معززقارئین! سردار آصف سعید خان کھوسہ نے 18 جنوری 2019 ء کو چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا اور اب موصوف 20 دسمبر 2019ء کو ریٹائر ہو جائیں گے۔اس دوران چیف جسٹس صاحب نے اپنے فرائضِ منصبی بااحسن طریق سے انجام دیے لیکن سابق‘ نااہل‘ سزا یافتہ اور بیمار وزیراعظم میاں نوازشریف کی علاج کیلئے لندن روانگی پر وزیراعظم عمران خان کا کہیں ’’نظریاتی اختلاف‘‘ ہو گیا ہے۔ ؟ 19 نومبر کو وزیراعظم عمران خان کی طرف سے میاں نوازشریف کی لندن روانگی پر کہا کہ ’’ہم ہمیشہ عدلیہ کا احترام کیا ہے اور ہم نے میاں نوازشریف کی وطن واپسی یقینی بنانے کیلئے ایمنسٹی بانڈ کی شرط رکھی تھی‘ اب عدالت نے ضمانت لے لی ہے تو امید ہے کہ وہ مقررہ وقت پر واپس آ جائیں گے۔‘‘ وزیراعظم عمران خان نے عدلیہ کے ’’طاقتور‘‘ہونے کی بات بھی کی تھی۔ 20 نومبر کو ’’جوابِ آں غزل‘‘ کے طور پر چیف جسٹس صاحب نے بھی اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہائی کورٹ نے تو صرف ‘ جُزیات طے کی تھیں‘ کسی (میاں نوازشریف ) کو باہر جانے کی اجازت تو وزیراعظم نے دی تھی‘ ہمارے سامنے طاقتور ؔ تو صرف قانون ہے۔اسی لئے ایک وزیراعظم (یوسف رضا گیلانی)کو سزا دی گئی‘ دوسرے (میاں نوازشریف)کو نااہل قرار دیا گیا اور اب ایک سابق آرمی چیف (صدر جنرل پرویز مشرف) کے مقدمے کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے۔‘‘ چیف جسٹس صاحب نے یہ بھی کہا کہ ’’عدلیہ میں تو خاموش انقلاب آ گیا ہے۔‘‘ ’’عدالتی انقلابؔ‘‘ معزز قارئین ! آپ کو یاد ہو گا کہ اُن دنوں میاں ثاقب نثار چیف جسٹس آف پاکستان تھے کہ جب سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں ‘ جسٹس اعجاز افضل خان‘ جسٹس گلزار احمد‘ جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل ‘ سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچوں جج صاحبان نے 28 جولائی 2017ء کو (اُن دنوں) وزیراعظم میاں نوازشریف کو‘ صادقؔ اور امینؔ ‘ نہ ثابت ہونے پر آئین کی دفعہ’’62-F-1 ‘‘ کے تحت تاحیات نااہل قرار دے دیا تھا۔ اس پر 30 جولائی 2017ء کو میرے کالم کا عنوان تھا سلام!۔ ’’ عدالتی انقلاب ‘‘۔ تو شروع ہوگیا؟ میں نے لکھا تھا کہ ’’ریاست پاکستان کے چارستون ہیں۔ پارلیمنٹ،حکومت ،عدلیہ اور میڈیا لیکن میرے پیارے پاکستان میں عرصہ دراز سے صرف عدلیہ اور میڈیا ہی ریاست پاکستان کے خیر خواہ ستون ہیں۔ اگر کوئی پارلیمنٹ اور حکومت عوام کی بھلائی پر توجہ دیتی تو آج پاکستان میں 60 فی صد لوگ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کیوں کر رہے ہوتے؟۔ کیوں نہ پاکستان کے بھوکے ، ننگے اور بے گھر لوگ اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگیں کہ ’’یا رب اُلعالمِین !۔ مملکت خدا دادِ پاکستان میں ججوں کی حکومت قائم کردے !‘‘۔28 جولائی کو سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل اور اُن کے اور اُن کے اہلِ خاندان کے خلاف نیب کو مقدمات چلانے کی ہدایت سے پتہ چلتا ہے کہ ’’ پیارے پاکستان میں ججوں کی حکومت تو نہیں ؟ لیکن بڑی آہستگی سے ’’Judicial Revolution ‘‘ (عدالتی انقلاب ) شروع ہوگیا ہے۔ کیوں نہ ہم سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور پنج تن پاک ؑکا بھی ، جن کی شفقت سے سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچ جج صاحبان ’’عدالتی انقلاب ‘‘ کے بانِیانِ بن گئے ہیں۔ یقین کیا جانا چاہیے کہ اب ’’عدالتی انقلاب ‘‘ جاری رہے گا ۔ پاکستان میں قومی دولت لوٹنے والا صِرف شریف خاندان ہی نہیں بلکہ آصف زرداری اور اُس قبیل کے اور بھی کئی گروپ ہیں۔ اب عدالتی انقلاب کا ’’Law Roller‘‘ تیز رفتاری سے چلے گا۔ اِنشاء اللہ۔ ’’2018ء کے عام انتخابات ‘‘ پھر کیا ہوا؟ ۔ عدالتی انقلاب کا ’’Law Roller‘‘ تیز رفتاری سے چلنے لگا۔ سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری‘ ان کی ہمشیرہ فریال تالپور اور چیئرمین بلاول بھٹو کی ’’پاکستان پیپلزپارٹی‘‘ کے قائدین مختلف مقدمات کی زد میں آ گئے۔ پکڑے گئے‘ ضمانتیں ہوئیں‘ بیمار ہوئے‘ ہسپتال گئے‘ لیکن جولائی 2018ء کے عام انتخابات ہوئے تو چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نیازی‘ اپنے اتحادیوں کے تعاون سے وزیراعظم پاکستان منتخب ہو گئے۔ 28 جولائی 2018ء میرے کالم کا عنوان تھا۔’’ پنج تن پاک ؑ ۔ عمران خان پر بھی ، مہربان!‘‘۔ میں نے لکھا کہ عمران خان خُوش قسمت ہیں کہ ’’ اُنہیں صدر جنرل پرویز مشرف کی ’’ نیم آمریت‘‘ کے بعد صدر زرداری ، وزیراعظم نواز شریف او ر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ’’ بدترین جمہوریت‘‘ کے بعد ، پاکستان کی وزارتِ عظمی سنبھالنے کا موقع مِلا ہے ۔‘‘ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ’’ اگر وہ غریبوں کے حق میں انقلاب لانا چاہتے ہیں تو ،وہ علاّمہ اقبالؒ کے بتائے ہُوئے ’’ اسمِ اعظم‘‘ کا ورد کرتے ہُوئے قوتِ عشق سے ، ہر پست کو بالا کرنے کے لئے کم از کم پاکستان میں تو ، اُجالا کر ہی سکتے ہیں ۔ پھر پنج تن پاک ؑ اُن کے اور ہم سب کے پیارے پاکستان پر مستقل طور پر مہربان کیوں نہیں رہیں گے؟۔ ’’عدالتی انقلاب جاری! ‘‘ عدالتی انقلاب جاری تھا۔ جاری رہا اور اب بھی جاری ہے کہ 18 جنوری 2019 ء کو آصف سید خان کھوسہ نے چیف جسٹس کا منصب سنبھالا۔ اس پر 19 جنوری 2019ء کو‘ میرے کالم کا عنوان تھا ’’جی آیاں نُوں! چیف جسٹس صاحب! ‘‘ میں نے اپنے اس کالم میں (بلوچ قوم کے) کے سردار آصف سعید خان کھوسہ اور آصف علی زرداری کا بھی تذکرہ کیا تھا اور سابق وزیر اعلی بلوچستان‘ بلوچ نواب محمد اسلم رئیسانی کا بھی جنہوں نے کہا تھا کہ ’’ڈگری‘ ہوتی ہے‘ اصلی ہو یا نقلی؟ میں نے چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے والے بلوچ سردار آصف سعید خان کھوسہ کی کامیابی کیلئے دعا بھی کی تھی۔ میں نے کہا تھا کہ میری دعا ہے کہ محترم چیف جسٹس صاحب!۔ ’’ اللہ تعالیٰ آپ کو ’’ قائد اِنقلاب‘‘ کی حیثیت سے ’’ عدالتی انقلاب‘‘ کو مکمل کرنے کی توفیق دے !۔ اُس کے بعد تو، صِرف مَیں نہیں بلکہ 60 فی صد مفلوک اُلحال ہر پاکستانی آپ کو پیغام بھجوائے گا کہ "Live in my Heart and Pay No Rent"۔ ’’ججوں کی حکومت ‘‘ ’Bible‘‘ کے عہد نامہ عتیق (Old Testament) میں ایک باب ہے۔ ’’Book of Judges‘‘ (قاضیوں کی کتاب) لِکھا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے بعدحضرت یوشعؑ سے لے کرحضرت سموئل تک تقریباً چار سو سال تک بنی اسرائیل پر ججوں ( قبائلی بزرگوں) کی حکومت رہی۔ اُس دَور میں ججوں کے سِوا بنی اسرائیل کا کوئی بادشاہ یا حکمران نہیں تھا۔ 2234 قبل از مسیح بنی اسرائیل نے خواہش کی کہ ’’ قُرب و جوار کی دیگر اقوام کی طرح وہ بھی کسی بادشاہ کے تابع فرمان بن کر رہیں۔ خُدا نے اُن کی یہ آرزو پوری کردِی۔ (جج اور نبی حضرت سموئل ؑنے بِن یامین ؑکی اولاد میں سے حضرت طالوت کو بادشاہ مقرر کردِیا۔ اُن کے بعد حضرت دائود ؑ۔ حضرت سلیمانؑ اور دوسرے بادشاہ تھے۔ ‘‘ معززقارئین میں اکثر سوچتا ہوں کہ میرے پیارے پاکستان میں عرصۂ دراز سے صِرف ’’Judiciary‘‘ اور ’’Media‘‘ ہی ریاست پاکستان کے دو خیر خواہ ستون ہیں ۔ اگر کوئی ’’Legislature‘‘ اور ’’Executive‘‘ عوام کی بھلائی پر توجہ دیتی تو آج پاکستان میں 60 فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کیوں کر رہے ہوتے؟ کیوں نہ پاکستان کے بھوکے ننگے اور بے گھر لوگ اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگیں کہ’’ یا رب اُلعالمِین! مملکت خدادادِ پاکستان میں ججوں کی حکومت قائم کردے!‘‘۔ہمارے اکثر سیاست دان کسی مغربی مفکر کے اس قول کی ’’جُگالی‘‘ کرتے رہتے ہیںکہ ’’بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت اچھی ہوتی ہے۔ ‘‘ مجھے نہیں معلوم کہ اس معاملے میں ’’قائد عدالتی انقلاب‘‘سردار آصف سعید خان کھوسہ کیا کہتے ہیں؟