دانیال اس سال ہائی سکول گیا ہے۔ہم نے سکول کی پرنسپل سے ایک دو ابتدئی ملاقاتیں کیں اور ان سے سکول کے ماحول کے بارے میں ڈسکس کیا کہ بچوں کو کیا نئی چیزیں پیش آسکتی ہیں برسبیل تذکرہ اسکول بلنگ(bullying) پر بھی بات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ بلگ کرنے والے طالب علموں کے والدین کے ساتھ ہم میٹنگ رکھتے ہیں طالب علموں کے ساتھ ان کی بھی کونسلنگ کرتے ہیں کیونکہ یہ رحجان ان کی تربیت میں کسی خلا کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہم نے دانیال کی بھی اسی اسکول بلنگ کے حوالے سے کچھ ذہنی تربیت کی ایسی صورت حال کو کیسے سنبھالنا ہے۔ میں نے بلنگ کے حوالے سے کافی چیزیں پڑھیں ویڈیوز دیکھیں تاکہ اپنے بیٹے کی اس حوال رہنمائی کرسکوں اب صاحب زادے مکمل تیار تھے کہ وہ اپنے سکول میں جاکر ان بچوں کو بچائیں گے جو ساتھی ہم جماعتوں کی بد تہذیبی کا شکا ر ہوتے ہیں۔ خدا کا شکر کہ ہائی سکول میں معاملہ بہت اچھا جارہا ہے صاحبزادے االبتہ زیادہ خوش نہیں کہ ابھی تک انہیں کسی ساتھی بچے کو bullying سے بچانے کی نوبت کیوں نہیں آئی بلنگ (bullying) انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کا اردو میں سیدھا سادہ مفہوم غنڈہ گردی یا ایذا رسانی ہے جوجسمانی بھی ہوسکتی ہے اور زبانی کلامی بھی ،طعنوں سے آ پ دوسرے کو گھائل کرسکتے ہیں ۔جسمانی یا زبانی کلامی ایذا رسانی کرنے والے دوسرے کو عدم تحفظ کا شکار کرکے اس صورتحال سے لطف اٹھاتے ہیں نفسیات میں ایسے لوگوں کو اذیت پسند کہتے ہیں۔ دوسروں کو ستانے اور اس سے لطف اٹھانے کا یہ کھیل یا خواہش اگر کسی میں بڑھ جائے تو یہ ایک مرض تصور ہوتا ہے۔ ایسے انتشار پسند لوک معاشرے کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں حال ہی میں مریم اورنگ زیب لندن میں بعض لوگوں کی بد تہذیبی کا شکار ہوئی ہیں۔ٹیکنالوجی کا کمال ہے کہ اب کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں رہتا ،دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ویڈیو کی صورت میں سب کے سامنے آ جاتا ہے کوئی زیب داستان کے لیے بات کو بڑھا نہیں سکتا اور نہ ہی کوئی جھوٹا اپنی بے گناہی اپنے جھوٹ کے بل بوتے پر ثابت کرسکتا ہے۔ ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ لندن میں میں لڑکے اور لڑکیوں کا ایک گروہ مریم اورنگزیب کا پیچھا کر تا ہے اورانہیں ہراساں کر تا ہے۔ایک لمحے کے لئے مریم اورنگزیب کی شناخت چھپا کر فرض کرتے ہیں کہ ایک خاتون اپنے دھیان اپنے کام سے جا رہی ہے۔اس کے پیچھے بدتمیز لڑکے لڑکیوں کا ٹولہ لگ جاتا ہے۔ جنہوں نے ہاتھوں میں مائکروفون پکڑ رکھے ہیں اور وہ انتہائی بدتمیزی سے اس خاتون پر آوازیں کستے ہیں۔ذلت آمیز ریمارکس دیتے ہین۔ طعنوں کے تیر برساتے ہیں پھر اس سارے منظر نامے سے لطف اٹھانے کے لیے اس کی ویڈیو بھی بناتے ہیں۔ خاتون کوئی ردعمل نہیں دیتی وہ چلتی ہوئی بیکری میں جاتی ہے تو یہ ٹولہ اس کا پیچھا کرتا ہے اور وہاں بھی اس کو چین نہیں لینے دیتا۔اس سارے منظر نامے کو آپ کیا کہیں گے سیدھے سادے لفظوں میں یہ پرلے درجے کی بد تہذیبی ہے۔اور ایک فرد کی ذاتیات میں دخل انداز دینے کی انتہائی غلط حرکت ہے کہ بد تہذیبوں کا ایک گروہ بلاوجہ خاتون کو ہراساں کر رہا ہے۔ اس سارے واقعے کو شناخت کے ذریعے دیکھیں کہ جس خاتون کو ہراساں کیا جارہا ہے وہ مسلم لیگ نون کی اس وقت وزیر اطلاعات ہیں اور ہراساں کرنے والا ٹولہ ان کی ایک مخالف سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اگر آپ کی سیاسی وابستگی اس کے ہو تو آپ کو یہ معاملہ اتنا سنگین محسوس نہ ہو کیونکہ پھر ہم اپنے سیاسی خداؤں کی پسندیدگی کے خانوں میں رہ کر چیزوں کو پرکھتے ہیں۔بس ایک لمحے کے لئے مریم اورنگزیب کے جگہ ہم اپنے آپ کو یا اپنی کسی بہن اور بیٹی کو رکھ کر سوچیں تو پھر ہمیں کیسا لگے گا۔ اخلاقی اقدار پر یقین رکھنے والا کوئی بھی شخص جس نے اپنے والدین سے تہذیب اور تمیز کا درس لیا ہے وہ اس کی مذمت کرے گا۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے مثبت سوچ رکھنے والے لوگ اس اس بد تہذیبی کی کھل کر م مذمت کر رہے ہیں۔ اس سارے ایپی سوڈ میں اگر ہم نے مریم اورنگزیب کے حوصلہ مندی اور تدبر کی داد نہ دی تو یہ زیادتی ہوگی۔انہوں نے جس برداشت وقار اور اعلی ظرفی کے ساتھ ہلڑباز ٹولے کا سامنا کیا وہ قابل داد ہے۔ مریم اورنگزیب نے ثابت کیا کہ وہ مضبوط اعصاب کے مالک خاتون ہیں۔ بعد میں ایک اور ویڈیو بھی آئی جس میں مریم اورنگزیب تحریک انصاف ہی کی ایک لڑکی کے سوالوں کے جواب بھی بڑے تسلی کے ساتھ دے رہی ہیں اور خوشی کی بات یہ کہ وہ لڑکی بھی تحمل کے ساتھ سن رہی ہے اور سمجھ رہی ہوں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ وہ مریم اورنگزیب کے اس غیر معمولی تدبر اور کے رویے دل ہی دل میں متاثر ہے۔کچھ افسوس کہ نفرت اور انتشار کے اس طرز سیاست نے اعلی انسانی قدروں کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔ مزید افسوس یہ کہ ہم سماج میں نفرت کا پرچار کرنے والوں کو لیڈر کہتے ہیں۔ ہر بد تہذیب کی طرح ان کی تربیت میں بھی کوئی شدید قسم کا خلا رہ گیا ہے۔ ٭٭٭٭