پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی صورتحال سنبھل نہیں پا رہی۔ ڈالر اوپر جا رہا ہے اسٹاک مارکیٹ گرتی چلی جا رہی ہے اورمہنگائی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس وقت مہنگائی 30 فیصد کے قریب ہے اور فی الحال کوئی سرا نظر نہیں آرہا کہ صورتحال بہتر ہو۔ پچھلے دو تین مہینوںسے صورتحال زیادہ خراب ہو گئی ہے- ابھی یکم اگست کو پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی پر 10روپے اضافہ کرنا ہو گا۔ اگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم نہ ہوئیں توتیل کی قیمتیں مزید بڑھانا پڑینگی۔ بجلی کے ٹیرف بڑھانے ہیں، گیس کے نرخ بڑھنے ہیں اور اس کے علاوہ بھی کچھ شرائط ہیں جو کہ آئی ایم ایف کی وجہ سے حکومت کو پوری کرنی ہیں۔ حکومت اس گو مگو میں ہے کہ پہلے ہی پنجاب کے ضمنی الیکشنز میں دیکھ چکی ہے کہ یہ تمام اقدامات سے حکومت کی مقبولیت میں کمی آ رہی ہے اسی وجہ سے حکومت کھل کر کوئی اقدامات نہیں کر رہی ۔روپے کی گراوٹ بڑھتی چلی جارہی اسے کہیں نہ کہیں توبریک لگانی پڑیگی۔ہم سب سری لنکا کی بات کرتے ہیں، سری لنکا میں لوگوں کے پاس سری لنکن روپے ختم نہیں ہوئے، ان کے پاس اپنی جو ذاتی رقم تھی وہ ختم نہیں ہوئی، حکومت کے پاس ڈالرز ختم ہو گئے۔اور پھر ڈالرز ختم ہونے کے بعد نجی امپورٹ،ادویات کی امپورٹ، خوراک کی امپورٹ بند ہو گئی۔ اب پاکستان میں بھی لوگوں کے پاس پیسے ختم نہیں ہوئے،حکومت کے پاس ڈالرز کم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں پر بہت کلیئر فیصلہ لینا ہو گا کہ آپ کی ضرورت کی امپورٹ کونسی ہے اور غیر ضروری امپورٹ کونسی ہے۔ چند ماہ کیلئے غیر ضروری امپورٹ ختم کرنی ہو گی۔ بنگلہ دیش کے جو ریزروز ہیں وہ ہم سے کہیں زیادہ ہیں لیکن بنگلہ دیش میں انرجی ایمرجنسی لگا دی گئی ہے۔ ایک دن پٹرول پمپس بند رہیں گے، دو گھنٹے کی لازمی لوڈشیڈنگ شروع کر دی اور اسی طرح دوسرے انرجی سیونگ اقدامات استعمال کرنا شروع کر دیے ہیں۔ ہمارے ہاں اگر لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ مارکیٹس جلدی بند کر دی جائیں تو وہاں ہڑتال ہو جاتی ہے۔دوسرے ملک بھی پاکستان کی مالی مدد تبھی کریں گے جب انہیں یقین ہو کہ پاکستان میں ایک مضبوط حکومت ہے۔یہ جوحکومتوں کے تعلقات ہوتے ہیں وہاں بھی ایک سیاسی غیر یقینی صورتحال ایمپیکٹ کرتی ہے۔ پی ٹی آئی کے آخری دور میں پی ٹی آئی نے کوشش کی تھی چائنہ سے رول اوور لینے کی، سعودی عرب سے کوشش کی تھی رول اوور لینے کی، لیکن چونکہ عدم اعتماد آچکی تھی تو دونوں دوست ممالک نے انتظار کیا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور اس کے بعد جو حکومت آئے گی وہ اس کے ساتھ معاملات طے کرے گی۔ ہمارے جو دوست ممالک ہیں ان کو شخصیات کے ساتھ نہیں حکومت کے ساتھ مطلب ہوتا ہے اور حکومت اگر غیر مستحکم ہے تو وہ ویٹ اینڈ سی کی پالیسی اختیار کرتے ہیں۔ہم اکیلے نہیں ہیں، کتنی ہی ایمرجنگ مارکیٹس ہیں جو بدقسمتی سے اس سائیکل میں پھنس گئی ہیں۔ اکانومسٹ میگزین کے مطابق سب سے زیادہ اس میں مصر ہے،اس کے بعدگھانا ہے اور پاکستان ہے جو کہ اس وقت ٹاپ فائیو ممالک میں آرہے ہیں جن کو کہا جارہا ہے کہ شاید ڈیفالٹ کر جائیں دنیا ۔ابھی کوویڈ سے نکلی نہیں تھی کہ یوکرین جنگ میں پھنس گئی اور اس میں بدقسمتی سے ہمارے جیسے ممالک متاثر ہورہے ہیں۔ ایک چیز جو موجودہ حکومت کر سکتی تھی وہ یہ کہ انرجی سبسڈیز جو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں رکاوٹ بن رہی تھی کو فوری طور پر ان کو رول بیک کیا جاتا تاکہ پروگرام شروع ہوتا۔ اگر آپ ٹائم لائن پہ دیکھیں تو سابق حکومت 5ہفتوں تک انرجی سبسڈیز دے کر گئی اور موجودہ حکومت نے 9ہفتے لگائے ان انرجی سبسڈیز کو رول بیک کرنے میں۔ تو اگر یہ صرف انرجی سبسڈیز کی بات ہو رہی ہے، لینڈ مائینز کی تو جو 14 ہفتوں کی تاخیر ہوئی ہے وہ دونوں حکومتوں کی طرف سے ہوئی ہے۔ کچھ ماہرین کے مطابق اس وقت معیشت سنبھل سکتی ہے اور سنبھل رہی ہے۔ ہمارا جو سب سے بڑا مسئلہ ڈالرز کے ذخائرہیں جو دن بہ دن کم ہوتے جارہے ہیں ۔اس کی بنیادی وجہ ہے کہ پاکستان کا امپورٹ بل بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اور اس کی بنیادی وجوہات بھی ہیں،ایک وقت تھا کہ پٹرول 120ڈالر فی بیرل سے زیادہ کا ہو گیا تھا، جو دوسری اشیا جو ہم استعمال کرتے تھے وہ بہت مہنگی تھیں لیکن اب عالمی صورتحال بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ جو اشیا ہم امپورٹ کرتے ہیں جس میں کروڈ آئل اور پام آئل ہے اس کی قیمتیں بہت نیچے آ گئی ہیں، اجناس کی قیمت جو ہم امپورٹ کرتے تھے ان کی قیمت بہت نیچے آگئی ہیں عالمی منڈی میں جولائی ،اگست کے بعد یقیناً مہنگائی کم ہو گی ۔بہت سی چیزوں میں بہتری آنا شروع ہو جائے گی۔ہمارے ملک میں جو سیاسی صورتحال ہے اس کا اثر ڈالر اور اسٹاک مارکیٹ پر پڑ رہا ہے ابھی آنے والے دنوںمیں روپے کی قدر مزید گرے گی۔ جیسے جیسے ہمارا امپورٹ بل کم ہو گا صورتحال بہتر ہوتی چلی جائے گی ابھی تین چار ماہ مشکل رہیں گے۔ پاکستان میں جو سیاسی ماحول ہے وہ کسی بھی طرح اس وقت انویسٹر یا انویسٹمنٹ کیلئے موزوں نہیں ہے۔آپ دنیا کو کیا میسج دے رہے ہیں کہ آپ ہر روز لڑ رہے ہوتے ہیں اور ہر روز کوئی نہ کوئی پولیٹیکل کرائسزہمارے سر پر ہوتا ہے۔اس صورتحال میں بیرونی سرمایہ کاری تو خیر کیا آئے گی ،ملک کے اندر بھی لوگ سرمایہ کاری روک دیتے ہیں کہ کل کو کیا بنے گا۔ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکل معاشی صورتحال بظاہر کسی بھی سیاسی جماعت کی توجہ کا مرکز نہیں ہے۔ ہر جماعت اس بات کی خواہاں دکھائی دیتی ہے کہ اسے کسی بھی طرح ایوانِ اقتدار پر قابض ہونے کا موقع مل جائے۔ یہ صورتحال اس لیے بھی بہت افسوس ناک ہے کہ عوام کے مسائل کا انبار سیاسی جماعتوں اور قائدین کی غیر سنجیدگی کے باعث بڑھتا جارہا ہے۔ اگر سیاسی قیادت واقعی ان مسائل کا حل چاہتی ہے تو اسے لڑائی جھگڑے اور الزامات کی سیاست کو ایک طرف رکھ کر ملک اور قوم کے وسیع مفاد میں کچھ ایسے فیصلے کرنا ہوں گے جن کے لیے سیاسی قائدین اور جماعتوں کو اپنے انفرادی اور گروہی مفادات کی قربانی دینا ہوگی۔ملک میں مہنگائی کا عفریت اسی طرح بے قابو دکھائی دیتا ہے۔ جیسے اب سے پہلے وہ بلا روک ٹوک دندناتا پھررہا تھا۔ عوام کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ حکومت کس کی ہے اور وہ معاشی استحکام کے لیے کون سی پالیسیاں اختیار کررہا ہے۔ وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں ان کی قوتِ خرید سے مطابقت رکھتی ہیں یا نہیں۔ اس صورتحال میں حکومت کی اہم ترین ترجیح اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں کمی لا کر استحکام پیدا کرنا چاہیے۔ مہنگائی کے مسلسل بڑھنے سے عوام کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کرے تاکہ عوام کے مسائل میں کمی آئے۔