میں نے خانقاہ شریف کے نواح میں آباد ایک زمیندار سے ایک دفعہ بہاولپورمیں زراعت کے مستقبل پر سوال کیا تو اس نے بغیر کسی توقف کے پانی کی عدم دستیا بی کی بات کی۔ ستلج بیچے جانے کے بعد بہاولپور میں زراعت کاری کے لیے درکار پانی اپرپنجاب سے آتا ہے، المیہ یہ ہے کہ اگر ضلعین کیا پورے پنجاب میں سیلاب آجائے تو بھی بہاولپور کو اتنا ہی پانی ملے گا جو میلسی سائفن سے گزر پائیگا۔ بہاولپور کی میعشت پر یہ تبصرہ اگر چہ تلخ تھا لیکن میں پانی کے مسئلے پر جتنی گہرائی میں سوچتا ہوں۔، اس زمیندار دوست کی حقیقت پسندی کی داد دیتا ہوں۔ زیرزمین پانی کی سطح گرنے اور صحت مند پانی کی شہر میں ، حتی کہ بہا ول پور کے سماجی اور نفسیاتی مسائل کا حل ستلج ہے۔سارا سال بہتا ، جیتا جاگتا، دریا۔ دریا بہے گا تو خطے کی زندگی میں چہل پہل رہے گی۔ پوری ایک دہائی کی خشکی نے خطہ بہاول پور کی معیشت اور اسکے نتیجے میں سماج پر جو مضر اثرات چھوڑے ہیں اس پر پوری کتاب چاہیے۔شاعروں نے اس دریا کی بربادی پر نوحے لکھے ہیں، بیٹ اور بیلے اجڑنے اور نتیجے میں درآئی غربت پر ادیبوں نے قلم اٹھایا ہے، سیاستدانوں نے دریا کی بحالی کو اپنی سیاست کا موضوع بنایا ہے۔ پچھلے سال یہ دریا بہا تو میں نے بہاول پور سول سوسائٹی کے تاثرات ریکارڈ کیے۔ایک خاتون دعا گو تھیں کہ دریا سال میں ایک دفعہ ، چند دنوں کے لیے ہی سہی ،بھر پور انداز میں بہے۔ اس کے کناروں پر بیٹھے لوگوں کا ہجوم ایک میلے کی کیفیت کا پتہ دے۔ اس میں کشتیا ں اور بیڑے چلیں، ویسے ہی جیسے قصے کہانیوں میں سنے تھے، وہی سب کچھ جو بڑھاپے کی حد میں قدم رکھتی نسل نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ روہی کی ویرانی لوگوں کے سامنے تھے، ستلج کی بندش سے اس خطے کے لوگ مایوسی کے دلدل میں پھنسے ، کچھ ایسے بھٹکے کہ تشدد کے راستے پر جا نکلے۔ اب دریا بہہ پڑا ہے تو ہم اپنے آپ کو پہچان رہے ہیں۔ پروفیسر عصمت اللہ کی گفتگو سے مجھے جو تاثر ملا ، اور یہ تاثر ایک سال گزرنے کے باوجود بھی قائم ہے ، کہ دریا بہہ رہا ہوتو وہ دریا کے ہی ہو رہتے ہیں۔ گھر یا کالج جدھر بھی جاتے ہیں، دریا کنارے ہی لوٹتے ہیں۔ دریا کی آمد پر انہوں نے اس پر باجماعت گل پاشی کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو بہتا دریا اور اس میں چلتے بیڑے دکھانے کے لیے اکثر اپنے ساتھ لاتے ہیں تاکہ انہیں ستلج سے جڑیان قصوں اور کہانیوں پر یقین آئے جو وہ انہیں بچپن سے سناتے آرہے ہیں۔ دریا پار سے سرکاری ملازمت کے سلسلے میں بہاولپور میں قیام پزیر ایک دوست کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہمیشہ ستلج کے دامن میں ریت اڑتے دیکھی تھی، دریا بہنے کی دیر تھی ایسا لگتا تھا کہ سارا شہر اسکے کنارے امڈ آیا تھا۔ دریا سے لوگوں کی محبت دیکھنا اور محسوس کرنا انکے کے لیے ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ دیگر دوستوں کے ساتھ ٹیلیفونک گفتگو سے مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ لوگوں کو کامل یقین تھا کہ دریا اس دفعہ زور شور سے پہنچ رہا ہے۔ بھارتی پنجاب اور کشمیر میں ہونے والی بارشوں کی شدت کا لوگوں کو پتہ تھا۔ مون سون دورانیے کے طویل ہونے سے لوگوں کی امیدیں مضبوط ہوئی تھیں۔ انکا کہنا تھا کہ وہ سیلابی ریلہ گزرنے کے بعد اگلے مون سون کے انتظار میں لگ جائیں گے۔ اور موضوع گفتگو ہونگے وہی پرانے سوال: کیا اس مون سون میں دریا آئے گا، آئے گا تو کتنا۔ اس موقع پر میں سابق سینیٹر محمد علی درانی سے بات کرنا نہیں بھولا۔ میری ان سے اس وقت بات ہوئی تھی جب وہ ستلج بحالی تحریک میں سرگرم تھے۔ وہ دریا کے سوکھنے کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح گرنے کے نقصانات سے آگاہ تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ دریا کا سودا ضرور ہواتھا لیکن بھارت کو زرعی پانی کے استعمال کا حق ملا تھا نہ کہ اس پانی کا بھی جو آبی حیات اور کنارے بسی آبادیوں کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ انکے خیال میں حکومت پاکستان کو یہ مسئلہ ہمسایہ ملک کے ساتھ سفارتی سطح پر اٹھانا چاہیے ، اگر نہ سنے تو سندھ طاس معاہدے کے ضامن، عالمی بنک، سے رجوع کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ دریا کے بہنے سے ان کا اسے سارا سال بہتے دیکھنے کا عزم پختہ ہوگیا ہے۔ خطے کی سیاست کا اس سے بڑھ کر کیا نقطہ ہوسکتا ہے؟ مجھے جہانگیر مخلص سے بات کرنا تھا جسکی شاعری میں دریا، بیڑے اور اس میں سوار باراتیں ہیں۔ وہ شاعر جس نے اس دریا کا نوحہ لکھا، اس کے کنارے سسکتی زندگی، آخری سانسوں میں اٹکی تہذیب اور دور دور تک پھیلے غربت اور یاسیت کے سایوں کا تعاقب کیا۔ میرا ان سے گفتگو کا مقصد ان کو یہ بتا نا تھا کہ انکی شاعری نے لوگوں کو ستلج سے عشق کرنا سکھایا ہے۔ انکا عشق اتنا طاقتور ہے کہ دریا کو کھینچ لا سکتا ہے۔دریا کو زندہ ہوتے انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ، خوشی اور مسرت کے جن لمحوں نے انہوں چھوا ہے۔ اور ان سے کبھی باہر نہیں نکلیں گے۔ میرے پاس ماہرین موسمیات کی گواہی تھی کہ جو پچھلے سال ہوا تھا بہت کچھ غیر معمولی تھا۔ یعنی مون سان کا دو مہینوں تک پھیلنا ، برسات بھری گھٹاوں کا ستلج اور بیاس کے علاقوں پر برسنا، صدی بھر کے انکے ریکارڈ میں ایسی مثال نہیں تھی۔ مجھ حیرت اور استعجاب کے مارے کا انہیں کریدنا اور ان کا یہ جواب کہ مون سون کا نئے علاقوں کی طرف رحجان تو ثابت ہے لیکن ابھی یہ طے نہیں ہوسکا کہ ایسا رحجان مستقل ہے یا عارضی۔ اس وقت تو بات نہ سکی لیکن پچھلے جاڑے میں ایک دوست کی مہربانی سے ان سے بات بھی ہوئی تو سارا وقت ان سے جان پہچان پکی کرنے میں گزرگیا۔ اب کب ان سے ستلج کنارے ملاقات ہو اور دریا ئے عشق کی بات چھڑے!