اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے وزیر اعظم عمران خان نے اس مرتبہ پھر ایک جامع اور ہمہ پہلو تقریر کی۔ خطاب میں مسلمانوں کو درپیش سب سے بڑے مسئلہ اسلامو فوبیا کے متعلق اہم نکات اجاگر کیے اور دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی کہ اسلامو فوبیا ایک من گھرٹ اور نفرت پر مبنی مفروضہ ہے ۔ جو انسانوں کو تقسیم کرتاہے۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد دنیا بھر میں مسلمانوں کو خوف اور دہشت کی علامت کے طور پر متعارف کرانے کے لیے باقاعدہ لڑیچر تخلیق ہوا۔ اسلامو فوبیاکے نظریہ کے تحت مسلمانوں کے خلاف عالمی سطح پر عداوت اور نفرت کا ماحول پیدا کیا گیا۔ائرپورٹ پر اگر کسی مسافر کے نام کے ساتھ محمد یاخان کا سابقہ یالاحقہ ہوتا تو اسے غیر مساویانہ سلوک کا سامنا کرنا پڑتا۔ ایسے مسافروں کو ذہنی اذیت کا شکار کیا جاتا۔یہ سلسلہ کچھ کم ہوا ہے لیکن ابھی تک رکا نہیں۔ مغرب میں علمی تحقیقی اداروں جنہیں دانش گا ہ کہا جاتا ہے، کی بھرمار ہے۔ صرف امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں چار سو کے قریب تھینک ٹینک قائم ہیں جہاں علمی موضوعات پر بحث ومباحثہ مسلسل جاری رہتاہے۔ نظریہ سازی کی یہ فیکٹریاں ہیں۔ یونیورسٹیوں کی تعداد اور ان کے بجٹ کی کہانی بھی ہوش ربا ہے۔بعض یونیورسٹیوں کا سالانہ بجٹ متعدد مسلمان ممالک کے کل بجٹ سے زیادہ ہے۔ان اداروں نے مسلمانوں اور اسلام کو ایک جامد مذہب کے طور پر متعارف کرایا جو تبدیلی یا حرکت کوقبول نہیں کرتا۔ دیگر مذاہب یا تہذیبوں کے ساتھ کوئی قدر مشترک نہیں رکھتا اور نہ ہی اشتراک عمل پر یقین رکھتاہے۔خاص طور پر خواتین کے حوالے سے اسلام کی شبیہ بہت بگاڑی گئی۔الزام لگایا کہ اسلام عورتوں کے ساتھ سختی اور بدسلوکی کا علمبردار ہے۔ علاوہ ازیں اپنے پیروکاروں کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں پر حملوں پر اکساتاہے۔ مختصر یہ کہ مسلمان امن سے خود رہ سکتاہے اور نہ دوسروں کو چین لینے دیتاہے۔اسلام صرف اور صرف دشمنی کے ماحول میں پروان چڑھتاہے اور جنگی جنون کو مسلسل ہوادیتارہتاہے۔ یہ وہ نکات تھے جنہوں نے مغرب کے لبرل معاشرے میں مسلمانوں کے متعلق زبردست بیزاری اور نفرت جنم دی۔ چنانچہ سابق صدر بارک اوباما جن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے والد مسلمان تھے ،نے بھی مسلم مخالف قانون بنانا جاری رکھا۔ عراق ، لیبیااورافغانستان پر حملوںمیں ان کے دور میں شدت آئی۔عالم یہ ہے کہ اوباما کی ڈیموکریٹک پارٹی نے قانون پاس کیا کہ جو بھی مسلمان سویلین امریکی حملوں میں مارا جائے اسے ’’دشمن جنگجوـ‘‘ تصورکیاجائے تاکہ ملکی یا غیر ملکی عدالت میں حکومت پر مقدمہ دائرہ نہ کیاجاسکے۔ الجزیرہ میں حال ہی میں ایک سروے چھپا جس کے مطابق نائن الیون کے بعد امریکہ میں پیدا ہونے والے افراد میں سے پانچ میں سے ایک کا خیال ہے کہ عراقی صدر صدام حسین نائن الیون کے حملوں کا ذمہ دار ہیں۔اس کو کہتے ہیں کہ جھوٹ اتنا بولو کہ لوگ یقین کرنے لگیں۔اسرائیل نے بھی اسلامو فوبیا کے تاثر کو ایک ہتھیار کے طور پر خوب استعمال کیا۔ فلسطینیوںکی جائز اور قانون جہدوجہد او ر حقوق کو بری طرح کچلا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں اسرائیل کی پالیسیوں کی بھرپور تائید کی گئی۔ امریکی صدر نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا اور سفارت خانہ بھی وہاں منتقل کیا۔اسے فلسطینیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کا کوئی احساس نہ ہوا۔ بھارت نے بھی اسلامو فوبیا کی عالمی لہر سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ خاص طور پر کشمیر کی تحریک کو نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف ابھرنے والے عالمی ماحول کا حصہ بنایا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پرتشدد طریقوں سے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوششوں کے راستے میں زبردست رکاوٹیں کھڑی کیں۔کشمیر کی جدوجہد میں حصہ لینے والوں کا عرصہ حیات تنگ کیا گیا۔مغرب کے سفید نسل پرستوں کے ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اشتراک بڑھایا۔ دونوں ایک دوسرے سے شیر وشکر ہوگئے۔کشمیر کے لیے عالمی حمایت کا حصول دشوار ہوگیا کیونکہ دنیا کا ماحول مکمل طور پر بدل چکا تھا۔ علاوہ ازیں کئی ایک مسلمان ممالک پر امریکہ اور مغربی ممالک نے اقوام متحدہ کی اشیر باد سے حملے کیے گئے۔ عراق ، لیبیاا ور افغانستان کے شہریوں کے لیے زندگی جہنم سے بدتر ہو گئی۔ مغرب میں مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے لیے توہین آمیز خاکے بنائے جانے لگے۔ کئی ممالک نے اپنے شہریوں کے اس فعل کی تائید کی۔قرآن سوزی کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی اور جوابی طور پر پر تشدد واقعات بھی رونما ہوئے جنہیں مسلمانوں کے خلاف ہی پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا گیا کہ ان میں عدم برداشت پایاجاتاہے۔ رفتہ رفتہ مغرب میں یہ پروپیگنڈے ایک منفعت بخش انڈسٹری کی شکل کرگیا جس کا سیاستدانوں اور ابلاغی منافع خوروں نے فائدہ اٹھایا۔ افسوس ! اکثر مسلم ممالک کے حکمرانوں نے مغرب کے ساتھ سرکاری سطح ان پر مسائل پر مکالمہ کرنے کے بجائے خاموشی کی چار تان لی۔ وزیراعظم عمران خان نے اس روایت کو توڑا اور وہ مسلسل مغربی ممالک اور سماجی اداروں کو سمجھا رہے ہیں کہ مسلمان کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھا جائے۔ ان کے مذہبی نقطہ نظر کا ادراک کیا جائے نہ کہ انہیں علیحدہ کرکے ’’ عالمی اچھوت‘‘بنایاجائے۔انہوں نے مدلل انداز سے یہ مسئلہ ایک بار پھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا۔ ضروری ہے کہ دوسرے مسلمان ممالک ان کے نقش قدم پر چلیں اور اس مسئلہ کو ہر عالمی فورم پر اٹھائیں تاکہ مغرب میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی بڑھتی ہوئی لہر کے آگے بندھ باندھا جاسکے۔یاد رہے کہ مغربی ’’تکفیروں‘‘ کے علاوہ ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی دنیا میں پائی جاتی ہے جو مسلمانوں کے خلاف نہیںبلکہ ان کے ساتھ اشتراک کرنا چاہتی ہے ۔ان کا خیال ہے ’’ہم مختلف ضرور ہیں لیکن ایک ہیں‘‘۔ ا ن کے ساتھ وسیع پیمانے پر اشتراک کی ضرورت ہے تاکہ نسل پرستوں اور سامراجی ذہنیت کے حامل لوگوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔ان لوگوں اور اداروں کے ساتھ مل ہی اسلامو فوبیا کو روکنے کے لیے منظم کوششیں کی جاسکتی ہیں۔