وفاقی حکومت نے دوسال قبل سرکاری املاک اور اثاثوں کی نجکاری کا فیصلہ کیا۔ وزیراعظم عمران خان اور اُنکی کابینہ کو قائل کیا گیاکہ کاروبار کرنا سرکارکا کام نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری تحویل میںچلنے والے کمرشل اداروں کی کارکردگی نجی اداروں کے مقابلے میں ہرگزرتے دن کیساتھ گرتی جارہی ہے۔ بیشترسرکاری کمپنیاں خسارے میں چل رہی ہیں ۔ ان کمپنیوں کے باعث قومی خزانے کو سالانہ 400 ارب روپے سے زائد بوجھ برداشت کرنا پڑر ہا ہے۔ اس گرداب سے نکلنے کیلئے لازم ہے کہ خسارے میں چلنے والی کمپنیوں کیساتھ منافع بخش اداروں کو بھی فروخت کردیا جائے۔ اگر یہ قدم نہ اُٹھایا گیا تو منافع بخش ادارے بھی جلد تباہی سے دوچارہوجائیں گے۔ اسی طرح مختلف شہروں کی پرائم کمرشل لوکیشن پر واقع وفاقی حکومت کی جائیدادوں کو بھی فروخت کرنا لازم ٹھہرایا گیا ۔بالآخر نجکاری کمیٹی کی منظوری کے بعد سرکاری کمپنیوں اور املاک کی فروخت کا عمل شروع کردیا گیا۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ نجکاری کا عمل صاف شفاف انداز میں کیا جائے کیونکہ ماضی کی حکومتوں نے خریداروں کیساتھ گٹھ جوڑ کرکے سرکاری املاک کی نجکاری کی جس کے باعث قومی خزانے کو خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا ۔نجکاری کمیشن نے وزیراعظم کی ہدایت پر نجکاری کا عمل تو شروع کردیا مگر لگتا ہے کہ افسران شفافیت اور زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرنے کی ہدایت بھول بیٹھے۔ ان افسران کی ایک ایسی ہی واردات کابینہ نے خود ہی پکڑ لی ۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ نجکاری کمیشن نے 26 اگست کو سروسز انٹرنیشنل ہوٹل لاہور کو 1ارب 95کروڑ 10لاکھ روپے کی بولی موصول ہونے پر نیلام کرنے کا اعلان کیا ۔ ہوٹل کی ریزرو قیمت 1ارب 94کروڑ90لاکھ روپے تھی یعنی صرف 20لاکھ روپے اضافی بولی پر انتہائی قیمتی اراضی کو فروخت کرنے کا اعلان کردیا گیا ۔وفاقی وزیر برائے نجکاری محمدمیاں سومرونے نیلامی کو نجکاری کمیشن کی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا حکومت سرکاری ملکیتوں کی نیلامی میں میرٹ اور شفافیت پر یقین رکھتی ہے۔نیلامی کا بنیادی مقصد ملک پر قرضوں کے ادائیگی کا بوجھ کو کم کرنا تھا۔دوسری طرف بولی کی حتمی قیمت اوربنیادی قیمت کے درمیان معمولی فرق نے جائیداد کی لوکیشن کو دیکھتے ہوئے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں سوالات اٹھادئیے کہ آخر اپر مال پر 15 کنال پر مشتمل انتہائی پرکشش اور قیمتی اراضی کو اونے پونے دام پر کیوں فروخت کیا جارہا ہے۔نجکاری کمیشن کو بولی منسوخ کرکے دوبارہ اس عمل کو شروع کرنا چاہئے کیونکہ اس راضی کی مالیت مارکیٹ کے مطابق 6ارب روپے کے لگ بھگ بنتی ہے۔نجکاری کمیشن نے اس ڈیل کوپایہ تکمیل تک پہنچانے اور اراضی لاہور کے ایک ڈویلپرز کے نام پر منتقل کرنے کیلئے کابینہ کمیٹی نجکاری کو سمری بھیج دی۔ کابینہ کمیٹی نے موصول ہونیوالی بولی پرفروخت کرنے کی منطوری دیدی۔ اب وفاقی کابینہ سے اس فیصلے کی توثیق کی صرف مہر ثبت ہونا باقی تھی۔ نجکاری کمیشن کے افسران بغلیں بجارہے تھے کہ انہوں نے شاندار ڈیل کے ذریعے ہوٹل فروخت کردیاہے مگروفاقی کابینہ کے ارکان نے کم قیمت پر ہوٹل کی فروخت پر سوالات کی بوچھا ڑکردی۔ وفاقی کابینہ نے سروسز انٹرنیشنل ہوٹل لاہور کی کم قیمت میں فروخت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کی جانب سے ہوٹل کو ایک ارب 95 کروڑ روپے میں فروخت کرنے سے روک دیا ہے۔ ارکان نے حال ہی میں سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ لاہور میں نیلام ہونے والے پلاٹوں کے مقابلے میں ہوٹل کی کم بولی وصول ہونے کی وجوہات بارے دریافت کیا۔ کابینہ ارکان کو بتایا گیا کہ کم بولیاں وصول ہونے کی بڑی وجہ پاکستان سول ایوی ایشن کی جانب سے عمارت کی اونچائی زیادہ سے زیادہ 245 فٹ تک رکھنے کی پابندی ہے۔ وزیر خزانہ نے اجلاس کے دوران واضح کیا ہے کہ یہ مؤقف سراسر غلط ہے۔ وفاقی کابینہ پہلے ہی عمارات کی اونچائی کو 500 فٹ تک بڑھانے کی منظوری دی چکی ہے جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوچکا ہے۔وزیر خزانہ نے کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کے فیصلے کی فوری طور پر توثیق مؤخر کرنے کی تجویز دی تاکہ کمیٹی حقائق کی دوبارہ تصدیق کرسکے۔ ساری کارروائی کنفیوژن میں ڈالنے کی کوشش تھی جسے کابینہ نے پکڑ لیا ۔ ایک بات تو واضح ہوگئی ہے کہ اب اس بولی پر اپر مال کی 15کنال سرکاری اراضی پر مشتمل ہوٹل اونے پونے دام پر فروخت نہیں ہوسکے گا۔ نجکاری کمیشن کے پاس اس بولی کو منسوخ کرنے کے سوا کوئی آپشن دکھائی نہیں دے رہا۔ دوسری جانب وفاقی حکومت نے آئندہ الیکشن نئی مردم شماری کی روشنی میں کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مردم شماری ایڈوائزری کمیٹی نے 16سفارشات پر مشتمل رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ تنازعات سے بچنے کیلئے لازم ہے کہ اپوزیشن سمیت تمام سٹیک ہولڈرز سے اقوام متحدہ کے وضع کردہ اصولوں کے عین مطابق مردم شماری کے طریقے ہائے کار پرمشاورت کی جائے کیونکہ چھٹی مردم شماری کے نتائج پر وزیر اعلیٰ سندھ نے عدم اتفاق کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ کو ریفرنس بھیج دیاتھا۔چھٹی مردم شماری پر آج تک متنازع ہے۔ اب ساتویں مردم شماری میںجدید ٹیکنالوجی کے استعمال کیساتھ جی پی ایس اور جی آئی ایس سافٹ وئیر کے ذریعے حدبندیاں کی جائیں گی تاکہ سارا عمل انتہائی شفاف ہو اور تمام جماعتیں نتائج پر متفق ہوسکیں۔وفاقی حکومت میں ساتویں مردم شماری کیلئے پاک فوج کی خدمات حاصل کرنے پر اتفاق رائے قائم نہیں ہوسکا۔ وزراء حیران کن طور پر تقسیم دکھائی دیتے ہیں۔ پاک فوج کی خدمات حاصل کئے بغیر مردم شماری ایک بہت بڑا چیلنج ہوگی۔ وزیراعظم نے پاک فوج کی خدمات پراتفاق رائے قائم کرنے کیلئے وزراء کو اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی ٹاسک سونپ دیا ہے۔شفافیت کے تناظر میںقومی مفاد بھی یہی ہے کہ فریقین کو ساتھ لیکر چلا جائے اور حکومت وقت تو نعرہ بھی یہی لگا کر مسند اقتدار پر بیٹھی’صاف چلی شفاف چلی‘۔