اسلام آباد کے پریڈ گراونڈ میں وزیراعظم عمران خان کے جلسہ میں لاکھوں لوگوںکا پُرجوش مجمع تھا۔ایسا اجتماع جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ہر اعتبار سے کپتان کی سیاسی طاقت ‘ مقبولیتِ عام کا بھرپور اظہار تھا۔ لیکن پاکستان میں اقتدار کے کھیل میں عوامی مقبولیت سب کچھ نہیں۔ اپنے وقت کے اعتبار سے بے نظیر بھٹو کے جلسے عظیم الشان ہوا کرتے تھے۔ انہیں کتنی مشکل سے کٹی پھٹی حکومت ملی ۔ انہیں دومرتبہ اقتدار سے محروم کیا گیا۔ذوالفقار علی بھٹو بہت مقبول تھے۔ انہیں پھانسی چڑھا دیا گیا۔ ہمارا ایک نیم جمہوری ملک ہے۔اس کی عملی سیاست میں عوامی مقبولیت صرف ایک عنصر ہے جو بعض اوقات غیر اہم ہوجا تاہے۔ دیگر عوامل اہمیت اختیار کرجاتے ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی۔ عمران خان عوام میں بہت مقبول ہیں ۔ گزشتہ دو ماہ میں ان کی مقبولیت میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے لیکن بااثر طاقتور ملکی و غیر ملکی حلقے ان کے خلاف صف آرا ہیں۔ پاکستان کی سیاسی بساط پر دو بڑے کھلاڑی ہیں۔ ایک‘ ریاستی ادارے یا مقتدرہ اوردوسرے‘ پیشہ ور سیاستدان جنہیں سیاسی اشرافیہ کہہ لیں۔مقتدرہ کی مدد کے بغیر پاکستا ن میں کوئی حکومت چل نہیں سکتی۔ یہ طاقت ‘ اتھارٹی کا منبع ہے۔ مقتدرہ کے کسی حکومت سے لاتعلق ہونے کا مطلب ہے کہ وہ سیاسی حکومت اس کی تائید و حمایت سے محروم‘ لولی لنگڑی ہوگئی ہے۔ پیشہ ور سیاستدانوں میں بڑے زمیندار‘ بزنس مین‘ مذہبی قائدین کے ساتھ ساتھ ایسے لوگ شامل ہیں جو بنیادی طور پر متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن سیاسی اثر و رُسوخ استعمال کرکے دولتمند ہوگئے۔ وزیراعظم عمران خان کا تعلق روایتی پیشہ ور سیاسی طبقہ سے نہیں ۔ وہ باہرکے آدمی ہیں۔ ان کاخاندان اَپر مڈل کلاس سے تھا۔وہ کرکٹ کی دنیا کے نمایاںعالمی اسٹار بن گئے ۔ امیر ہوگئے۔ اسکے بعد انہوں نے سیاست میں قدم رکھا۔ نصف صدی سے ان کا بہت بڑ افین کلب ہے۔لوگ انہیں چاہتے ہیں ۔ انہیں لوگوں کو لبھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ایسے شخص میں قدرے خود پسندی آجانا فطری سے بات ہے۔ سیاسی لیڈرز مقامی سیاستدانوں کو راضی رکھنے کے گُر جانتے ہیں۔ اُن سے کیسے پیش آنا ہے۔اُنہیں قومی خزانہ سے کب کب‘کون کون سی مراعات دینی ہیں۔عمران خان ان آداب سے یارا نہیں رکھتے۔طبعاً قدرے کفایت پسند ہیں۔ ہمارے فیوڈل کلچر میں فیاض آدمی کوسراہا جاتا ہے۔ خواہ اسکی مہمان نوازی حلال کے مال سے ہو یا حرام کی دولت سے۔ لیڈر کا دستر خوان وسیع ہونا چاہیے۔ یہ اوصاف کپتان میں نہیں۔ بہت سے پیشہ ور سیاستدان ان کے ساتھ مطمئن نہیں رہ سکے۔ انہیں جس قسم کی نوازشات کی عادت پڑ چکی ہے عمران خان مہیّا نہیں کرسکے۔ عمران خان بنیادی طور پرپاکستان کے متوسط طبقہ کے لیڈر ہیں۔ متوسط طبقہ کی سیاسی طاقت کم ہے۔ یہ منظم نہیں۔ سیاسی تجربہ سے محروم ہے۔ نظریاتی اتفاق نہیں۔نسلی‘ لسانی بنیادوں پر منقسم ہے۔زیادہ تر خیالی دنیا میں رہتا ہے۔عملی سیاست کی حرکیات کو نہیں سمجھتا۔ روایتی سیاسی اشرافیہ کے کائیاں پن کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا۔ مڈل کلاس نے سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کو لیڈر بنا لیا۔ مقتدرہ نے ان کی چھٹی کروائی ۔ پھانسی چڑھایا۔ کوئی انہیں بچانے نہیں نکلا۔ اُنیس سوستر کے چالیس سال بعدپنجاب‘ خیبر پختونخواہ کی مڈل کلاس نے انگڑائی لی۔ عمران خان کو شانوں پر بٹھا یا ۔عمران خان سیاست کی وادی میں آگئے لیکن پیشہ ور سیاستدان نہیں بن سکے۔ انہوں نے عملی سیاست کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بیک وقت کئی محاذ کھول لیے۔ چومکھی لڑنے لگے۔ ایک کے بعد دوسرا دشمن بناتے چلے گئے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) دونوں سے بیک وقت محاذآرائی شروع کردی حالانکہ بلاول بھٹو شروع میں عمران خان سے تعاون کی طرف راغب تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’کپتان قدم بڑھاؤ۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔‘ ساتھ ہی ساتھ کپتان نے مذہبی جماعتوں خاص طور سے مولانا فضل الرحمن کے خلاف جارحانہ طرز عمل اختیار کیا۔ حتیٰ کہ اپنے قریبی دوستوں علیم خان اور جہانگیر ترین کو نہیں بخشا۔ جہانگیر ترین ایک عملیت پسند ‘ جہاندیدہ‘ بااثر انسان ہیں۔ وہ روایتی کلچر کی اُونچ نیچ کو سمجھتے ہیں۔ پیشہ ور سیاست کی حرکیات سے خوب واقف ہیں۔ جب تک وہ عمران خان کے رفیق تھے‘ پیشہ ور سیاستدانوں کو اپنے جہاز میںبھر بھر کر پی ٹی آئی میں لاتے رہے۔ جب وہ پی ٹی آئی کے قبیلہ سے جُدا ہوئے تو خان صاحب کی سیاسی تنہائی کا عمل شروع ہوگیا تھا۔ شریف خاندان سے ان کے رابطوں کا آغاز ہوگیا تھا۔ کُھل کر نہیں تو پوشیدہ طور پر سہی ۔وہ عمران خان اور ریاستی اداروں کے درمیان ایک پُل تھے۔ وہ ٹوٹ گیا۔ عمران خان گھاگ پیشہ ور سیاستدان ہوتے تو ایسے اہم آدمی کو ناراض نہ کرتے۔ جو شخص طاقتورلوگوں‘ حلقوں کے مفادات پر ضرب لگائے وہ ان کے انتقام کا نشانہ ضرور بنتا ہے۔ ملک کے اندر ہی عمران خان کے دشمن کم نہ تھے۔ انہوں نے بیرونی محاذ بھی کھول لیا۔ پاکستان کے حکمران طبقہ کے مفادات کم سے کم ساٹھ برسوں سے امریکہ کے ساتھ وابستہ ہیں۔یہ طبقہ امریکی ڈالروں کا عادی ہوچکا ہے ۔ اِن کا پُرتعیش طرزِ زندگی انکل سام کی مدد کے بغیر جاری نہیں رہ سکتا۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ پاکستان چین کے ساتھ ساتھ واشنگٹن کے ساتھ بھی اچھے تعلقات بنائے رکھے۔ قدرے کم ہی سہی لیکن امریکی ڈالر آتے رہیں۔ عمران خان نے اس بنیادی مفاد پر چوٹ لگائی۔ اس خطہ میںپاکستان ہی واحد ملک ہے جو امریکہ کو وسط ایشیا میں اپنا اثر بڑھانے اور روس کے خلاف ایک ٹھکانہ مہیا کرسکتا ہے۔ لیکن عمران خان کااس بارے میں بے لچک روّیہ امریکیوں کے لیے پریشان کُن ہے۔ پاکستان میں امریکی لابی طاقتور ہے۔میڈیا‘ این جی اوز اور ریاستی اداروں میں اسکے دوست ‘ حامی موجود ہیں۔عمران خان ان کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ کئی صحافیوں‘ اینکروں نے کھلم کھلا کہا کہ عمران خان کو چین اور روس کی بجائے امریکہ سے قربت بڑھانی چاہیے۔ امریکی لابی نے منصوبہ بندی کررکھی تھی کہ عمران خان کو حکومت سے نکالنا ہے۔ پیشہ ور سیاستدانوں کی ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے یہ کام مشکل نہیں۔ لیکن عمران خان نے اس کام کو آسان نہیں رہنے دیا۔ توقع سے بڑھ کر مزاحمت کررہے ہیں۔ انہوں نے جلسے جلوس کرکے جس وسیع پیمانے پر عوام کو اپنے حق میں متحرک کرلیا ہے وہ حیران کُن ہے۔ ان کے مخالف سمجھ رہے تھے کہ اس وقت ان کی مقبولیت مہنگائی کے باعث کم ہوگئی ہے۔ ان کی حکومت گرا کر نئے عام انتخابات میں انہیں شکست دیناآسان ہوگا۔ لیکن اب عمران خان کے موافق ہَوا چل پڑی ہے۔ عوامی رائے عامہ کے دباو ٔسے ان کی حکومت تو شائد نہ بچ پائے لیکن مخالفین کے لیے حکومت بنانا اور چلانا ممکن نظر نہیں آتا۔ بات عدم اعتماد سے آگے نکل گئی ہے۔ یہ انیس سو ستر کی دہائی نہیں جب بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی۔ انیس سو نوّے کی دہائی نہیں جب بے نظیر بھٹو کو بے توقیر کیا گیا تھا۔اس بارآثار ہیں کہ پاکستان کا متوسط طبقہ اپنے لیڈر کے ساتھ زیادہ مزاحمت کرے گا۔ہمارا دوست ملک چین بھی تشویش کے ساتھ اس صورتحال کو دیکھ رہا ہے۔