کراچی ( سٹاف رپورٹر ) سپریم کورٹ نے شہر کراچی کا ازسرنو جائزہ لینے کے معاملے پر کراچی کا ڈیزائن دوبارہ بنانے کا حکم دے دیا۔ جمعہ کو عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ بتایا جائے کراچی کو جدید ترین شہر کیسے بنایا جا سکتا ہے ،عدالت نے سول انجینئروں، ماہرین اور شہری منصوبہ سازوں سے مدد حاصل کرنے اور آگہی مہم چلانے کا بھی حکم دیا ، عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت پرسندھ حکومت کی تجاویز کا جائزہ لیا جائیگا۔ اٹارنی جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے کہا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ اچھی تجویز دیں گے ،کمیٹی بنادی ،میں خود بتاؤں گا کہ کراچی کے مستقبل کے لیے کیا حتمی پلان ہے ۔ اس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ پتہ نہیں چل رہا کہ کس پر بھروسہ کریں۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے پی آئی اے کی زمین پر شادی ہالز بنانے کے خلاف دائر درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے یونیورسٹی روڈ پر قائم شادی ہال کو فوراً گرانے کا حکم دیتے ہوئے پی آئی اے سے ان کے تمام شادی ہالز سے متعلق آج رپورٹ طلب کر لی۔پی آئی اے کی طرف سے جنرل منیجر لیگل پی آئی اے عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ہم نے شادی ہالز گرا دیئے ۔ اس پرچیف جسٹس نے اظہار حیرت کرتے ہوئے کہا کہ کیا کہہ رہے ہیں،میں کل ہی شادی ہال دیکھ کر آیا ہوں،یونیورسٹی روڈ پر ہال موجود تھا۔عدالت نے یونیورسٹی روڈ پر قائم شادی ہال کو فورا گرانے کا حکم دیا۔سپریم کورٹ نے کراچی میں غیرقانونی تعمیرات کے معاملے کی سماعت کے دوران ہدایت دی کہ پنجاب کالونی، دہلی کالونی، پی این ٹی کالونی اور گزری روڈ پر غیرقانونی تعمیرات گرادی جائیں۔جمعہ کوسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل بینچ نے شہر قائد میں سرکاری زمینوں پر قبضے ، ان پر عمارتیں اور کالونیاں بنانے ، شہر کی ازسر نو بحالی، کے پی ٹی کی زمین اور دیگر معاملات پر سماعت کی۔ عدالت نے پوچھا کہ کنٹونمنٹ قوانین میں رہائشی علاقوں میں کتنی منزلہ عمارت بن سکتی ہے ؟ پی این ٹی کالونی میں بلند و بالا عمارتیں کس کی اجازت سے تعمیر ہوئیں؟جس پر کنٹونمنٹ بورڈ کے حکام نے بتایا کہ رہائشی علاقوں میں گراؤنڈ پلس ون کی اجازت ہے جبکہ کمرشل علاقوں میں زیادہ سے زیادہ 5 منزلہ عمارت کی تعمیر کی اجازت ہے ۔اس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کس دنیا میں رہ رہے ہیں،وکیل نے بتایا کہ دہلی کالونی میں گراؤنڈ پلس ون کی اجازت ہے ، اس پر عدالت نے کہا کہ لگتا ہے آپ دہلی کالونی گئے ہی نہیں ۔ڈائریکٹر لینڈ کنٹونمنٹ نے بتایا کہ پی این ٹی کالونی میں عمارتیں غیرقانونی طور پر تعمیر ہیں، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ایک ایک فلیٹ آپ نے 5 کروڑ روپے کا فروخت کیا اور اب کہتے ہیں کہ غیرقانونی تعمیرات ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ کسی دور میں طارق روڈ پر صرف 2 ہوٹل اور ایک بینک ہوتا تھا، اب بہادر آباد، سندھی مسلم سوسائٹی، پنجاب کالونی، ایف بی ایریا، پی این ٹی اور دیگر کالونیوں کا حال کیا ہے ؟، 9، 9 منزلہ عمارتیں بن رہی ہیں، ان سب کو گرائیں۔ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ پنجاب کالونی، دہلی کالونی، پی این ٹی کالونی میں غیرقانونی تعمیرات اور گزری روڈ پر بھی غیرقانونی عمارتیں گرادیں۔کراچی میں مسائل بہت سنگین ہوگئے ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کچی آبادیوں کے رہائشیوں کے لیے کثیرالمنزلہ عمارت بناکر وہاں منتقل کیا جائے ،لائنز ایریا کی کچی آبادیاں ختم کریں،یہ قائد اعظم کے مزار کے پاس جھومر کی طرح لٹکی ہوئی ہیں، قائد اعظم کے مزار کے پاس فلائی اوور نہیں ہونا چاہیے تھا،شاہراہ قائدین کا نام تبدیل کرکے کچھ اور رکھیں۔ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت میں اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ آپ صرف سندھ حکومت پر انحصار کریں گے تو صرف 'وائٹ واش' نظر آئے گا، اگر کچھ ہوسکتا ہے تو صرف آپ کرسکتے ہیں، آپ ہی درست کرسکتے ہیں۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ریلوے ٹریک سے 6 ہزار لوگوں کو بے گھر کردیا گیا۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف ووٹوں کے تناظر سے دیکھتے ہیں لیکن ہم ووٹوں کے حساب سے نہیں دیکھتے ، آپ کو اتنی پریشانی ہے تو انہیں بسانے کے لیے قانون سازی کردیں۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ صوبائی حکومت کے 100 ارب روپے وفاق پر واجب الادا ہیں، یہاں وسائل نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر 100 ارب مل بھی جائیں تو کیا ہوگا، ایک پائی لوگوں پر نہیں لگے گی، تھر میں نام نہاد 105 ارب روپے لگائے گئے لیکن(ویسے )ایک پائی نہیں لگائی،سارا پیسہ تو باہر چلا گیا۔عدالت نے مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران کلفٹن بوٹ بیسن کے قریب نہرخیام پر سبزہ اور پارک بنانے کا حکم دے دیا۔علاوہ ازیں عدالت نے کالاپل سے متصل دونوں جانب کھلی اراضی پرتجاوزات ہٹاکر 3ماہ میں پارک بنانے کا حکم دیا۔عدالت نے کالا پل کے قریب نجی ہسپتال کی پارکنگ بھی ختم کرنے کا حکم دے دیا۔عدالت میں سماعت کے دوران کراچی پورٹ ٹرسٹ کی زمین پر کمرشل سرگرمیوں کا معاملہ بھی زیرغور آیا۔ عدالت نے وکیل سے پوچھا کہ آپ زمین کے مالک نہیں، آپ کو کے پی ٹی کی سرگرمیوں کے لیے زمین دی گئی تھی،آپ خود کو کے پی ٹی لینڈ الاٹ کررہے ہیں، اس کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی۔چیف جسٹس نے کہا کہ میں چیف جسٹس ہوں تو کیا سپریم کورٹ کی زمین خود کو الاٹ کرسکتا ہوں؟مجھے چیف جسٹس سپریم کورٹ چلانے کے لیے بنایا گیا ہے زمین اپنے نام کرنے کے لیے نہیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ کے پی ٹی کی زمین پر کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی نہیں بنائی جاسکتی، عدالت نے تمام مقدمات کی سماعت 21 فروری تک ملتوی کردی۔