جہدِ مسلسل (بہاولپور براستہ گورکھ پور)ایک سوانح حیات ہے جسے پروفیسر ڈاکٹر محمد شہزاد اور ڈاکٹر محمد آصف ندیم نے مشترکہ تصنیف کیا ہے۔پروفیسر اطہر محبوب دراصل مولوی سبحان اللہ کے بیٹے سید محمد رضوان اللہ کے نواسے اور قاضی محبوب الحق کے بیٹے ہیں۔ سید محمد رضوان اللہ قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک تھے اورقائد اعظمان سے مسلمانانِ ہند کے مستقبل، سیاسی و سماجی حالات پر ملاقات و مشاورت کرتے رہتے تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کو اْن پر بڑا اعتماد تھا۔ بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب جناب خلیق الزماں سے ناراضی کے بعد یوپی کی سیاست میں قائد اعظم کم و بیش انہی پر انحصار کرنے لگے تھے۔ یہاں تک کہ 1946ء میں انہوں نے مسلم لیگ کی صوبائی صدارت سے خلیق الزماں کو ہٹا کر رضوان اللہ کو صدر بنا دیا تھا۔ قائد اعظم نے پاکستان کے نقشے کی تشکیل کے لئے جو چار رکنی کمیٹی بنائی تھی اس میں عبداللہ ہارون، چودھری رحمت علی، پیر علی محمد راشدی کے ساتھ رضوان اللہ بھی شامل تھے۔1947ء میں جب دستور ساز اسمبلی قائم ہوئی تو مسلم لیگ کی طرف سے جن سات ممبروں کو منتخب کیا گیا ان میں سے ایک رضوان اللہ بھی تھے۔ بحیثیت ممبر دستور ساز اسمبلی وہ چھ فیروز شاہ روڈ واقع دہلی میں رہائش پذیر رہے ان کے ساتھ حسرت موہانی بھی قیام پذیر تھے۔ اگرچہ سید محمد رضوان اللہ کی سیاسی زندگی کا آغاز مسلم لیگ سے ہوا مگر کانگریسی لیڈروں میں گاندھی جی، پنڈت جواہر لال نہرو، ڈاکٹر کاٹجو، پنڈت پنت اور رفیع احمد قدوائی سے بھی اِن کے دوستانہ مراسم تھے۔ کرم داس موہن چند گاندھی ان کی صلاحیتوں کے بہت معترف تھے۔یہ کہانی کا ایک رخ ہے جبکہ کہانی کا دوسرا رخ اور بھی دلچسپ ہے۔ 132ہجری بمطابق 750عیسوی میں ابوالعباس السفاح اور ابو جعفر المنصور نامی دو بھائیوں نے بنو امیہ کو شکست دے کر ایک نئی حکومت کی بنیاد ڈالی جسے خلافت ِ عباسیہ کے نام سے جانا گیا۔ ہر عروج کو زوال ہے کے مصداق 37ویں بادشاہ (خلیفہ) مستعصم باللہ کے دور میں عباسی حکومت کمزور پڑگئی۔ اس زوال کی بہت سی وجوہات میں مالی اور اخلاقی کمزوریاں بہت نمایاں تھیں مگر بنیادی وجہ غیر سنجیدہ رویے تھے۔ اِس دور میں بادشاہوں کی دفاع پر توجہ بالکل ختم ہوگئی تھی۔ 1258عیسوی میں تاتاریوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی، یوں 508سالہ طویل دورِ حکومت عبرت ناک طریقہ سے اپنے انجام کو پہنچا۔ یہی سانحہ تاریخ کے اوراق میں سقوطِ بغداد کے عنوان سے محفوظ ہے۔ مورخین کے مطابق اس عہد میں ایک لاکھ سے لیکر دس لاکھ مسلمانوں کا قتل ِ عام ہوا۔ عوام کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ معززین کی پگڑیاں اچھالی جا رہی تھیں۔ کہیں کوئی جائے امان نہیں تھی۔ شاید اسی کو مکافات ِ عمل کہتے ہیں کہ ابوالعباس السفاح نے جو بربریت اہل ِ دمشق اور بنو امیہ کے ساتھ روا رکھی۔ وہی تاریخ مستعصم باللہ، شاہی خاندان اور اہل ِ بغداد کے ساتھ دہرائی گئی۔ معززین ِ شہر کے سامنے عزت اور جان بچانے کے لئے ہجرت کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ ایسے ہی خاندانو ں میں بنو عباس کے محکمہ قضا کے ایک قاضی کا خاندان بھی شامل تھا۔ جنہوں نے اپنے اہل ِ خانہ کے ساتھ بغداد سے برصغیر کی ریاست اْتر پردیش کے مشہور شہر گورکھ پور کو اپنا مسکن بنانے کا فیصلہ کیا۔ شمالی ہند کی یہ ریاست اپنے علم و ادب کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور تھی۔ اسی خاندان کے ایک چشم و چراغ قاضی منظور الحق تھے۔عربی النسل قاضی منظور الحق نے اپنی خاندانی روایا ت کو گورکھ پور میں جاری رکھا اور ان کی مکمل توجہ حصولِ تعلیم پر رہی۔ انہوں نے الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کیا۔ یہاں ان کے مزاج میں صرف ایک تبدیلی یہ آئی کہ انہوں نے پیشہ ورانہ زندگی کے لئے اپنے آباء و اجداد کے محکمہ قضا کی بجائے درس و تدریس کو فوقیت دی اور ریلوے کے ایک سکول میں بطور مدرس منتخب ہوئے۔بعد ازاں سکول کی تدریس سے کالج کی تدریس کی طرف رخ کیا تو الٰہ آباد کے مشہور شبلی کالج میں بطور لیکچرار منتخب کر لئے گئے۔ اسی کالج میں پاکستانی بری فوج کے سابق سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ بھی ان کے شاگرد رہے۔ قاضی صاحب کی ملازمت کا زیادہ تر عرصہ مشرقی پاکستان میں گزرا اور 1958ء میں دوسری دفعہ ہجرت کرکے وہ مغربی پاکستان منتقل ہوئے جہاں ان کی نئی پوسٹنگ بطور ڈپٹی ہیڈ ماسٹر ریلوے پبلک سکول مانسہرہ روڈ ایبٹ آباد میں کردی گئی۔ 1960ء میں ان کا تبادلہ لاہور کردیا گیا۔ یہاں قاضی منظور الحق کو گڑھی شاہو لاہور میں ریلوے کے ایک نئے قائم کئے گئے سکول کے نظم و نسق کو چلانے کا فریضہ سونپا گیا۔ 1960ء سے 1970ء تک قاضی منظور الحق لاہور میں رہے اور انہوں نے اس سکول کی ابتداء ایک خیمہ سے کی۔ آج اس سکول کا شمار لاہور کے بہترین سکولوں میں ہوتا ہے۔ 1960ء میں سابق وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف کے والد میاں شریف باقاعدگی سے اس سکول کی مالی معاونت کرتے رہے۔ اس زمانے میں میاں شریف گڑھی شاہو میں اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ میاں شریف کے تین بیٹے میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور میاں عباس شریف بھی قاضی منظور الحق کے شاگرد رہے اور میاں شریف کے یہ بچے ٹیوشن کے لئے بھی قاضی منظور الحق کے یہاں جاتے تھے۔ قاضی منظور الحق 1970ء میں ریٹائرڈ ہوئے اور واپس میر پور خاص (سندھ) میں اپنی زمینوں پر آگئے اور زمین داری شروع کردی۔ قاضی منظور الحق کثیر العیال تھے انہوں نے چار شادیاں کیں۔ قاضی منظور الحق کی اولاد میں سے ان کے ایک بیٹے قاضی محبوب الحق نے افواجِ پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور پاک فضائیہ میں بطور جی ڈی پائلٹ اپنے فرائض سرانجام دیئے۔ قاضی محبوب الحق کا شمار پاک فضائیہ کے ان اولین ہوابازوں میں ہوتا ہے جو امریکہ سے تربیت یافتہ تھے اور فن ِ ہوابازی کی شاندار مہارتوں سے واقف تھے۔