہ اسامہ بن لادن کو ان کے حوالے کیا جائے کہ یہ نائن الیون کا ذمہ دار ہے حالانکہ تاریخ کو اب تک اس دعوے کو ثابت کرنا ہے جو الزام بھی لگائے گئے وہ اہل مغرب کے لگائے ہوئے ہیں۔ القاعدہ کیا تھی‘ ایک ایسی تنظیم جو غیر افغان تھے اور افغانیوں کی سامراجیوں کے خلاف مدد کر رہے تھے۔ امریکہ کہتا تھا اسے ہمارے حوالے کرو۔ افغانی کہتے تھے ہم اپنے مہمانوں کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرتے۔ امریکہ نے افغانستان کو ادھیڑ کا رکھ دیا۔ اسامہ یہاں پاکستان میں رہتا تھا‘ امریکہ کا بھی چہیتا تھا‘ اس نے روسی سامراج کی شکست میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ مجھے یاد ہے ایک بار ہمارے ایک عالم دین سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ یہ جوان پشاور میں فلاں جگہ رہتا تھا۔ کراچی میں ابتدائی دنوں میں پاکستان چوک پر اس کی رہائش گاہ تھی۔ سب لوگوں کو معلوم تھا۔ اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے استاد عبداللہ یوسف عظام سے متاثر ہونے والے نوجوانوں میں تھا۔ یونہی گلی محلوں سے اٹھ کرنہیں آئے تھے۔ ایک فکر رکھتے تھے اور یہ فلسطینی استاد ایک بہت ہی خوشگوار شحصیت تھے۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے باقاعدہ روسی سامراج کے خلاف افغانیوں کا ساتھ دیا مگر جب امریکیوں نے افغانستان پر دھاوا بول دیا تو یہ ان کا ساتھ نہ دے سکے۔ اس کہانی کو لمبا نہیں کرنا چاہتا۔ اس ملک میں بہت سے اہل فکر و نظر ایسے ہیں جو اسامہ کی کہانی کو دوسری نظر سے دیکھتے ہیں بلکہ مشرف کی اس ساری جنگ کو باطل سمجھتے ہیں۔ اس میں نمایاں مثال جماعت اسلامی کے سابق مرحوم امیر سید منور حسن کی ہے جنہوں نے بیت اللہ مسحود کو بھی شہید قرار دے دیا تھا کہ وہ امریکیوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس صدی کے آغاز کی بات ہے کہ عمران خان اندرون سندھ کے دورے سے واپس کراچی آئے۔ نجیب ہارون کے گھر پرایک ملاقات میں انہوں نے ایک بات کے جواب میں بتایا کہ انہوں نے اندرون سندھ یونہی مجمع سے پوچھ لیا تم کس کا اسلام چاہتے ہو۔ جواب آیا اسامہ بن لادن کا اسلام۔۔ عمران خان اس جواب پر حیران بھی تھے مگر اس بات کو سمجھ گئے کہ عوام کیا چاہتے ہیں۔ بہرحال یہ بات ریاست مدینہ کی بات کرنے والے کے دل سے تو نہیں گئی ہوگی۔ اب عمران کی دوسری’’ غلط ‘‘بات لے لیجئے جس کی میں تعریف کروں گا۔ پورا میڈیاا ور خاص طور پر میڈیا پر ایک مخصوص طبقہ عمران کے لتے لے رہا ہے کہ اس نے عورتوں کے ریپ کے معاملے میں عورتوں کے کم لباس کی بات کی۔ ایک پورا گروہ چیخ رہا ہے کہ عمران ریپ کی وجہ مرد کی بے حیائی اور بدمعاشی کو قرار نہیں دے رہا بلکہ الزام عورت پر لگا رہا ہے۔ یہ کیسا خلط مبحث ہے۔ اس سے مرد کی خبا ثت سے کب انکار ہے البتہ عورت کو اس ذمہ داری سے بری الذمہ قرار نہیں دیا گیا۔ میں کئی بار عورت کے اس معاشرے میں مقام پر بحث کر چکا ہوں مگر ان جاہلوں کو سنجیدہ بحث سے کیا لینا۔ تہذیبوں کا مطالبہ کرنے والے جانتے ہیں کہ نسائی فکر معاشرے میں ایک طرح کا ٹھہرائو لاتی ہے مگر اس کی زیادتی معاشرے سے قوت عمل چھین لیتی ہے۔ زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا کیونکہ مختصر بات کرنے سے کوئی غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے۔ عریانی فحاشی اور چیز ہے اور اسے لباس کے استعمال کا مرہون محض نہ سمجھا جانا چاہیے مگر بے لباسی بھی کوئی ایسی چیز نہیں جس کی تعریف کی جائے۔ میں ایک سوال پوچھتا ہوں‘ ثقافت کے ترجمان مجھے بتائیں۔ عورتوں کے نہیں یہ سوال مرد کے لباس کے بارے میں ہے۔ کیا ہمارے ہاں‘ ہمارے معاشرے میں ہمارے کسی علاقے یا صوبے میں کوئی ایسا لباس ہو جو نماز پڑھنے میں حارج ہویا ستر پوشی کے اسلامی اصولوں کے منافی ہو۔ ہمارا کلچر اس کی اجازت نہیں دیتا۔ آپ اپنی بدزبانی سے اسے رائج نہیں کرسکتے۔ عمران خان نے ایک تیسری بات بھی کہی ہے جس پر ڈھنڈورچی چراغ پا ہوں گے۔ اس نے کہا‘ کیا سافٹ امیج‘ سافٹ امیج لگا رکھی ہے۔ سوٹ پہنو‘ انگریزی بولو اور میں اضافہ کرتا ہو نسائی طرز زندگی اپنا لو اور سمجھو دنیا آپ سے متائر ہو جائے گی۔ یعنی اپنے اندر جھانکو‘ ا پنی روح کے اندر دیکھو پاکستانی بنو‘ دنیا آپ سے تب متاثر ہوگی۔ یہ سافٹ امیج‘ سافٹ امجید کیا لگا رکھی ہے۔ معاشرے میں مردانہ اور زنانہ جذبات کا امتزاج بڑا ضروری ہے۔ اس کے لیے اقبال پڑھئے کئی باتیں سمجھ آئیں گی۔ اگر عورتوں کے اطوار اپنانا ہیں تو میرا ایک قول سن لیجئے۔ عورت بننا اتنا مشکل ہے کہ میں نے بڑی بڑی عورتوں کو مرد بنتے دیکھا تھا۔ اب اضافہ کرتا ہے کہ مرد بننا بھی آسان نہیں‘ میں نے بڑے بڑے مردوںکو عورت بنتے دیکھا ہے۔ آج یہ زمانہ بھی آ گیا ہے۔ سافٹ امیج‘ سافٹ امیج اور کیا ہے اور یہ لباس کی بحث اور اگر برا نہ مانیں تو حریت پسندوں اور مجاہدوں کو دہشت گرد قرار دینا‘ بغیر سوچے سمجھے۔ عقل کے ناخن لیجئے۔ مجھے عمران کی یہ تینوں باتیں اچھی لگیں۔ سو لکھ رہا ہوں۔ آپ اسے غلط باتوں میں شمار کرتے رہیں۔ مجھے اس سے کیا لینا۔ کیا حرج ہے ہم اپنے اندر جھانک کر دیکھیں اور ان ڈھنڈورچیوں کی باتوں سے صرف نظر کریں جو ایک منصوبے کے تحت ہر طرف پھیل رہے ہیں یا پھیلائے جا رہے ہیں۔