اس ملک کے ایک نامور کالم نگار، محترم نصرت جاوید، جو اب اینکر پرسنز کی ایک نئی قبیل کے میدان میں 'لائے جانے' کی وجہ سے بقول انکے 'بیروزگار' ہیں اور آجکل ایک معروف اردو اخبار میں ان کے اپنے بقول' دیہاڑی' لگاتے ہیں۔ ہم انکی کالم نگاری سے مرعوب بھی ہیں اور متاثر بھی۔ انہیں اس وقت سے پڑھتے آرہے ہیں جب وہ ایک انگریزی اخبار میں پارلیمانی ڈائری لکھتے تھے۔ وہ ہمارا طالب علمی کا زمانہ تھا۔ انکے سیاسی کالموں کو 'سفارتی تناظر' ملنے سے جو 'فکری طوفان' اٹھتا ہے اسکی آڑ میں وہ بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ اس میں ان لوگوں کے لیے بڑا درس ہے جو کالم نگاری کرتے 'تجزیہ کاری' کی طرف بھٹک جاتے ہیں یا پھر رپورٹنگ کرنے لگ پڑتے ہیں۔ کالم نگاری ادب اور صحافت کا سنگم ہے، یعنی حقائق کا پردہ تہذیبی نفاست کے ساتھ 'چاک' کرنا ہوتا ہے اور اس معاملے میں 'استاذ ہوراں' قابل داد ہیں۔ ہم مادر علمی میں سٹریٹجک معاملات پرطویل عرصہ سر کھپانے کے بعد بطور تجزیہ نگار اخباری صفحات کی زینت بنے تو سالوں بعد ہونے والی ایک ملاقات میں ہمارے ایک 'پھسوڑی' جونئیر، جو زمانہ طالب علمی سے ہی ایک اخبار میں ڈیسک پر کام کرتے چلے آرہے تھے ہم پر واضح کردیا کہ ہم اپنے آپ کو صحافی سمجھنے سے گریز کریں تو بہتر ہے کہ اس میں داخل ہونے کا دروازہ رپورٹنگ ہے اور یہ کہ ہم لاکھوں مضامین لکھ لیں پریس کلب ہمیں ممبر شپ نہیں دے گا۔ مشرف دور تھا اور ہم ان دنوں ایک میڈیا فرم سے وابستہ تھے۔ اچھا خاصہ کما لیتے تھے۔ لگ بھر بیس اخبارات کو بطور محقق باریک بینی سے دیکھتے اور مواد کو پرکھتے۔ انگریزی اخباروں میں فری لانس لکھتے لکھتے اردو میں لکھنے کا شوق چڑآیا اور ایک دوست کے تعاون سے کالم شروع کیا تو جلد ہی احساس ہوگیا کہ سیاست پر لکھنا ایک حساس معاملہ ہے۔ کسی سیاسی پارٹی، خاص طور پر جب وہ اقتدار میں ہو، اس کے تنظیمی ڈھانچے، فیصلہ سازی اور قانون سازی میں طرز عمل پر لکھنا ایک 'حساس' معاملہ ہے۔ اپوزیشن کو رگڑنا ویسے بھی بے سود تھا۔ سیاست اور کاروبار میں 'سنمبندھ' کو اجاگر کرنے میں علیحدہ پیچیدگیاں تھیں کہ کالم تک بند ہوسکتا تھا اور یہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ تب ہمیں یہ سوجھا کہ کیوں نہ ہم اپنے کالم کو تہذیبی دائروں میں مقید کرکے رکھیں یعنی اشاروں کنایوں سے کام چلائیں۔ کالم لکھنے کی 'ٹھرک' بھی پوری ہوتی رہے اور مدیر بھی پریشان نہ ہوں۔ یہی طریقہ ہم نے انگریزی میں بھی اپنایا۔ بیرونی سرمایہ کاری، جو آئی ایم ایف کی تجویز کردہ معاشی اصلاحات کے تناظرمیں نعرہ بن چکی تھی اور ' حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں بلکہ نجی شعبے کو مناسب ماحول مہیا کرنا ہے' کے نعرے کی آڑ میں خارجی پالیسی اور اچھی طرز پر بہت کچھ، 'اکیڈیمک دیانت' سے کہہ گئے ۔ بیچ رپورٹنگ بھی کی، اینکرشب اور ادارت بھی لیکن کالم نگاری سے عشق کی حد تک لگاؤ رہا۔ ہم بڑے عرصہ سے انہیں سطور میں 'دہائیاں' دے رہے ہیں کہ اب جبکہ جنگیں مہنگا سودا بن چکی ہیں طوائف الملوکی (انارکی) کو عالمی طاقتیں ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے اپنے سٹریٹجک مفادات کی آبیاری کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے جو حکمت عملی نہایت ہی 'گھاتک' ہے اور صدیوں سے مستعمل، کہ غلط خبر کو معتبر ذرائع سے پھیلا کر کنفیوژن پیدا کی جائے تاکہ افراد، گروہ اور ادارے ایک دوسرے سے بدگمان ہو جائیں اور ایک دوسرے پر چڑھ دوڑیں۔ ہائبرڈ وار فیئر کا تذکرہ پچھلے آرمی چیف کے دور میں بہت ہوا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ ہماری عسکری قیادت اس حوالے سے فکر مند بھی ہے اور مناسب حکمت عملی بھی تیار کیے بیٹھی تھی۔ گزشتہ سے پیوستہ ماہ صیام میں ہماری عسکری قیادت نے چوٹی کے صحافیوں سے افطاری پر گھنٹوں ملاقات کی تھی اور اس بات پر زور دیا تھا کہ بدلتے زمانے میں سلامتی کا تقاضہ تھا کہ ادارے سختی سے اپنی آئینی حدود میں رہیں۔ لیکن معاملات اب جس نہج پر چل پڑے ہیں لگتا ہے ہمیں نظر بد لگ گئی ہے کہ سب الٹ پڑ گیا ہے۔ سیاسی محاذ آرائی نے اداروں کے درمیان تصادم کی راہ ہموار کردی ہے۔ اوپر سے ہائبرڈ وارفیئر کی تمام نشانیاں ظہور پزیر ہو چکی ہیں لیکن ان کے سدباب کی کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آ رہی۔ یہ ایک 'سٹریٹجک' معاملہ لگا۔ موجودہ سیاسی حالات میں یہ خشک لکڑی کو آگ دکھانے والی بات تھی۔ ملک ڈیفالٹ کے دہانے پرتھا تو نتائج سٹریٹجک ہوسکتے تھے۔ پتہ نہیں کیوں ہم۔میں میں 'ادارتی حس' جاگ اٹھی اور میں نے نہایت ہی سنجیدہ انداز میں میکن صاحب سے پوچھ لیا کہ کیا یہ انٹرویو کہیں نشر ہوا ہے۔ میکن صاحب ہمارے اس سوال پر سٹپٹا کر رہ گئے۔ ہم نے نہایت ادب وضاحت کی کہ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ زیادہ سے زیادہ آف دی ریکارڈ معاملہ ہوسکتا ہے، اسے انٹرویو کا رنگ دینا اور اس پر تجزیے اور تبصرے کرنے کے قانونی مضمرات تو ہیں ہی، یہ پیشہ وارانہ اخلاقیات کے بھی خلاف ہے۔ وہ ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سپاٹ چہرے کے ساتھ ہماری یاوہ گوئی سنتے رہے، ہم چپ ہوئے تو انہوں نے وہ سوال داغ دیا جسکا ہمارے پاس جواب تو تھا لیکن زمینی حقائق کے بر عکس : " کہاں کا قانون، کہاں کی صحافت اور کونسا پروفیشنلزم؟". رات گئے ہم نے سوشل میڈیا چیک کیا تو صدارتی ایوارڈ حاصل کرنے والوں کی لسٹ میں ایک ایسے بڑے صحافی کا نام بھی موجود تھا جنہوں نے باجوہ صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد انکا ایک تہلکہ خیز انٹرویو کیا تھا۔ اب اگر یہ حالات ہوں توں 'استاذ ہوراں' تو بیروزگار ہی رہیں گے نا۔