برصغیر میں دین اسلام کے پھیلانے میں بزرگان دین ، صوفیائے کرام اور مشائخ عظام کی بڑی خدمات ہیں۔ اولیاء کرام بزرگان دین کی تعلیمات طریقت کا درس دیتی ہیں ۔اولیاء اللہ کی تعلیمات ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ رہتی ہیں۔ آج بھی ان بزرگان دین کے مزارات پر رشد و ہدایت کا ہی فیض جاری ہے۔ اولیاء اللہ کے مزارات نفرتیں مٹا کر محبتیں بانٹ رہے ہیں۔ قلم کاروان،اسلام آباد کی ادبی نشست میں اکرم الوری نے سیدابوالحسن علی بن عثمان لاہوری ہجویریؒ کی تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘پر سیرحاصل تبصرہ کرتے ہوئے بتایاکہ صاحب کتاب نے پہلے نفس انسانی،پھر روح انسانی اور پھر جسم انسانی پر سیر حاصل گفتگوکی ہے اور پھران تینوں کا اس کائنات سے تعلق اور تعلق باللہ کے بیسیوں طریق پر روشنی ڈالی ہے۔ کشف المحجوب میں اسلامی تصوف کا بہت بلند معیار پیش کیا گیا ہے۔ اس میں اولیاء عظام کی کرامات اور خوارق کا بھی ذکر ہے۔ نیز ان کے بیسیوں اقوال اور نصائح کے ساتھ اوصاف حسنہ ، صبر و قناعت، ایثار و سخاوت، ہمت، استغنائ، صداقت اور اخلاص کی وہ تابناک مثالیں پیش کی ہیں جو ان بزرگوں کے فضل و شرف کی اصلی برہان اور اسلامی تہذیب و اخلاق کی عظمت کی دلیل ہیں۔ مزید برآں مصنف تحقیق پسند تھے اور تحقیق کا بھی بہت بلند پایہ مجتہدانہ معیار ان کے پیش نظر تھا۔ تمثیلات میں اخلاق و الٰہیات کے معارف بکھرے پڑے ہیں۔ اسی طرح جگہ جگہ نفس انسانی کی وہ کوتاہیاں بھی منظر عام پر لائے ہیں جن تک بزرگان باعمل ہی کی نگاہ پہنچ سکتی ہے۔ ادبی نشست کے شرکاء نے کہا کہ برہمن کے دیش میں خواجہ نظام الدین اولیاء اوران کے رفقائے کار نے شمع توحید روشن کی۔ باقی مذاہب کا تصوف نفسانی طہارت سے خدا تک تو پہنچ جاتا ہے لیکن زندگی گزارنے کاکوئی نظام وضع نہیں کر پاتا جب کہ اسلام کا تصوف عبادات سے سیاسیا ت و معاشیات وغیرہ تک مکمل راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ صرف نبی ﷺکی اطاعت ہی منہاج تصوف ہے اوراس کے علاوہ سب جہالت ہے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انہی بزرگان دین کے نقش ِقدم پر چلتے ہوئے معاشرے میں اپنا کردار ادا کریں۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ 1166 ء میں ہندوستان تشریف لائے اور اجمیر کو اپنا مرکز رشد و ہدایت بنایا۔ ہندوؤں کے وہ نچلے اور اچھوت طبقات جنہیں معاشرے میں کوئی حیثیت حاصل نہ تھی آپ نے انہیں اسلام کے عادلانہ نظام سے متعارف کروایا۔ جس کی بدولت لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہو گئے۔ 1193 ء میں سلطان محمد غوری جب ہندوستان آیا تو اْس کا مقابلہ والئی ہند رائے پتھورا سے ہوا۔ رائے پتھورا زندہ گرفتار ہوا اور اس سے حکومت بھی چھن گئی۔ یہ امر اْس دعا کا منظر نامہ ہے جو حضرت معین الدین نے کی تھی کہ ’’پتھورا کو ہم زندہ گرفتار کریں گے اور اسے سزا دیں گے‘‘۔ ہندوستان کے مرکز دہلی میں خواجہ بختیار کاکیؒ نے رشد و ہدایت کا سلسلہ عام کیا۔ سلطان التمش آپ کا بہت معتقد تھا۔ چشتیہ سلسلے کے مشہور بزرگ بابا فریدؒ نے پاکپتن کو فیضان بخشا۔ بے حرصی اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ سلطان ناصر الدین محمود نے اپنے نائب غیاث الدین بلبن کو بابا صاحب کی خدمت میں زرِ نقد اور چار دیہات کا جاگیر نامہ بھیجا مگر آپ نے وہ نقدی لوگوں میں تقسیم کر دی اور جاگیر نامہ یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ ’’اس کے دوسرے طالب بہت ہیں‘‘۔ آپ کے زہد و تقویٰ اور انسان دوستی کے سبب مغربی پنجاب کے بڑے بڑے قبائل جن میں سیال، راجپوت، وٹو وغیرہ شامل ہیں آپ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ برعظیم پاک و ہند اسلام تلوار کے زور پر نہیں بلکہ اپنے عادلانہ اصولوں کی بنیاد پر پھیلا۔ مسلمان اِس خطے میں ہندوؤں کے مقابلے میں بہت کم تھے۔ محض تلوار کے دم پر اکثریتی غیر مسلم آبادی کو آٹھ سو سال تک زیرِ نگیں نہیں رکھا جا سکتا۔ آج ہمیں صوفیاء کا تعارف کروایا جاتا ہے تو محض رسمی اور کراماتی انداز میں اولیاء اللہ کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی جدوجہد جس کے نتیجے میں اسلام کا عادلانہ نظام قائم ہوا ہمیں نہیں بتلایا جاتا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تاریخ کا مطالعہ تقلیدی اور انفرادی نقطہ نظر سے کرنے کے بجائے تخلیقی اور اجتماعیت کے اْن پہلوؤں سے کریں جن کے بغیر کسی بھی مہذب معاشرے کی تشکیل ناگزیر ہے۔ بزرگان دین اور ولی اللہ روشنی کے مینار ہیں۔ برصغیر، پاک و ہند میں آج 50 کروڑ سے زائد مسلمان اللہ اور اس کے رسولﷺؐ کے دین پر عمل پیرا ہیں۔اس میں ان بزرگان دین کا بڑا کردار ہے۔ ولی اللہ اللہ کی برگزیدہ ہستیاں ہیں جن کی نگاہیں وہ پوشیدہ چیزیں دیکھ سکتی ہیں جو انسانی آنکھ دیکھنے سے محروم ہے ان کے نقش قدم پر چلنے والے 40 دن تک مسلسل وضو میں رہیں ان کی آنکھ، کان، زبان اور جسم سے کوئی گناہ سرزرد نہ ہو تو انہیں یہ عرصہ گزرنے کے بعد معلوم ہو گا کہ دنیاوی عہدے، مرتبے اور مال و دولت کی کوئی وقعت نہیں اور اللہ تعالیٰ ان کیلئے غیب کے پردے کھول دیتا ہے روحانیت کی ابتداء حضوری میں ہے اور حضوری آپﷺؐکے اسوہ حسنہ کی پیروی، شریعت محمدی میں موجود ہے ۔ ٭٭٭٭٭