پنجابی زبان کے عظیم شاعر حضرت وارث شاہ کے بارے میں جاننے کا موقع اس وقت ملا جب ہمارے ہمسائے چودھری حشمت نے میرے والد صاحب کو مثنوی ہیر وارث شاہ کا تحفہ گفٹ کیا۔ یہ ساٹھ کے عشرے کی بات ہے ۔ اس وقت میری عمر سات آٹھ سال ہو گی۔ مجھے یاد آتا ہے کہ چودھری حشمت خان پور کی ایک ٹیکسٹائل مل ’’بی ٹی ایم‘‘ میں کام کرتا تھا اور پنجابی شاعری سے اسے اُنس تھا۔ جب انہوں نے ہیر وارث شاہ کا نسخہ دیا تو وارث شاہ کے کلام کو مخصوص انداز میں پڑھ کر بھی سنایا اور ساتھ گریا بھی کرتا رہا۔ کلام سنانے کے بعد اس نے خود ہی بات شروع کر دی کہ وارث شاہ کے کلام میں بہت سوزو غداز ہے اور ان کے کلام کو پڑھتے ہوئے مجھے ہندوستان سے ہجرت کے واقعات یاد آگئے۔ کچھ واقعات سنائے اور کہا کہ سکھوں نے پنجابی مسلمانوں پر بہت مظالم ڈھائے۔ گاجر مولی کی طرح انسانوں کو کاٹ دیا اور دوشیزائیں اغوا کر لیں۔ کوئی کہاں بکھر گیا، کوئی کہاں۔ میں جب بھی کوئی دکھی کلام پڑھتا ہوں تو مجھے اپنا پیش قبیلہ یاد آجاتا ہے۔ بلا شبہ وارث شاہ کا کلام فوک وژڈم کا بہترین نمونہ ہے۔ ہم اس عظیم تخلیق کار کی زندگی کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں مگر افسوس کہ وارث شاہ کی زندگی کے بارے حتمی معلومات دستیاب نہیں ہیں، وہی کچھ ہے جس کے اشارے انہوں نے اپنی عظیم تخلیق ’’ہیر‘‘ میں پیش کئے ہیں۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ وارث شاہ 1706 جنڈیالہ شیر خان (ضلع شیخوپورہ) میں پیدا ہوئے۔ اور یہی ان کی جائے وفات بھی ہے۔ ان کے والد کا نام سید قطب شاہ تھا۔ جنڈیالہ شیر خان میں ہی انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی لیکن جب ہوش سنبھالا تو اعلیٰ تعلیم کیلئے قصور میں مولوی غلام مرتضیٰ کے مدرسہ میں چلے گئے۔ یہ بہت بڑی درسگاہ تھی۔ یہاں فقہ و حدیث کے علاوہ صرف ونحو کی بھی تدریس ہوتی تھی۔ یہی وہ مدرسہ ہے جہاں سے عظیم صوفی شاعر بابا بلھے شاہؒ نے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ وارث شاہ نے اس مدرسہ سے ظاہری علوم کے حصول کے بعد باطنی فیض کے لیے بابا فرید گنج شکرؒ کے دربار پر حاضری دی۔ حضرت وارث شاہ تحصیل علم کے بعد ٹھٹھہ جاہد گائوں آگئے اور ایک پرانی سی مسجد میں عبادت کے ساتھ وعظ و نصیحت کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ آپ خوش الحان تھے ۔ آپ کے خطاب سے لوگ بہت متاثر ہوتے تھے اور اس طرح آپ کے عقیدت مندوں کی ایک جماعت بنتی گئی۔ کوئی شخص اس وقت تک بڑا نہیں بن سکتا جب تک اسے اپنے خطے کے کلچر سے محبت نہ ہو اور وہ خطے کے تمام لوگوں سے پیار نہ کرتا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ شاعر پہلے عاشق ہوتا ہے پھر بڑا شاعر بنتا ہے۔ خواجہ فریدؒ نے بھی روہی سے محبت کی۔ تاہم عشق ہی وہ جذبہ ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا کہ ’’عقل کو ثبات نہیں، عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ‘‘ سچی اور حقیقی بات یہ ہے کہ یہ عشق ہی تھا جس نے ہیر کی تخلیق کو شاہکار بنا دیا اور آج لوگ رانجھے کی ہیر نہیں وارث شاہ کی ہیر کہتے ہیں۔ بہرحال روایت ہے کہ انہیں ’’بھاگ بھری‘‘ نام کی عورت سے محبت ہو گئی تھی اور یہی محبت ہی دراصل ہیر کی تخلیق کا باعث بنی جبکہ قصہ میں بھاگ بھری کا نام صرف پانچ ، چھ مرتبہ ہی استعمال ہوا ہے۔ لیکن یہ وارث شاہ کا کمال فن ہے کہیں بھی یہ گمان نہیں ہوتا کہ وہ اس کیلئے محبت کے جذبات رکھتے تھے۔ ہیر وارث شاہ کو میاں محمد بخش کی کتاب سیف الملوک مولوی لطف علی کی سیف الملوک کی طرح بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔اتفاق کی بات یہ ہے کہ مولوی لطف علی (1714-1794) اور وارث شاہ (1706-1798) کا زمانہ ایک ہی بنتا ہے۔ سرائیکی وسیب میں جہاں ایک طرف سرائیکی شعری مجموعہ سیف الملوک کے چرچے تھے تو دوسری طرف پنجابی شعری مجموعہ ہیر وارث شاہ کے چرچے تھے۔ ان بزرگوں کے کلام پر اور ان کی سوانح حیات پر تحقیق کی ضرورت ہے۔ تاہم ایک بات یہ بھی ہے کہ مولوی لطف علی نے خود اپنے قصہ کے بارے میں بتایا کہ اس کی تکمیل کب ہوئی۔ اسی طرح وارث شاہ خود کہتے ہیں کہ یہ داستان 1180ہجری میں مکمل ہوئی جس سے یہ اندازہ بھی لگایا جاتا ہے کہ ان کا سن پیدائش 1135-40 ہجری ہو گا۔ لیکن ان کی تاریخ وفات کے بارے میں کوئی حتمی تاریخ میسر نہیں۔ تاہم یہ واضح ہے کہ وہ اس داستاب کی تکمیل کے بعد قصور اپنے استاد کے پاس تشریف لائے اور اس دوران میں ان کا کلام زبان زد عام ہو چکا تھا۔ چنانچہ وہ اس شہرت کے ساتھ جنڈیالہ شیر خان واپس پہنچے اور یہیں انہوں نے سفر آخرت 1860-70ء انگریز دور میں جب اشاعت کا کام شروع ہوا تو قصہ کو پہلی دفعہ رائے صاحب، منشی گلاب، ملک ہیرا، حاجی چراغ دین، سراج دین نے لاہور سے شائع کیا جبکہ نیاز علی خان، بھائی چتر سنگھ، بھائی کشن سنگھ عارف نے اس کو امرتسر سے چھپوایا اور اس کی مسلسل اشاعت ہوتی رہی۔ پوری دنیا میں طلب اور رسد کا اصول زمانہ قدیم سے ہے۔ جس چیز کی ڈیمانڈ ہوتی ہے وہ بار بار پروڈیوس ہوتی ہے۔ ہیر وارث شاہ کے قصے کی مشہوری، مقبولیت اور پذیرائی دیکھ کر لاہور کے ایک شیر فروش میاں رکن الدین نے پنجاب کے مشہور شاعر میاں ہدایت اللہ سے ایڈٹ کروایا۔ یہ الگ بات کہ انہوں نے اس میں خود اپنا کلام بھی شامل کر دیا۔ یہ تصنیف 1888ء میں شائع ہوئی۔ سچائی یہی ہے کہ انہوں نے ہیر وارث شاہ کو نقصان پہنچایا مگرسچ یہی ہے کہ ہیر وارث شاہ ایک شاہکار کے طور پر آج بھی موجود ہے جو وارث شاہ کے کمال فن کیلئے بذات خود ایک خراج تحسین ہے۔