قومی تاریخ کی داستان بہت طویل ہے اس کتاب کے ہر باب کا عنوان ہمیں جھنجوڑکر دعوت دیتا ہے کہ ہم اب بھی سنبھل جائیں صحافتی زندگی میں وہ لمحات بھی آئے جب وہ خبر ملی جو ناقابل یقین تھی۔امن و امان کی کرچیاں آگ اور خون کے درمیان زندگی اور پھر جیسے سب کو چپ لگ گئی ۔جس نے سنا بدن لرز گیا ،بے نظیر اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔ 18اکتوبر کو کراچی میں کارساز کے سانحہ کو تھوڑا ہی وقت گزرا تھا فضا میں خوف اور غیر یقینی تھی وہ سینئر صحافیوں سے ملاقات کر رہی تھیں ہم میں سے شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ ان سے آخری ملاقات ہے ۔ وہ کہہ رہی تھیں پاکستان میرا وطن ہے ،میری دھرتی ہے۔ ہم نے قربانیاں پہلے بھی دی ہیں 18اکتوبر کی رات کو بھی دی ہیں میں اپنوں کے درمیان ہوں۔ مجھے ان بم دھماکوں سے نہیں ڈرایا جا سکتا میں عوام کا راستہ کسی قیمت پر نہیں چھوڑوں گی۔انہیں ان کی منزل اور آخری فتح تک لے کر جائوں گی۔پھر وہ ہمیشہ کے لئے چلی گئیں یہ ہماری تاریخ کا ایک تکلیف دہ موڑ تھا،پوری قوم کو رنجیدہ اور افسردہ کر دینے والے لمحات تھے۔ قومی تاریخ کے صفحات پلٹتے جائیں ۔ہر صفحے پر ایک پوری داستان ہے ۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے بھرے جلسے میں اکبر نامی شخص نے قریب سے گولی چلا کر شہید کر دیا ہم آج تک کھوجیوں کی طرح صرف اندازے لگاتے پھر رہے ہیں ۔کوئی قطعیت کے ساتھ یہ نہیں بتا رہا کہ قاتل کون تھا اس کے کیا مقاصد تھے اس کا ماسٹر مائنڈ کون تھا۔ پھر نسل در نسل یہ سفر بحرانوں کی آہٹ کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔اب ایک ایسی نسل سامنے آ رہی ہے جو ماضی اور تاریخ پاکستان کے متعلق بالکل اندھیرے میں ہے۔ آپ بین الاقوامی تاریخ پر نظر ڈالیں کون مائی کا لعل کہتا ہے کہ ماضی نہیں بدلا جا سکتا۔ گزشتہ سوا سو برس سے آرڈر پر ماضی تیار کرنے والی لیبارٹری سے جو نسل تیار ہو کر نکلی وہ یہ جاننے اور ماننے کے لئے تیار نہیں کہ 1948ء میں اسرائیل بننے سے پہلے بھی کوئی قوم ہزاروں برس سے یہاں بسی ہوئی تھی۔جسے فلسطین کہتے ہیں ہم بڑی شدومد سے یہ بحث تو کرتے ہیں کہ عیسائی، یہودی اور ہندو کہاں سے کہاںنکل گئے، چین کی ترقی دیکھ کر ہماری عقل دنگ ہے ہم باتیں کرتے ہیں لیکن سوچتے نہیں کہ عروج و زوال کی اس داستان کا معاملہ کیا ہے۔مسلمانوں سے کوتاہیاں ہوئی ہیں ۔اس کتاب کے ہر عنوان پر ہماری کوتاہیاں صاف دکھائی دے رہی ہیں ہم سوچتے ہیں کہ آخر اس 75برس کا آڈٹ کیسے کیا جائے۔یہ آڈٹ کرنے کے لئے کئی کتابیں لکھنی پڑیں گی لیکن مختصراً اس بات کی نشاندہی ضرور کی جا سکتی ہے کہ جو کام ہم نے ان سات دہائیوں میں کئے ان کا نتیجہ کیا نکلا ۔ہم نے اسلحے کے انبار لگا کر دیکھ لئے ،ہم نے آبادی بڑھا کر دیکھ لی،مذہب کا استعمال کر کے دیکھ لیا ،فحاشی و عریانی کو ہنر بنا کر دیکھ لیا، آمریت کا مزا چکھ کر دیکھ لیا۔ہم نے خود کو لسانی علاقائی اورفرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کر کے دیکھ لیا،ہم نے جب یہ ملک بنایا تھا تو یہ سوچا تھا کہ اس کا کوئی مقصد ہونا چاہئے ہمارے بانیوں نے بھی اس ملک کو بنانے کا مقصد صراحت سے لکھ دیا ہے۔ لیکن ہم نے پورے سفر رک کر یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کی کہ ہم جو کچھ کرنے جا رہے ہیں اس کی کوئی شیٹ اور ریکارڈ تو بنا لیں کوئی آڈٹ تو کرلیں فائدے اور نقصان کا کوئی تخمینہ تو لگا لیں۔ یہ ایک طویل بحث ہے لیکن آج ہم جن حالات سے دوچار ہیں صاف نظر آ رہا ہے دیوار پر کیا لکھا ہے۔ عقل کا تقاضا یہ تھا کہ ان تمام باتوں سے رجوع کیا جائے اور وہ پالیسیاں اپنائی جائیں جو ترقی کے منازل طے کرتے کامیاب ممالک نے نارمل انداز میں اپنا رکھی ہیں۔ وقت ہے کہ اب بھی پیچھے مڑ کر دیکھ لیں کہ ہم کیا گنوا چکے۔اٹکل پچو کا نتیجہ صفر نکلتا ہے اور یہ قدرت کا قانون ہے اور قدرت اپنے قانون نہیں بدلا کرتی، اپنے قومی سفر میں ہماری گاڑی ڈگمگاتے ہوئے چل رہی ہے۔سیاسی معاشی اور معاشرتی بحرانوں کا سامنا ہے، آگے ہمیں کئی موڑ نظر آ رہے ہیں، سڑک بھی تنگ ہے اور موڑ بھی خطرناک۔ ہمیں یہ خوف بھی پریشان کر رہا ہے کہ ہماری گاڑی پہلے بھی کئی حادثات کا شکار ہو چکی ہے۔ ہمیں اندرونی اور بیرونی کئی مشکلات کا سامنا ہے ایسی صورت میں جب عالمی سطح پر نئی بساط بچھ رہی ہے ،نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں ،ہمیں اس صورت حال میں ایک طرف اپنی سیاسی معاشی اور قومی خود مختاری کے تحفظ کے چیلنج کا سامنا ہے تو دوسری طرف ہمیں پھر کسی اور جنگ میں الجھنے سے دور رہنا ہو گا۔ہم نے افغان جنگ میں کودنے سے پہلے اسباب و غلل اور نتائج کا جائزہ لیا ہوتاتو ہم کئی حادثات سے بچ سکتے تھے۔ ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ ہمارے بہت سے ڈرائیور گاڑی کو غلط سمت لے جاتے رہے۔ کئی ایک نے حادثات بھی کروا دیے ورنہ ملک دولخت نہ ہوتا۔ آج ہم اپنی تاریخ کے ایک مشکل موڑ پر کھڑے ہیں ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہمارا اگلا قدم کیا ہو گا یقینا پاکستان کے عوام ایک ایسی جمہوریت اور اسلام کے خواہاں ہیں جو ان کی فلاح و بہبود اور بہتر دنوں کی ضمانت فراہم کرے کیونکہ ملک کی زوال پذیر معیشت کے سبب مہنگائی کے سونامی نے انہیں دبوچ رکھا ہے ۔صنعت کا پہیہ رک گیا ہے جس کے سبب مواقع سکڑتے چلے جا رہے ہیں ۔حکومت کی کارکردگی پر لاتعداد سوالات نمایاں ہو گئے ہیں۔ عمران خان جنہوں نے گزشتہ ایک سال سے ہلچل مچائی ہوئی تھی 9مئی کے واقعات نے ان کے مستقبل کو اندھیرے میں دھکیل دیا ہے۔ وہ نہ صرف خود اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں بلکہ ان کے وہ ساتھی بھی بھگت رہے ہیں جو برجستگی میں ایک مرید کی طرح وہ کچھ کرتے چلے گئے ان تمام ریڈ لائن عبور کرنے کی کوشش کی ۔9مئی کے واقعات نے نہ صرف قومی جذبات کو مجروح کیا بلکہ سیاسی محاذ پر سب سے توانا آواز سمجھے جانے والے اب یہ جنگ ہارتے نظر آ رہے ہیں۔۔ یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا بحران ہے کہاں پارٹی میں شامل ہونے کے خواہشمند قطار در قطارکھڑے نظر آتے تھے 9مئی کے بعد اعلان لاتعلقی سیاست سے تائب ہونے اور اس سے بڑھ کر اپنے قائد پر تنقید کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ چند روز قبل تک پی ٹی آئی کی کھڑی مضبوط عمارت کی اینٹیں ناقابل یقین رفتار سے نکل کر ملبے کا ڈھیر بنتی جا رہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف پی ٹی آئی کے ان بکھرتے دانوں کو پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں اپنی تسبیح میں پرونا چاہتی ہیں دوسری طرف مسلم لیگ ن پی ٹی آئی کی تباہی کے ڈھیر پر اپنی بقا اور دوبارہ امکانات کے خواب دیکھ رہی ہے اس موڑ پر پاکستانی قوم توقع کر رہی ہے کہ غیر یقینی کی یہ کیفیت جلد جلد ختم ہو۔ نیا سفر شروع ہو جس میں ان کے لئے عافیت اور بہتر دنوں کی امید ہو۔