سرینگر،نئی دہلی،مظفرآباد (نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک)مقبوضہ کشمیر میں قابض حکام نے بھارتی وزرا کے ایک گروپ کے دورے کے موقع پر پہلے سے محصور وادی کشمیر اورجموں خطیکے مختلف علاقوں میں سکیورٹی کے نام پرپابندیاں مزید سخت کردی ہیں۔ کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق اتوار کو مسلسل 168ویں روز بھی جاری فوجی محاصرے اور انٹرنیٹ کی معطلی کے دوران ہی گاڑیوں کی نقل وحرکت پر پابندی عائد کی گئی اور لوگوں کو گھروں میں رہنے پر مجبورکیا گیا۔ جموں وکشمیر نیشنل پینتھرز پارٹی کے چیئرمین ہرش دیو سنگھ نے اپنے بیان میں بھارتی وزراکے نام نہاد ورہ کشمیرپر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ بی جے پی نے انتخابات سے پہلے ماحول کو اپنے حق میں کرنے کیلئے یہ ڈرامہ رچایا ہے ۔دریں اثنا انٹرنیٹ سروس کی جزوی بحالی کے بارے میں قابض حکام کے اعلانات محض دھوکہ ثابت ہوئے ، بھارتی ذرائع ابلاغ نے خود تصدیق کردی کہ سرینگر ، بڈگام ، گاندربل ، بارہمولہ ،اسلام آباد ، کولگام ، شوپیاں اور پلوامہ اضلاع میں موبائل انٹرنیٹ مکمل طورپرمعطل ہے ۔ ادھربھارتی شہرحیدرآباد میں سینکڑوں کشمیری طلبہ نے حیدرآباد یونیور سٹی کے باہر جمع ہوکرمقبوضہ کشمیر میں ریاستی جبر اور مسلسل لاک ڈائون کیخلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ طلبہ نے یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ کے سامنے دھرنا دیا ،اس موقع پرانقلابی اشعار پڑھے اور نعرے بلند کئے ۔ جموں وکشمیر سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے صدر حدیف نثار نے کہا کہ یہ احتجاج ان بہت سی ناانصافیوں کیخلاف ہے جو بھارتی حکومتیں کشمیریوں کیساتھ مسلسل کرتی آئی ہیں۔ کشمیری پنڈت طالبہ آکرتی سریش نے اپنی برادری کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو مذہبی اورفرقہ وارانہ رنگ دینے میں بھارتی حکومتوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بھارتی حکومتوں نے پنڈتوں کو متواترکشمیری مسلمانوں کیخلاف کھڑا کیا اس سے وہ بڑی سازش بے نقاب ہوتی ہے جس کے تحت کشمیر کو ہمیشہ کیلئے جنگ زدہ علاقہ بنا کر رکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ بھارتی حکمران مذاکرات سے مسئلہ کشمیر کے حل میں دلچسپی نہیں رکھتے ۔سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن جنرل سیکرٹری ارمان کاظمی نے کہا کہ کیا بھارت واقعتاً ایک جمہوریت ملک ہے ؟۔ لوگوں کولاپتہ کرنا ، تشدد ، قتل عام اورنظریہ جمہوریت کیسے ایک ساتھ چل سکتے ہیں؟۔ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر احتجاجاًمستعفی ہونیوالے بھارت کے سابق آئی اے ایس افسر کنن گوپی ناتھن کو الہ آباد کے ہوائی اڈے پر پولیس نے گرفتار کر لیا۔ بھارتی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والے کنن گوپی ناتھن ہفتے کو دہلی سے الہ آبادپہنچے تھے جہاں انہیں آل انڈیا پیپلز فورم کے زیر اہتمام شہریت بچائو ، آئین بچائو اور جمہوریت بچائو سمپوزیم سے خطاب کرنا تھا۔ سابق آئی اے ایس افسر نے ہوائی اڈے سے کئی ٹویٹس کرتے لکھا کہ مجھے نظربند کیا گیا ہے ۔ ادھرکل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کے رہنمائوں محمد فاروق رحمانی ، عبدالمجید ملک اور کشمیر کونسل یورپ کے چیئرمین علی رضا سیدنے بیانات میں بھارت کے چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت کے بیان کی شدید مذمت کی ہے جس میں کشمیر ی بچوں کو نام نہاد حراستی کیمپوں میں نظربند کرنے کیلئے کہا تھا۔ انہوں نے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں پر زوردیا کہ وہ بھارتی جنرل کے بیان کا نوٹس لیں۔ ادھربھارتی وزارت داخلہ کی ویب سائٹ نے وادی کشمیر کی آبادی کے بارے میں مضحکہ خیز دعویٰ کرتے ہوئے اسکی آبادی کو 10 گنا کم ظاہرکیاہے ۔ ویب سائٹ پرمردم شماری 2011کے مطابق وادی کشمیر کی اصل آبادی69,07,623 کے بجائے محض 5,35,811دکھائی گئی ہے ۔یہ غلطی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر موضوع بحث بن چکا ہے ۔ ادھرسی پی آئی ایم نے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ کشمیر میں گرفتارکئے گئے تمام سیاسی رہنماؤں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے ۔